جنگی جرائم کا ارتکاب بھارت نواز بنگالیوں نے کیا

’’1971ء کی جنگ میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں صرف ایک بیرونی حملہ آور تھا۔۔۔ اور وہ تھا بھارت‘‘

دسمبر1971ء کی پاک بھارت جنگ پر لکھی گئی سرمیلا بوس کی معرکتہ الآرا کتاب Dead Reckoning میں بیان کردہ حقائق نے بھارتی پراپیگنڈہ کا بت پاش پاش کردیا

پاکستان میں1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا ہے، تجزیے کئے جاتے ہیں۔

کتابیں اور مضامین شائع ہوتے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ،تاہم باہر کے ممالک جو ملٹی کلچرل ہیں جیسے امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور جرمنی وغیرہ جہاں جنوبی ایشیائی ممالک کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں وہاں بنگلہ دیشی اور پاکستانی لوگوں کے درمیان یہ بحث اکثر ہوتی ہے کہ پاک فوج نے بنگلہ شہریوں پر مظالم ڈھائے تھے۔

جب پاکستانی بالخصوص ہما ری نئی نسل ان کے سامنے اپنی صفائی دینا چاہتے ہیں تو ان کے پاس ایسے ٹھوس شواہد کا فقدان ہوتا ہے جو پاکستان سے منسوب بہت سی غلط باتوں کا منطقی جواب دے سکیں۔ نو جوان نسل ہرچیز کا جواب گوگل سے ڈھونڈنا چاہتی ہے یا اس موضوع پر لکھ

ی گئی کتابوں سے۔

گوگل کی ان گنت ویب سائٹس، بہت سارے آرٹیکلز اور وکی پیڈیا قتل اور ریپ کے ناقابل یقین اور مبالغہ آمیز اعداد و شمار کی توثیق کرتا ہے کیونکہ ان ذرائع پر بھارتی لابی کا غلبہ ہے۔ یہ لوگ پاک فوج پر گھناؤنے الزامات لگاکردنیا کے سامنے ہمیں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی نہایت غیر مہذب، ظالم اور جاہل ثابت کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ٹاک شوز، اپنے فوجیوں کی تحریروں کو بطور ثبوت پیش کریں تو وہ بیرونی میڈیا ،عوام اور بالخصوص بنگلہ لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ ایسے میں سر میلا بوس کی کتاب '' ڈیڈ ریک ننگ'' اب تک لکھی جانے والی پاک بنگلہ جنگ پر سب سے زیادہ مؤثر کتاب ہے۔

انٹرنیٹ اور گوگل کی فراہم کردہ معلومات پر اندھا یقین کرنے والوں کے نزدیک 1971ء کی بنگلہ دیش کی علیحدگی کے تناظر میں پاکستانی فوج کا کردار بری طرح سے داغدار ہے۔ خاص کر سول کرائم میں اور ان میں بھی بالخصوص وومین ریپ کے حوالے سے۔اس کتاب میںبنگلہ لوگوں یا باغی گروہوں کے خلاف پاک فوج کی کاروائیوں کا بھی ذکر ہے لیکن بہت سارے من گھڑت واقعات کی تردید ثبوت و شواہد کے ساتھ کی گئی ہے جو الزامات کی بھر مار میں قدرے غنیمت ہے۔

کتاب کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہے۔ آج کل کے رواج کے مطابق گھر بیٹھ کر انٹر نیٹ پر سرچ کرکے اور کسی ایک موضوع پر لکھی گئی کتابیں پڑھ کر یہ کتاب نہیں لکھی گئی بلکہ اس کے لئے متعلقہ لوگوں، اداروں، اور مقامات کو ٹٹولا ،کھنگالا بلکہ چھلنی سے نکالا گیا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے اس میں تقریباً ان سب اہم کتابوں کا ریفرنس ملتا ہے جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ قارئین کی رہنمائی کے لئے سرمیلا نے ان پر اپنی رائے بھی دیدی ہے کہ متعلقہ کتاب کتنی سچائی اور کتنی افواہ سازی پر مبنی ہے۔

یہ طے شدہ بات ہے کہ مستقبل میں جو فرد بھی1971ء میں ہونے والے اس سانحے پر ریسرچ ورک کرنا چاہے گا اس کے لئے یہ کتاب نہ صرف مدد گار ثابت ہوگی بلکہ نا گزیر ہوگی۔

