اپنوں کی ستم ظریفیاں
گذشتہ روز مریخ کے مجوزہ سفر پر بھی مصری عالم دین کا فتویٰ آگیا۔
سرسید احمد خان نے دیکھا کہ برصغیر میں ہندو تعلیمی میدان میں باقی سب قوموں سے آگے بڑھتے جارہے ہیں، ہر اسکول اور کالج میں ہندو اور مسلمان طالب علموں کا تناسب دس اور ایک کا ہے اور اگر کہیں پر دو چار مسلمان طلبا ہیں تو وہ بھی انگریزی کے قاعدے کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں، دوسرے لفظوں میں ان دنوں والدین اور مولوی حضرات انگریزی زبان اور کتاب کو ہاتھ لگانا مکروہ قرار دے رہے تھے۔ ایسی صورتحال پر سر سید احمد خان کا ماتھا ٹھنکا اور انھوں نے مسلمان طلبا کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کرنے کی مہم چلائی جس کے نتیجے میں ان پر انگریز کا پٹھو اور کافرہونے کے فتوے لگادیے گئے۔ 1440 میں جرمنی میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور پورے یورپ میں آگ کی طرح پھیل گیا۔
ادھر سلطنت عثمانیہ کے شیخ الاسلام نے فتویٰ دے دیا کہ ہماری مقدس کتابیں ان فرنگی کافروں کی مشینوں پر نہیں چھپیں گی۔ 1550 میں انگریزوں نے ہندوستان میں پرنٹنگ پریس لگایا تو ہند کے علماء نے بھی شیخ الاسلام کے فتوے کی توثیق کردی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس سے ہمارے کاتبوں کی روزی روٹی چھن جائے گی۔ اسے بدقسمتی ہی کہیے کہ ہم نے تقریبا ڈھائی سو سال بعد اس انقلابی ایجاد سے مستفید ہونے کی شروعات کیں۔ 1685 میں انسانی خون کی منتقلی کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ جونہی یہ خبر دنیا میں پھیلی تو کچھ قوموں نے اس سے فائدہ حاصل کرنا شروع کردیا لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی عجب فتویٰ صادر فرمادیا گیا کہ ایک انسان کا خون دوسرے انسان پر حرام ہے۔
اس عجیب و غریب فتوے کو صادر کرنے والے مذہب کے ٹھیکیدار یہ تک بھول گئے کہ قرآن پاک میں اصل حکم یہ ہے کہ ناحق ایک انسان کا خون بہانا دوسرے مسلمان کے لیے حرام اور گناہ ہے۔ بہرحال نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر میں مسلمان ماہرین طب اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے جس کی وجہ سے کئی قیمتی انسانی زندگیوں کو بچایا جاسکتا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں رائٹ برادران نے امریکا میں ہوائی پرواز کا کامیاب تجربہ کیا تو ادھر ہمارے ہاں فتویٰ صادر فرمادیا گیا کہ لوہا تو ہوا میں پرواز کر ہی نہیں سکتا اور جو لوگ اس تجربے سے متاثر ہورہے ہیں وہ اپنے ایمان کی تجدید کرلیں۔ پھر وہی ہوا کہ ساری دنیا میں تو اس ایجاد پر خوشیاں منائی جارہی تھیں اور دنیا بھر کے مسلمان کنفیوزڈ ہوکر ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے تھے۔ سر سید احمد خان نے انگریزی تعلیم پر زور دیا تو ان کو کافر کہہ دیا گیا۔ علامہ اقبال نے مشہور عالم نظم شکوہ تحریر کردی تو ان پر کفر کا فتویٰ لگ گیا، علامہ نے فورا جواب شکوہ لکھ دیا تو ان پر سے کفر کا لیبل اتار دیا گیا۔ خدا جانے مذہب کے نام پر مسلم امہ کا فکری اور ذہنی استحصال کب تک جاری رہے گا۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں غوروفکر کا حکم دیا ہے، مگر ہم نے ہر دور میں پس ماندہ رہنے کو ترجیح دی، زندگی کے حقائق سے پہلو تہی کرتے رہے، علم کی روشنی سے مستفید نہ ہوئے اور اپنی ناکامیوں کا ذمے دار قسمت کے بعد اغیار کو ٹھہرا کر خود فارغ ہو گئے۔
