معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا
دہشت گردی کے ہوش ربا واقعات اور بے شمار انسانی جانوں کی قربانی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا
اپنے رویوں سے ہم پوری طرح سے یہ ثابت کرنے میں مگن ہیں کہ ہم ٹکڑوں میں منقسم قوم ہیں۔ اسرار گنڈہ پور جیسے جوان رعنا کی موت ابھی کل کی بات بھی نہیں کہ طالبان سے مذکرات کے قضیے پر تصادم اور ٹکرائو کی فضا کو ہوا دیتے نقطہ نظر دائیں بائیں سے آنے لگے ہیں۔ صرف ایک دن کے مختلف طبقہ فکر کے بیانات اور نقطہ ہائے نظر ملاحظہ فرمائیے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ فرماتے ہیں، حکومت کا بستر جلد ''بوریا'' ہوجائے گا۔
مذہب کے مختلف سوچ کے حامل رہنمائوں نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کا علم بلند کردیا، نہ صرف بلند کردیا بلکہ طالبان سے مذاکرات کرنے کی صورت میں ''فرنٹ فٹ'' پر کھیلنے کی تنبیہ بھی کردی۔ پی پی نے حکومت کو طالبان سے مذاکرات شروع نہ کرنے پر گوشمالی کی اور اب جب حکومت نے مذاکرات کے راستے پر چلنے کی نیت ظاہر کردی تو پی پی نے اپنا پینترا یکسر بدل دیا۔ عمران خان برابر طالبان سے مذاکرات میں حکومتی سستی کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، ان کے ہر روز کے بیانات میں قریب قریب حکومت پر یہ تنقید ضرور ہوتی ہے۔ عرصہ ہوگیا پاکستانی معاشرے کو قتل گاہ بنے اور ہماری رائے کے ترجمان اور سرخیل آج تک اس نکتہ پر متفق نہ ہوسکے کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں یا طاقت کی زبان میں طالبان سے بات کی جائے؟
دہشت گردی کے ہوش ربا واقعات اور بے شمار انسانی جانوں کی قربانی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طالبان اور دہشت گردی کے معاملے پر سر جوڑ کر اس مسئلے اور معاملے کو کسی کنارے لگا دیا جاتا، مگر کئی سال سے پاکستانی معاشرے کا طوق بننے والا مسئلہ ہمارے حکومتی، سیاسی اور مذہبی اکابرین کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے۔ دل دہلا دینے والے سانحے کے وقت سب افسوس کا ''ڈھول'' گلے میں ڈال کر رنج و الم کی تصویر بن جایا کرتے ہیں اور بعد میں پھر سے اپنے اپنے نظریات اور سوچ کو معاشرے پر مقدم رکھ کر بیان بازی اور اختلاف کی راہ پر سفر شروع کر دیتے ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے اہم ترین قومی المیے پر بھانت بھانت کی بولی کو جوتوں میں دال بانٹنے سے تشبیہہ نہ دی جائے تو اور کیا کہا جائے؟ سب کچھ بھول بھال کر صرف ایک نکتہ سامنے رکھا جائے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ جان جوکھوں میں ڈالنی پڑے یا جان کو امان کی چھائوں میں کھڑا کرنا پڑے، ملک اور اس قوم کے معصوم لوگوں کو دہشت گردی سے کامل نجات دلانی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ابتدائی ایام دہشت گردی میں ہی اس ناسور کی گردن ناپی جاتی مگر بات پھر حکومتی سطح پر مفادات اور عوامی ترجمانی کی سطح پر ''دال میں کچھ نہیں بلکہ بہت سا کالا'' پر ختم ہوتی ہے۔ اب جب کہ معاملات اس نازک نہج پر پہنچ ہی چکے ہیں تو اگر ماضی میں ہوش کے ناخن نہ لیے گئے کم ازکم حال میں لیے جائیں اور قوم کو اس المناک کینسر سے نجات دلانے کے لیے ایک ہوجائیے۔
مشرف دور میں ''حلال حرام'' کا مسئلہ درپیش تھا، پی پی دور حکومت میں بھی یہی صورت دگرگوں درپیش تھی اور اب گزشتہ چند ماہ سے حکومت وقت کے عہد زریں میں بھی وہی پرانا کھیل ''کوئی مانے کوئی نہ مانے'' والا جاری ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے معاملے میں قوم کے ترجمان اور رہنما قوتوں میں اگر اسی طرح ''تو تکار'' ہوتی رہی تو شاید طالبان والا معاملہ پھر سرخ فیتے کی نذر ہو جائے گا اور وطن عزیز کے معصوم شہری اسی طرح بے گناہ اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے۔
کیا ملک کی سلامتی پر ہر چیز مقدم نہیں؟ کیا ملک کے باشندوں کی جان و مال کا تحفظ ہر صاحب اختیار اور صاحب رائے کی ذمے داری نہیں؟ کیا مذاکرات ناکام ہونے یا بے اثر ہونے کی صورت میں حکومت اور اہل رائے کے پاس کوئی آپشن نہیں بچے گا؟
مذاکرات نہ تو آخری آپشن اور ہتھیار ہیں اور نہ ہی مذاکرات پر کہانی ''دی اینڈ'' ہوتی ہے۔ مذاکرات کسی بھی مسئلے کے حل کا ایک سب سے بہترین آپشن ہوا کرتا ہے۔اگر طالبان مذاکرات میں قابل عمل مطالبات پر ہتھیار پھینکنے پر رضامند ہوتے ہیں، اس پر اعتراض کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور اگر مذاکرات کے نتائج بامعنی نہیں نکلتے، اس کے بعد آپ کامل آزاد ہیں، ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے جو مناسب طرز عمل اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں کرلیں۔ لیکن ملک اور قوم کو اس گومگو والی صورت حال سے نکالیے اور مزید بھائی بندوں کی جانوں کو محفوظ بنانے میں دیر مت کیجیے۔
اگر مذاکرات کے عمل پر اعتراض ہے تو کسی اورلائحہ عمل پر حکومت کو مجبور کیجیے لیکن کئی سال سے اونٹ کا ''ہونٹ'' بننے والے اس قومی مسئلے کو کسی کنارے ضرور لگائیے۔ اب بہت ہوچکا! اپنے نظریات اور افکار کی سیاست اور اپنی ذات کے پرچار کے لیے ملکی سلامتی اورمعصوم شہریوں کی زندگیوں کو ''دال'' کی قیمت پر نہ تولیے۔