کتاب اس لئے بھی مختلف اور موثر ہے کہ اس کا بیانیہ مصنفہ کا اپنا نہیں ہے بلکہ اس میں اعدادوشمار بولتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت سے غیر ملکی مصنفین نے بھی کتابیں لکھی ہیں لیکن سرمیلا کو امریکی اور برطانوی مصنفین پر اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ وہ بنگلہ لوگوں سے گفتگو یا کلچرسے اس طرح واقفیت حاصل نہیں کرسکتے تھے۔

جس طرح سرمیلا ان کی زبان اور کلچر سے واقفیت کی بنا پر ان باریک تاثرات کو محسوس کرسکتی تھی۔ غیر ملکی مصنفین نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ زیادہ تر اخباروں ،میڈیا یا بنگلہ دیش کے سرکاری اعدادوشمار کو بنیاد بنا کر لکھی گئی ہیں۔ سرمیلا کی تحقیق کے مطابق ان ذرائع کی فراہم کردہ معلومات میں بہت خلا اور مبالغہ آمیزی کے علاوہ شواہد کی کمی ہے جبکہ حقائق کی صحیح جانچ کے لئے دوسرے کی کہی بات کی بجا اپنی آنکھ کا باریک بینی سے کیا گیا مشاہدہ بہت ضروری ہوتا ہے۔

بہت سے بنگالی اور ہندوستانی اس کتاب کو جانبدارانہ کہتے ہوئے رد کرتے ہیں لیکن ہمارے لئے یہ ایک دستاویز ہے کیونکہ یہ کتاب اکثر مقامات پر غیر جانبداری سے تجزیہ کرتے ہوئے پاک فوج پر لگائے گئے الزامات کو جھٹلاتی ہے۔ اگرچہ سرمیلا بوس نے مکمل طور پر پاک فوج کو شہری جرائم سے پاک قرار نہیں دیا لیکن کافی حد تک ان کی ریسرچ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اعدادوشمار میں گھپلہ ہے، اور بہت ساری بتائی گئی باتیں صرف افواہیں ہیں۔

پہلے باب میں ہی وہ اس بات کو کھول کر بیان کرتی ہیں کہ بنگلہ دیش کی عوامی تحریک قطعاً بھی پرامن نہیں تھی بلکہ مجیب کی اپنے لوگوں کو تاکید تھی کہ جو کچھ ہاتھ آئے وہ لے کر دشمن کے مقابلے پر آؤاور اس کے پیرو کاروں نے وہی کیا جو اس نے کہا۔(صفحہ 26)

کتاب میں جا بجا عوامی لیگ کا پر تشدد رویہ دکھایاگیا ہے حتیٰ کہ فوج پر تھوکنا اور ان کے ہتھیار چھیننا اور کچھ شدت پسندانہ لڑائی کے بعد اموات ہونا۔

گھروں میں بم بنانے اور زیادہ سے زیادہ ہتھیار اکٹھے کرنے کا رجحان زوروں پر تھا ۔کثرت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں لوگ مرنے مارنے کو تیار تھے۔

زمانہ حاضر میں علم حاصل کرنا آسان ہے لیکن حقائق تک رسائی مشکل ہے۔پراپیگنڈے اور جھوٹ کے پھیلاؤ نے بہت سارے تاریخی معاملات کی سچائی کو داغدار کیا ہوا ہے۔ جس طرح خالص Organic اشیاء کا حصول مشکل ہے اور نا خالص کا آسان اسی طرح عوام کی رسائی پھیلائی ہوئی باتوں تک زیادہ آسان ہے۔ انٹر نیشنل میڈیا کا مشن بن چکا ہے کہ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا عوام کی برین واشنگ کرنا۔ انڈیا نے کام ہمیشہ سے یہی کام کیا ہے اور بہت وسیع پیمانے پر کیا ہے۔