اندلس میں جب مسلمانوں کی حکومت تھی تو انھوں نے وہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کو عام کیا، جس سے اس وقت تک پورا یورپ بے خبر تھا مگر وہاں کے عیسائیوں کے مذہبی پیشوائوں نے مسلمانوں کے دیے گئے سائنسی علوم کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا۔ پھر جب مسلمان اپنی لغزشوں کے باعث اندلس سے نکالے گئے تو انھی عیسائیوں نے مسلمانوں کے سائنسی علوم کو اپنا کر اس میں اضافہ کیا اور بہت سی نئی ایجادات کیں۔ ستم تو یہ ہے کہ جب برصغیر میں لائوڈ اسپیکر آیا اور چند ایک مساجد میں لائوڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی جانے لگی تو ہر طرف ایک شور مچ گیا کہ اس مشین سے اذان دینا گناہ اور اذان دینے والا کافر ہے، یہی نہیں بلکہ اس اذان پر ادا کی جانے والی نماز بھی فاسد اور مکروہ ہے۔ فتویٰ دینے والوں کی نرالی منطق یہ تھی کہ لائوڈ اسپیکر پر جب کوئی اذان دیتا ہے تو اس میں شیطان کی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے۔ اب انسان کہاں جاکر سر پھوڑے۔ حالت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب تک یہی بتایا جاتا ہے کہ چاند پر کسی نے قدم نہیں رکھا امریکا اور روس جھوٹی کہانیاں سنا کر دنیا کوبیوقوف بنا رہے ہیں۔
گذشتہ روز مریخ کے مجوزہ سفر پر بھی مصری عالم دین کا فتویٰ آگیا۔ ہم مسلمانوں کا جرم یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی کسی بھی دور میں مغرب کی سائنسی ترقی کے ساتھ ہم قدم ہونے کی کوشش نہیں کی۔ سابقہ صدی تک مسلمان مغربی اقوام کے غلام رہے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ عثمانیہ، مغلیہ اور صفوی بادشاہوں نے اپنی ساری دولت خوبصورت مگر بے کار مقبروں اور عمارتوں کی تعمیر پر ضایع کردی اور نہروں، جہاز رانی، تعلیم اور فنون میں مہارت حاصل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ 1864 میں جب کموڈور پیری توپوں کی گھن گرج میں جاپان کے سمندر میں داخل ہوا تھا تو جاپانی فوراً سمجھ گئے تھے کہ وہ مغرب سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اسی وقت دنیا کی واحد غیر یورپی طاقت بننے کی تیاریاں شروع کردیں۔ انھوں نے نہ مغرب کے خلاف جلوس نکالے اور نہ ہی ہڑتالیں کیں بلکہ اپنے طلبا کو حصول علم کے لیے غیر ملکی درسگاہوں میں بھیج دیا ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ دوسری عالمی جنگ تک جاپان دنیا کی بہت بڑی طاقت بن چکا تھا اور دنیا کا ساتواں حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اگر ہم مسلمان بھی زندگی کے حقائق کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں اور سوچیں کہ آخر مسلمانوں، خصوصاً ہمارے ملک کی تنزلی کی وجہ کیا ہے تو معلوم ہوگا کہ آج ہمیں غیر عالمانہ فتووں کی نہیں بلکہ کام کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کو مغرب کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں جدید سائنسی علوم میں کمال حاصل کرنا اولین شرط ہے۔ ہماری پستی کا حال تو یہ ہے کہ سر درد کے لیے ایک عام اسپرین کی گولی بھی ہم بیرونی ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کرتے ہیں۔