اگر1971ء کے حوالے سے کوئی انجان شخص معلومات حاصل کرنے کے لئے گوگل کا سہارا لے گا تو وہ سو فیصد پاکستان کو قصور وار اور پاک فوج کو دنیا کی غیر مہذب ترین فوج سمجھے گا ۔ کیونکہ ایک سے ایک مضمون ایسے اعداد و شمار سے بھرے پڑے ہیں جو ہماری فوج کے بنگالیوں پر مظالم کے عینی شاہد بھی ہیں اور سچے قلمکار بھی۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وکی پیڈیا بھی دولاکھ سے چالیس لاکھ ریپ اور تین لاکھ سے تیس لاکھ قتل اور دس لاکھ لوگوں کی نقل مکانی بتاتا ہے ساتھ ہی اس کو سب سے بڑا جینو سائڈ ، تاریخی قتل عام اور دنیا کی تاریخ میں ریکارڈ ریپس کی جنگ کہا جاتا ہے۔

تین ملین کا ہند سہ ایک ہتھوڑے کی طرح ہمارے سروں پر مارا جاتا ہے، یہ عدد انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود سائٹس پر اس قدر زیادہ دہرایا گیا ہے کہ1971ء کا ذکر آتے ہی تین ملین لازمی ذہن میں آتا ہے۔ اتنے افراد کا قتل ایک معنی رکھتا ہے، اور وہ بھی اپنے ہم مذہب لوگوں کا۔

سرمیلا سے پہلے بھی پاکستانی مصنف جنرل راو فرمان علی اپنی کتاب How Pakistan divided میں یہ لکھ چکے ہیں کہ اعدادوشمار بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے ہیں۔ ان پر بھی بنگلہ لوگوں نے تنقید کی اور یہ کہا کہ کم یا زیادہ سے فرق نہیں پڑتا، قتل تو قتل ہے ، دو کا یا سو کا لیکن پاکستان کو فرق پڑتا ہے۔سرمیلا نے اپنی کتاب میں اس گنتی کا بہت اچھی طرح سے جائزہ لیا ہے، ان اعدادوشمار کی جڑ میں جا کر تحقیق کی ہے کہ آیا واقعتاً یہ تین ملین قتل تھے؟ سرمیلا کو یہ اعتراض ہے کہ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مغربی میڈیا میں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے بغیر تصدیق کے یہ اعدادوشمار دہرائے جاتے رہے ہیں۔ (صفحہ 176)

تین ملین لوگوں کے قتل کے لئے پوری دنیا میں بنگالی نینشنلسٹ اور ہندوستانی اور بہت سے پاکستانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے1971 میں بنگالیوں کی نسل کشی کی تھی۔ وہ سارے لوگ'' بے گناہ'' تھے، فوج سے لڑنے والے نہیں تھے( تین ملین اور بے گناہ کو ''واوین''میں لکھنا ہلکے طنز کو ظاہر کرتا ہے)۔(صفحہ 175)

سرمیلا لکھتی ہیں کہ خود میری کلکتہ کی بچپن کی یادوں میں تین ملین قتل کا ہندسہ میرے ذہن میں تھا۔ میراخیال تھا یہ عدد زمینی اعدادوشمار کی گنتی کے بعد قریب ترین اندازہ ہو گا۔ اس سلسلے میں تحقیق کے لئے جو مواد دستیاب ہے وہ بنگالی اور انگلش میڈیا کے اخبار، مضامین،کتابیں، فلمیں اور ویب سائٹس ہیں جو تین ملین کی نسل کشی کا الزام لگاتی ہیں جو کسی بھی طرح زمینی حقائق پر مبنی سروے کی رپورٹ نہیں ہے۔

سیسن اور روز لکھتے ہیں کہ '' تین ملین قتل کی تعداد انڈیا کی بتائی ہوئی ہے جبکہ کچھ بنگالی ذرائع یہ کہتے ہیں کہ جب شیخ مجیب نو ماہ بعد مغربی پاکستان کی جیل سے واپس آیا تو اس نے '' تین ملین'' کی تعداد کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ Richard Sisson and Leo E. Rose. War and Secession: Pakistan, India, and the Creation of Bangladesh.

کو سب سے زیادہ مصدقہ اور تحقیق پر مبنی کتاب مانا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے1971ء پر لکھی گئی کتابوں میں'' بائبل'' بھی کہا گیا ہے۔

11 جنوری 1972ء کو ''دی ٹائم'' میں '' ہیزل ہرسٹ'' کی رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ اپنی پہلی پبلک ریلی میں شیخ مجیب نے اعلان کیا ہے کہ ''مجھے پتا چلا ہے کہ انہوں نے میرے تین ملین لوگوں کو مارا ہے۔''

رپورٹس بتاتی ہیں کہ شیخ مجیب کو یہ تعداد بتائی گئی جو اس نے آگے اعلان کردیا۔ 1972ء میں شیخ مجیب نے ایک کمیٹی تشکیل دی کہ اس سلسلے میں تحقیق کرے لیکن اس انکوائری کمیٹی کی تحقیق کی کہیں کوئی رپورٹ نہیں ملتی کہ انہوں نے کیا نتائج اخذ کیے۔ نہ ہی فوج کی طرف سے اعداد و شمار کی کوئی رپورٹ ملتی ہے۔

آگے جا کر سرمیلا بہت ساری کتابوں کے حوالے دیتی ہیں لیکن وہ ان میں سے کسی کو بھی اعتبار کے قابل نہیں سمجھتیں کیونکہ وہ سارے مصنفین کوئی ریفرنس یا مصدقہ ذرائع نہیں بتاتے جو اس تعداد کو صحیح ثابت کر سکیں۔

تین ملین کا ہند سہ بغیر کسی ثبوت کے اتنا دہرایا گیا کہ کوئی بھی بیرونی تجزیہ کار دعووں اور حقائق کے درمیان بہت بڑا خلا نوٹس کرتا ہے۔ 6 جون 1972ء کو ''دی گار ڈین'' اخبار میں ولیم ڈر منڈ "missing million " کے نام سے ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ

'' تین ملین اموات کا ہند سہ، جو کہ شیخ نے جنوری میں بنگلہ دیش آنے کے بعد کئی دفعہ دہرایا ہے بغیر تحقیق کے دنیا کی پریس میں جگہ بنا رہا ہے۔ اس طرح کے دعوے کو دہرائے جانے سے آہستہ آہستہ اس پر اعتباربڑھتا ہے لیکن اسے حقیقت پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔''

وہ مزید لکھتے ہیں کہ '' میں بنگلہ دیش کے کئی دورے کرنے اور دیہاتوں سے لے کر حکومتی سطح پر بہت سارے لوگوں سے تفصیلی گفتگو کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تین ملین لوگوں کا قتل اتنی بڑی مبالغہ آمیزی ہے جسے ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔''(صفحہ 176)

اپریل1971ء میں بنگلہ دیشی دعویٰ آیاکہ ایک قبر میں ہزار لوگ دفن ہیں۔ ہنری کسنجر کے حیران کن تبصرے پر ڈر منڈ جون1972 ء میں لکھتے ہیں:'' یقیناً بنگلہ دیش میں بہت زیادہ قبریں ہیں لیکن کوئی بھی حتیٰ کہ پاکستان سے شدید نفرت کرنے والا شخص بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ وسیع قبریں صرف نشانہ بننے والوں کی ہیں۔ مزید براں جب ایک مشترکہ قبر میں سے لاش برآمد ہوتی ہے تو یہ ضروری نہیں کہ اسے پاکستانی فوج نے مارا ہوگا۔

آگے جا کرڈرمنڈ مزید لکھتے ہیں کہ ہاں! پاکستانی فوج نے قتل کئے تھے لیکن بنگلہ دیشیوں نے اتنا حد سے بڑھا کر پیش کیا ہے کہ ان کی صداقت کھوکھلی ہوگئی ہے۔ ڈر منڈ لکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی ہوم منسٹری کی تحقیق کے مطابق 1972ء میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے دوہزار افراد کی شکایات کا اندراج ہوا تھا۔


سرمیلا لکھتی ہیں کہ ان حالات میں تین ملین کا عدد ایک بہت بڑی افواہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ جب تک قابل قبول اور قابل یقین اعدادوشمار پیش نہیں کئے جاتے، دانشوروں اور مبصرین کو ان اعداد کو دہرانا بند کرنا چاہیے۔ حکومت کو بہت ہی شفاف اور قابل اعتبار طریقے سے تحقیقات کے بعد سرکاری طور پر متعلقہ حکومتوں کو مصدقہ اموات کی تفصیل جاری کرنا چاہیے۔