انسان اپنے عقل و شعور کی وجہ سے ہی اشرف المخلوقات کہلاتا ہے مگر پتھر کے دور سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی معراج تک پہنچنے کے لیے اسے ہزاروں سال کا سفر طے کرنا پڑا۔ پہییے کی ایجاد سے شروع ہونے والا یہ سفر پرنٹنگ پریس، اسٹیم انجن، بجلی، جان بچانے والی ادویات، اعضا کی پیوند کاری، جیٹ انجن، ٹیلیفون، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کی جدید ایجادات کے ساتھ ساتھ خلائوں کو تسخیر کرتے ہوئے آج بھی جاری و ساری ہے۔ مغرب ہر قسم کی ٹیکنالوجی میں جستجو، تحقیق، مستقل مزاجی اور جہد مسلسل کے ساتھ سرکاری اور نجی سرپرستی میں اربوں بلکہ کھربوں ڈالر خرچ کررہا ہے اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ ہنوز جاری ہے۔
ایک زمانہ تھا جب مسلم ممالک کے تعلیمی اداروں کابڑا چرچا تھا اور مسلمان مفکرین اور سائنسدانوں کاپوری دنیا میں طوطی بولتا تھا۔ دنیا بھر سے لوگ علم کی پیاس بجھانے کے لیے بغداد، قاہرہ، قرطبہ، سمرقند وبخارا وغیرہ کے تعلیمی اداروں کا طواف کرتے تھے۔ یہی وہ دور تھا جب تحقیق کے شعبے کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی اور مسلمان سائنسدان سائنس کے میدان میں نت نئے تجربات کرکے انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل تھے۔ یورپ سے آنے والے طالب علموں نے عربی زبان سیکھ کر مسلمان مفکرین اور سائنسدانوں کی تحقیق کے بعد تخلیق کردہ کتب سے استفادہ کیا اور یورپ میںنشاۃ ثانیہ برپا کردی مگر بدقسمتی سے ہم مسلمان خود اپنے اکابرین کے اس بیش بہا خزانے سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ سلسلہ اب بھی اگر اسی طرح انتہا پسندی ودہشت گردی کے تھپیڑوں کے ساتھ جاری رہا تو آنے والی دہائیوں اور صدیوں میں مسلم امہ اقوام عالم سے مزید پیچھے رہ جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواب غفلت سے نکلا جائے اور مسلم ممالک کے وسائل کو ان کی ترقی کے لیے استعمال کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
ادھر سلطنت عثمانیہ کے شیخ الاسلام نے فتویٰ دے دیا کہ ہماری مقدس کتابیں ان فرنگی کافروں کی مشینوں پر نہیں چھپیں گی۔ 1550 میں انگریزوں نے ہندوستان میں پرنٹنگ پریس لگایا تو ہند کے علماء نے بھی شیخ الاسلام کے فتوے کی توثیق کردی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس سے ہمارے کاتبوں کی روزی روٹی چھن جائے گی۔ اسے بدقسمتی ہی کہیے کہ ہم نے تقریبا ڈھائی سو سال بعد اس انقلابی ایجاد سے مستفید ہونے کی شروعات کیں۔ 1685 میں انسانی خون کی منتقلی کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ جونہی یہ خبر دنیا میں پھیلی تو کچھ قوموں نے اس سے فائدہ حاصل کرنا شروع کردیا لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی عجب فتویٰ صادر فرمادیا گیا کہ ایک انسان کا خون دوسرے انسان پر حرام ہے۔