سرمیلا نے اس میں جو انداز اپنایا ہے وہ بہت محتاط، دلچسپ اور مصدقہ ہے۔ مصدقہ اس لئے کہ انہوں نے حتی المقدور ذاتی رائے ٹھونسنے یا فرسٹ پرسن نیریشن سے احتراز کیا ہے۔ وہ ایک واقعے کے مختلف عینی شاہدین سے ملتی ہیں، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا، ان کے بیان کو قلم بند کرتی ہیں پھر وہ قاری پر فیصلہ چھوڑتی ہیں کہ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرے۔ اس طرح اکثر بہت دلچسپ حقائق جو اپنی جگہ تکلیف دہ بھی ہیں سامنے آتے ہیں۔

سرمیلا بوس پر جانبداری کا الزام لگانے والوں کو سرمیلا کی اس کتاب کو ہی نہیں بلکہ اس کی پوری شخصیت کو سمجھنا ہوگا۔ سرمیلا خود اپنی سوچ اور ذہنی بت کے خلاف کھڑی ہونے کو تیار ہیں جو اس کے اکثر انٹرویوز میں ثابت ہوتا ہے۔ حالانکہ کسی بھی شخص کے لئے سب سے مشکل کام اپنے نظریے اور سوچ کا رد کرنا ہوتا ہے۔ ڈیڈ ریکننگ کے صفحہ 5 پر سرمیلا لکھتی ہیں :

1971پر صرف ایک کتاب تجزیے،تحقیق اور مقصدیت کی بنا پر لکھی نظر آتی ہے جو امریکی سکا لرز رچرڈ سیسوناور لیو روز نے لکھی ہے :War and Secession: Pakistan, India and the creation of Bangladesh (1991)

سیسون اور روز نے اس موضوع پر تحقیق کی اوربہت سے لوگوں کے پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور امریکہ میں انٹرویوز کئے۔ان کے کام کو منفرد مقام اس لئے بھی حاصل ہے کہ اس کتاب میں بہت سارے سینیئرلوگوں کی آراء شامل ہیں جو اب زندہ نہیں رہے۔

آگے جا کر سرمیلا لکھتی ہیں کہ '' ان دو نامور سکا لرز کو پڑھنے کے بعد میرے اندر1971 کے واقعات کی اصلیت جاننے کا یہ شوق جاگزیں ہوا کیونکہ ان دوسکا لرز کی تحقیق میرے کلکتہ کے بچپن کی ان یادوں سے بہت مختلف تھی ،جو1971 کے بارے میں عوام کی غالب رائے اور فہم کا عکس تھیں۔''

انسانی سوچ کی معراج یہی ہے کہ اپنی پرانی اور پختہ سوچ کو کسی نئی اور صحیح بات کا پتا چلنے پر ترک کر دینا۔ جیسا کہ یہاں سرمیلا نے کیا۔ صفحہ 6 پر وہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ حقائق کو اکٹھا کرکے ایک مستند کتاب لکھ سکیں۔ اس کے لئے وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ان لوگوں سے ان علاقوں میں جا کر ملیں جو ان واقعات کے عینی شاہد تھے، ان پر یہ سب بیتا تھا، جوان سب کابذات خود شکار ہوئے تھے۔

سرمیلا کی کتاب پر تنقید کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ برسوں سے جو اعداد و شمار کا قد آور بت بڑی محنت سے بنایا گیا تھا وہ ڈیڈ ریکننگ کے بعد ٹوٹتا نظر آتا ہے۔ اس لئے کہ دو سو کو دو کہنے والے عینی شاہد ابھی زندہ ہیں جن تک کوئی بھی سرکاری تحقیقی کمیٹی نہیں پہنچ سکی۔

سرمیلا کی کتاب پر سب سے بڑا الزام کتاب کا جانبدار ہونا اور پاکستان کی طرف جھکاؤ کے ساتھ پاک آرمی کی مثبت تصویر کشی ہے (ایک حد تک) لیکن اس بات کی تردید خود سرمیلا کا شخصی پس منظر کر دیتا ہے۔ سرمیلا ایک بنگالی ہندو خاتون ہیں جن کا خاندان بنگالی نینشنلسٹ تھا اور پاکستان سے ان کا دور دور تک کوئی لگاؤ ثابت نہیں ہوتا۔ سرمیلا بوس اس لیول پر ہیں جہاں وہ بچپن کے واقعات کی لاشعوری یادوں کو سنجیدہ عمر میں شعور کی کسوٹی پر ماضی کے تناظر میں لے جا کر ان کی سچائی کو پرکھ سکیں۔

'' میرے لیے اس کتاب کو لکھتے ہوئے جو بڑا چیلنج تھا وہ کسی بھی تعلق اور لا تعلقی میں توازن برقرار رکھنا تھا۔ کام کے آغاز میں، جنرل نیازی کا انٹرویو کرنے کے بعد میں نے ان سے ذکر کیا کہ میں 1971 ء کے بارے میں لکھنا چاہتی ہوں لیکن جذباتی ہوئے بغیر۔''

'' نہیں، جذبات کو برقرار رکھو، اس طرح تم اچھا لکھ سکو گی''۔

وقت گزرنے پر مجھے احساس ہوا کہ وہ ٹھیک کہتے تھے۔1971 کی یادوں کے ساتھ جذباتی وابستگی قائم کئے بغیر مجھے اس موضوع پر لکھنے کی تحریک نہیں مل سکتی تھی۔ (صفحہ 12)

کتاب کو اشاعت کے فوراً بعد امریکا کے ولسن سینٹر میں رونمائی اور تجزیے کے لئے پیش کیا گیا۔ ولسن سینٹر جو غیر جانبدار اور تعصب سے بالاتر ادارہ ہے۔ وہاں مدعو صحافیوںاور ناقدین کی طرف سے اس پر بہت کڑی تنقید بھی کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ تاریخی حقائق کا توڑ مروڑ ہے۔

ایک صحافی نے سرمیلا صاحبہ سے یہاں تک پوچھ لیا کہ آپ کو آئی ایس آئی کی طرف سے پیسے دئیے گئے ہیں یہ کتاب لکھنے کے لئے؟ جس کے جواب میں سرمیلا نے کہا کہ نہیں! ایسا کچھ نہیں ہے لیکن اس تنقید کی کوئی خاص اہمیت اس لئے نہیں کہ وہ سب اینٹی پاکستان ہندو اور بنگالی تھے یا شاید کچھ دوسرے لوگ بھی۔ جب سالہا سال تصویر کا ایک رخ پیش کیا گیا ہو تو لوگوں کے لئے دوسرے رخ کو دیکھنا اور سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بنگلہ دیشی اخبار، کتابیں اور میڈیا اس بات کا داعی رہا ہے کہ پاک فوج بنگالیوں کی نسل کشی کے علاوہ انسانیت سوز جرائم میں ملوث تھی۔

بنگلہ دیش کا'' وار میوزیم'' ایسی دستاویزات اور تصاویر سے بھرا پڑا ہے جوبنگالیوںکو مظلوم اور پاک فوج کو ظالم کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ایسے میں سرمیلا اپنی تحقیق سے ڈھاکہ وار میوزیم کی فراہم کردہ معلومات کو سراسر غیر حقیقی ثابت کرتی ہیں۔

سرمیلا کا مشرقی اور مغربی پاکستان کے آپس کے تعلقات کے تجزیے کے بعد ایک بہت معنی خیز اور قابل غور فقرہ ہے،

'' اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان میں صرف ایک بیرونی حملہ آور تھا اور وہ تھا انڈیا۔''

سرمیلا نے کتاب کو لکھنے میں چھ سال صرف کئے اس دوران انہوں نے ان گنت بار پاکستان اور بنگلہ دیش کا سفر کیا، بہت سارے پاک آرمی کے لوگوں سے ملاقات کی۔ ان کے پاس ایسے لوگوں کے انٹرویوز ہیں جو پہلے منظرعام پر آکر اس موضوع پر نہیں بولے۔کچھ لوگوں نے انہیں انٹرویو دینے سے انکار بھی کیا جس میں کچھ پاکستانی فوج کے لوگ بھی شامل ہیں لیکن سرمیلا کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش اورپاکستان کے کچھ اہم کرداروں سے ملاقاتیں کیں جیسے کہ صاحب زادہ یعقوب اور جنرل نیازی۔

کتاب کی غیر جانبداری کا تیسرا ثبوت یہ ہے کہ وہ عوام کی بات کو من وعن لکھتی ہیں۔ اگر ایک جگہ کسی نے سو افراد کا قتل بتایا ہے تو دوسرا شخص وہاں صرف دو افراد کا قتل بتاتا ہے تو سرمیلا دو اور سو کو بغیر اضافے اور کمی کے لکھتی ہیں۔ ہاں! وہ شواہد کی تحقیق اس طرح کرتی ہیں کہ اکثر قاری سو اور دو کا خود فیصلہ کر لیتا ہے۔