اس عجیب و غریب فتوے کو صادر کرنے والے مذہب کے ٹھیکیدار یہ تک بھول گئے کہ قرآن پاک میں اصل حکم یہ ہے کہ ناحق ایک انسان کا خون بہانا دوسرے مسلمان کے لیے حرام اور گناہ ہے۔ بہرحال نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر میں مسلمان ماہرین طب اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے جس کی وجہ سے کئی قیمتی انسانی زندگیوں کو بچایا جاسکتا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں رائٹ برادران نے امریکا میں ہوائی پرواز کا کامیاب تجربہ کیا تو ادھر ہمارے ہاں فتویٰ صادر فرمادیا گیا کہ لوہا تو ہوا میں پرواز کر ہی نہیں سکتا اور جو لوگ اس تجربے سے متاثر ہورہے ہیں وہ اپنے ایمان کی تجدید کرلیں۔ پھر وہی ہوا کہ ساری دنیا میں تو اس ایجاد پر خوشیاں منائی جارہی تھیں اور دنیا بھر کے مسلمان کنفیوزڈ ہوکر ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے تھے۔ سر سید احمد خان نے انگریزی تعلیم پر زور دیا تو ان کو کافر کہہ دیا گیا۔ علامہ اقبال نے مشہور عالم نظم شکوہ تحریر کردی تو ان پر کفر کا فتویٰ لگ گیا، علامہ نے فورا جواب شکوہ لکھ دیا تو ان پر سے کفر کا لیبل اتار دیا گیا۔ خدا جانے مذہب کے نام پر مسلم امہ کا فکری اور ذہنی استحصال کب تک جاری رہے گا۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں غوروفکر کا حکم دیا ہے، مگر ہم نے ہر دور میں پس ماندہ رہنے کو ترجیح دی، زندگی کے حقائق سے پہلو تہی کرتے رہے، علم کی روشنی سے مستفید نہ ہوئے اور اپنی ناکامیوں کا ذمے دار قسمت کے بعد اغیار کو ٹھہرا کر خود فارغ ہو گئے۔
اندلس میں جب مسلمانوں کی حکومت تھی تو انھوں نے وہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کو عام کیا، جس سے اس وقت تک پورا یورپ بے خبر تھا مگر وہاں کے عیسائیوں کے مذہبی پیشوائوں نے مسلمانوں کے دیے گئے سائنسی علوم کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا۔ پھر جب مسلمان اپنی لغزشوں کے باعث اندلس سے نکالے گئے تو انھی عیسائیوں نے مسلمانوں کے سائنسی علوم کو اپنا کر اس میں اضافہ کیا اور بہت سی نئی ایجادات کیں۔ ستم تو یہ ہے کہ جب برصغیر میں لائوڈ اسپیکر آیا اور چند ایک مساجد میں لائوڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی جانے لگی تو ہر طرف ایک شور مچ گیا کہ اس مشین سے اذان دینا گناہ اور اذان دینے والا کافر ہے، یہی نہیں بلکہ اس اذان پر ادا کی جانے والی نماز بھی فاسد اور مکروہ ہے۔ فتویٰ دینے والوں کی نرالی منطق یہ تھی کہ لائوڈ اسپیکر پر جب کوئی اذان دیتا ہے تو اس میں شیطان کی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے۔ اب انسان کہاں جاکر سر پھوڑے۔ حالت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب تک یہی بتایا جاتا ہے کہ چاند پر کسی نے قدم نہیں رکھا امریکا اور روس جھوٹی کہانیاں سنا کر دنیا کوبیوقوف بنا رہے ہیں۔
گذشتہ روز مریخ کے مجوزہ سفر پر بھی مصری عالم دین کا فتویٰ آگیا۔ ہم مسلمانوں کا جرم یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی کسی بھی دور میں مغرب کی سائنسی ترقی کے ساتھ ہم قدم ہونے کی کوشش نہیں کی۔ سابقہ صدی تک مسلمان مغربی اقوام کے غلام رہے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ عثمانیہ، مغلیہ اور صفوی بادشاہوں نے اپنی ساری دولت خوبصورت مگر بے کار مقبروں اور عمارتوں کی تعمیر پر ضایع کردی اور نہروں، جہاز رانی، تعلیم اور فنون میں مہارت حاصل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ 1864 میں جب کموڈور پیری توپوں کی گھن گرج میں جاپان کے سمندر میں داخل ہوا تھا تو جاپانی فوراً سمجھ گئے تھے کہ وہ مغرب سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اسی وقت دنیا کی واحد غیر یورپی طاقت بننے کی تیاریاں شروع کردیں۔ انھوں نے نہ مغرب کے خلاف جلوس نکالے اور نہ ہی ہڑتالیں کیں بلکہ اپنے طلبا کو حصول علم کے لیے غیر ملکی درسگاہوں میں بھیج دیا ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ دوسری عالمی جنگ تک جاپان دنیا کی بہت بڑی طاقت بن چکا تھا اور دنیا کا ساتواں حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اگر ہم مسلمان بھی زندگی کے حقائق کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں اور سوچیں کہ آخر مسلمانوں، خصوصاً ہمارے ملک کی تنزلی کی وجہ کیا ہے تو معلوم ہوگا کہ آج ہمیں غیر عالمانہ فتووں کی نہیں بلکہ کام کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کو مغرب کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں جدید سائنسی علوم میں کمال حاصل کرنا اولین شرط ہے۔ ہماری پستی کا حال تو یہ ہے کہ سر درد کے لیے ایک عام اسپرین کی گولی بھی ہم بیرونی ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کرتے ہیں۔
انسان اپنے عقل و شعور کی وجہ سے ہی اشرف المخلوقات کہلاتا ہے مگر پتھر کے دور سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی معراج تک پہنچنے کے لیے اسے ہزاروں سال کا سفر طے کرنا پڑا۔ پہییے کی ایجاد سے شروع ہونے والا یہ سفر پرنٹنگ پریس، اسٹیم انجن، بجلی، جان بچانے والی ادویات، اعضا کی پیوند کاری، جیٹ انجن، ٹیلیفون، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کی جدید ایجادات کے ساتھ ساتھ خلائوں کو تسخیر کرتے ہوئے آج بھی جاری و ساری ہے۔ مغرب ہر قسم کی ٹیکنالوجی میں جستجو، تحقیق، مستقل مزاجی اور جہد مسلسل کے ساتھ سرکاری اور نجی سرپرستی میں اربوں بلکہ کھربوں ڈالر خرچ کررہا ہے اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ ہنوز جاری ہے۔
ایک زمانہ تھا جب مسلم ممالک کے تعلیمی اداروں کابڑا چرچا تھا اور مسلمان مفکرین اور سائنسدانوں کاپوری دنیا میں طوطی بولتا تھا۔ دنیا بھر سے لوگ علم کی پیاس بجھانے کے لیے بغداد، قاہرہ، قرطبہ، سمرقند وبخارا وغیرہ کے تعلیمی اداروں کا طواف کرتے تھے۔ یہی وہ دور تھا جب تحقیق کے شعبے کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی اور مسلمان سائنسدان سائنس کے میدان میں نت نئے تجربات کرکے انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل تھے۔ یورپ سے آنے والے طالب علموں نے عربی زبان سیکھ کر مسلمان مفکرین اور سائنسدانوں کی تحقیق کے بعد تخلیق کردہ کتب سے استفادہ کیا اور یورپ میںنشاۃ ثانیہ برپا کردی مگر بدقسمتی سے ہم مسلمان خود اپنے اکابرین کے اس بیش بہا خزانے سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ سلسلہ اب بھی اگر اسی طرح انتہا پسندی ودہشت گردی کے تھپیڑوں کے ساتھ جاری رہا تو آنے والی دہائیوں اور صدیوں میں مسلم امہ اقوام عالم سے مزید پیچھے رہ جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواب غفلت سے نکلا جائے اور مسلم ممالک کے وسائل کو ان کی ترقی کے لیے استعمال کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