مثال کے طور پر صفحہ 156 پر سرمیلا قتل کی مبالغہ آمیز رپورٹس کے بارے میں لکھتی ہیں کہ '' مارے جانے والے لوگوں کے بارے میں بنگلہ پریس نے اس قدر خوفناک کہانیاں شائع کیں کہ ان کی وجہ سے مرنے والوں کے رشتہ داروں کی تکلیف کئی گنا زیادہ ہوگئی۔ ڈھاکہ کے '' وار میوزیم'' کے ڈائریکٹر نے پوری سنجیدگی سے سرمیلا کو بتایا کہ ایسی رپورٹس موجود ہیں جن میں یہ درج تھا کہ مرنے والوں کو مخصوص طریقوں سے ٹارچر کیا گیا مثلاً آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر علیم چوہدری کی آنکھیں نکال دی گئی تھیں، ماہر امراض قلب ڈاکٹر فضل ربی کے سینے سے ان کا دل نکال دیا گیا تھا، اور اسی طرح باقی لوگوں کے ساتھ کیا گیا۔ اس طرح کی رپورٹس بنگلہ دیشی اخباروں اور کتابوں میں شائع ہوئی تھیں اور ''لبریشن وار میوزیم'' نے ان رپورٹس کی ایک کاپی سرمیلا بوس کو مہیا کی۔

اسی صفحے پر وہ آگے جا کر لکھتی ہیں:

'' میں پہلے ہی مسز چوہدری ( ڈاکٹر علیم چوہدری کی بیوہ) کا انٹرویو کر چکی تھی اور انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں کے نکالے جانے سے متعلق کوئی بات نہیںکی تھی، پھر بھی میں نے اپنے استفسار کی وجہ بتائے بغیر ان سے معافی چاہتے ہوئے کہ انہیں اس موضوع کو دہراتے ہوئے ذہنی تکلیف سے گزرنا پڑے گا۔ انہیں کریدا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے جسم پر لگے سارے زخموں کی تفصیل بتا ئیں۔ مسز چوہدری نے کہا کہ وہ مائنڈ نہیں کرتیں اور بہت ٹھہراؤ کے ساتھ انہوں نے ساری تفاصیل بتائیں جو ان کی شائع شدہ یادداشتوں میں بھی چھپ چکی ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق ڈاکٹر چوہدری کی آنکھوں میں کوئی زخم نہیں تھے۔

ڈاکٹر فضل ربی کی باڈی جو ''ریر بازار'' سے ملی تھی کے بارے میں مسز ربی لکھتی ہیں'' ان کی بائیں گال اور پیشانی کے بائیں جانب گولیوں کے سوراخ تھے۔ ان کی چھاتی میں بھی کئی گولیوں کے زخم تھے، میں نے گنتی نہیں کی کہ کتنے تھے۔ لیکن یہ جھوٹ ہے کہ ان کا سینہ کاٹا گیا تھا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں ان کے سینے کو پکڑ کر دیکھا تھا۔ گویا مسز ربی کو اس جھوٹے بیانیے کا علم تھا اور انہوں نے کئی برس پہلے اپنی یاد اشتوں میں اس سے اختلاف بھی کیا تھا۔ اس کے باوجود پندرہ سال بعد بھی ڈھاکہ کے ذمہ دار حلقوں میں لا یعنی افواہیں دہرائی جاتی رہیں۔ (صفحہ 176)

''بڑے آپریشن ہمیشہ انڈیا کرتا ہے۔۔۔ پھر وہ اسے مکتی فوج کی '' فتح'' کہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم احسان فراموش ہیں، لیکن یہ ہماری جنگ اور ہما ری زمین ہے۔ ہم اسے خود لڑنا چاہتے ہیں۔''

باغی بنگالی رضا کار،برطانوی بنگالی جرنلسٹ سے بات چیت، دی گار ڈین اگست 1971ء

''پراپیگنڈا مشین بہت محنت کرتی ہے جو رنگ لاتی ہے۔ ایک دھوتی پہن کر بندوق ہاتھ میں پکڑ کر مکتی باہنی گوریلے راتوں رات ہیرو بن گئے۔۔۔۔کہانی پر مبنی کامیابی کی خبر بھوکے پریس نے نگل لی جسے ہرکسی نے قبول کرلیا۔''

میجر جنرل لچھمن سنگھ، انڈین آرمی، (صفحہ 127)

انڈین فوج کے یونٹ مکتی باہنی کو کنٹرول کرنے کے مقاصد پورے کرنے کے بعد اپنے علاقے میں واپس چلے گئے،اگرچہ یہ بہت محدود وقت کے لئے تھا،جیسے کہ، انڈینز کااس وقت پریشان ہونا جب پاکستانی فوج کے جوابی حملے پرمکتی باہنی بمشکل اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکی۔ سیسن اینڈ روز، وار اینڈ سیشن: پاکستان،انڈیااینڈ کری ایشن آف بنگلہ دیش۔ (صفحہ 127)

سرمیلا کہتی ہیں کہ کتاب لکھنے کے دوران ان پر بہت حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں۔ اچھائی اور برائی کا تصور اپنے نئے معنی کے ساتھ ان کے سامنے آیا ہے۔ بہت ساری عجیب باتوں میں سے ایک کا وہ خاص طور پر ذکر کرتی ہیں کہ بنگالی لوگوں کا علاقوں کے لحاظ سے اچھے اور برے کرداروں کا تخیلاتی اختراع۔ مثلا انہیں ان گنت ایسے بنگالی لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جو پاک فوج کو برا سمجھتے ہیں لیکن بلوچی فوجیوں کی تعریف کرتے ہیں۔ شہروں، دیہاتوں غرض پورے ملک میں ایسی عورتیں ملیں۔

جنہوں نے فوج کی نرمی اور اچھائی کا کوئی واقعہ سنا کر کہا کہ وہ فوجی اس لیے اچھا تھا کہ وہ بلوچی تھا۔ اس کے برعکس جہاں کسی فوجی کی زیادتی اور برائی کا ذکر کرنا ہو تو وہ اسے پنجابی کہہ کر مختلف ا لنوع گالیاں دیتے ہیں جن میں سے سب سے ہلکی گالی'' پنجابی ککڑ'' ہے۔ بلوچی فوجی جا بجا بنگالیوں کی مدد کرتے ہیں ان کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ ایک واقعہ میں تو بلوچی فوجیوں کی آنکھوں میں عورتوں کا رونا دیکھ آنسو بھی آجاتے ہیں۔ بہت سارے بنگالیوں نے بلوچی فوجیوںکا ذکر ایسے ہی کیا ہے جیسے اپنی فوج عوام کا تحفظ کرتی ہے گویا اہل بنگال کے نزد یک پاک فوج شیطان اور فرشتے کا امتزاج تھی۔

آگے جا کر سرمیلا کہتی ہیں کہ جب انہوں نے اس سلسلے میں پاک آرمی کے آفیسرز سے بات کی تو انہوں بتایا کہ اتفاقاً 1971 میں کوئی ایک بھی بلوچی رجمنٹ مشرقی پاکستان میں متعین نہیں تھی۔ اب یہ سوال جواب طلب ہے کہ وہ ظالم اور برے پنجابی کون تھے؟

اگر ایک انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے تو ایسے حساس معاملے میں مبالغہ آرائی انصاف کا قتل ہے۔ ہماری آئندہ نسلوں کے لئے مزید ایسی کتابوں کی ضرورت ہے جو تحقیق اور ناقابل تردید شواہد کی دستاویزات ہوں۔ اس سے پہلے کہ وہ چند لوگ جو ان حالات کے عینی شاہد ہیں یا جن کے سینوں میں تاریخی سچائیاں دفن ہیں وہ آنکھیں موند لیں ان سے پوچھ کر سچ کو محفوظ کر لینا چاہئے۔ اگرچہ ہم بالکل صحیح اور غلطیوں سے پاک نہیں ہیں لیکن ناکردہ گناہ بھی ہم پر نہ تھوپے جائیں۔ ہما رے بچے بھلے اپنے بزرگوں کی غلطیوں کے لئے جوابدہ ہوں لیکن انہیں دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بطور وراثت نہیں ملنا چاہئے۔ جس قدر سنگین الزامات کی بوچھاڑ ہے اس کے لئے ایک 'ڈیڈ رینک نینگ' ناکافی ہے۔
Load Next Story