دل دل پاکستان‘ جان جان پاکستان

گستاخی معاف اس قومی بے حسی کے اصل ذمے دار ہمارے ارباب اختیار ہیں جو مصلحت کوشی اور مفاد پرستی کا شکار ہیں۔


Shakeel Farooqi December 17, 2019
[email protected]

کہا جاتا ہے کہ وقت وہ مرہم ہے جو زخموں کو مندمل کردیتا ہے لیکن بعض زخم ایسے ہیں جوکبھی مندمل نہیں ہوسکتے۔ سولہ دسمبر کی خونیں تاریخ ہر سال جب بھی آتی ہے تو ذہن کے پردہ سیمیں پر فلیش بیک کی صورت میں بہت سے روح فرسا مناظر فلم کی طرح ہوکر گزر جاتے ہیں اور پرانے زخم ہرے ہوکر پھر سے رسنا شروع ہوجاتے ہیں۔

16 دسمبر 1971کو سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں پیش ہونے والا عظیم سانحہ ایسا گہرا زخم ہے، جسے وقت کا مرہم کبھی بھی مندمل نہیں کرسکتا۔ یہ سانحہ عظیم ہمیں اس قول فیصل کی صداقت کا احساس دلاتا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں ان کا جغرافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔

اس تلخ حقیقت کا اندازہ اس مشاہدے سے کیا جاسکتا ہے کہ ہم ہر سال سولہ دسمبر کو زندگی کے مختلف شعبوں اور معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں سے معصومانہ سوال کرتے ہیں کہ اس دن کی خاص بات کیا ہے؟ مگر افسوس صد افسوس کہ ہر ایک کی جانب سے محض لاعلمی کا اظہار ہی کیا جاتا ہے۔

گستاخی معاف اس قومی بے حسی کے اصل ذمے دار ہمارے ارباب اختیار ہیں جو مصلحت کوشی اور مفاد پرستی کا شکار ہیں۔ انھیں نہ تو اتنی فرصت ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو اس مملکت خداداد کے معرض وجود میں آنے اور 16دسمبر 1971کو دولخت ہوجانے کی وجوہات اور اصل حقائق سے آگاہ کریں ، جو برسر اقتدار ہیں انھیں اپنی کرسی بچانے کی فکر لاحق ہے اور جو حزب اقتدار میں شامل ہیں انھیں کسی بھی طرح اقتدار میں آنے کی جستجو ہے۔

جو آخری دم تک قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ انھوں نے اپنے مکروہ چہروں کو چھپانے کے لیے مکھوٹے چڑھا لیے اور پاکستان کو بچانے کی خاطر مشرقی پاکستان جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکیاں دینے والوں نے مسند اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر مغربی پاکستان پر حکمرانی کا راستہ ہموار کیا۔ رہزن اگر رہبروں کا بھیس بدل کر بھولے بھالے عوام کو لوٹنے لگیں تو مظلوم اور سادہ لوح عوام اس کے سوائے بھلا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ:

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہ بر کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ زن کو میں

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے قیام کا حسین خواب شاعر ملت علامہ اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ولولہ انگیز قیادت کے ذریعے اس خواب کو حقیقت کا روپ عطا کیا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس مملکت کا وجود میں آنا صاحب تاثیر علمائے کرام و بزرگان دین کی دعاؤں کا ثمر اور رب کائنات کا عظیم کرشمہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ مملکت خداداد کی تخلیق کے لیے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے بے مثال و بے دریغ جانی و مالی قربانیاں پیش کیں ۔ مگر بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ:

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے

منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

بنگال کا مشرقی علاقہ جو قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کہلایا اور سقوط مشرقی پاکستان کے نتیجے میں بنگلہ دیش بنا تاریخی اور دینی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلم اکثریت کی بنا پر 14 اگست 1947کو یہ پاکستان کا مشرقی بازو بنا۔ پاکستان کی بانی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام یہیں پر عمل میں آیا تھا اور تاریخ ساز قرارداد پاکستان پیش کرنے والے عظیم مسلم لیگی رہنما اے کے فضل الحق کا تعلق بھی اسی خطے سے تھا۔ تحریک پاکستان کے کئی سرکردہ اور مخلص رہنماؤں بشمول خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، مولوی تمیز الدین، روح الامین اور محمود علی بھی اسی زمین کے قابل فخر سپوت تھے جن کی مخلصانہ خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

دینی خدمات کے حوالے سے بھی اس خطے کی بڑی اہمیت ہے۔ برزگان دین اور ان کے خلفا کرام کی دعوت و تحریک کا بھی اس خطے سے قدیم اور گہرا تعلق ہے۔ صلہ و ستائش کی تمنا سے بے نیاز یہ بندگان خدا روز و شب تعمیل حکم خداوندی اور اتباع رسول میں ہمہ تن اور بے دھڑک مشغول و مصروف ہیں۔ بقول اقبال:

بے دھڑک کود پڑا آتش نمرود میں عشق

یہ اس جھوٹ کی واضح تردید اور اس دعوے کی عملی نفی ہے کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں قائم اسلامک فاؤنڈیشن اور خانقاہ اشرافیہ اور خانقاہ اختریہ جیسے خدمت دین کے ادارے بلا خوف و خطر خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں۔

دسمبر 1971 شروع ہوتے ہی پاکستان اور بھارت میں جنگ چھڑ گئی۔ ادھر مشرقی پاکستان میں بھارت کی سازش کے تحت جاری خانہ جنگی کی وجہ سے حالات روز بہ روز بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے اور پاکستان کی مرکزی حکومت کی گرفت ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ ڈھیلی پڑتی جا رہی تھی۔ 3 دسمبر کو پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوگیا اور پاکستان کا دفاع کرنے والی فوج کے لیے اندرونی اور بیرونی دو محاذ کھل گئے۔

یہ جنگ 1965 کی جنگ سے بالکل مختلف تھی کیونکہ سن 65 کی جنگ میں پاکستان کا پلہ بھارت کے مقابلے میں اس لیے بھاری تھا کہ پوری پاکستانی قوم جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔ قومی یکجہتی کی ایسی صورت نہ اس سے قبل اور نہ اس کے بعد پھر کبھی دیکھنے میں آئی۔ حق باطل پر غالب آگیا اور پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا زیادہ بڑے دشمن بھارت کو خون تھکوا دیا۔

لیکن 3 دسمبر 1971 کو شروع ہوکر 17 دسمبر کو ختم ہوجانے والی اس 15 روزہ جنگ کا نقشہ سن 65 کی جنگ کے قطعی برعکس تھا کیونکہ اس مرتبہ گھر کے بھیدی لنکا ڈھا رہے تھے اور میر جعفر اپنوں کا ساتھ چھوڑ کر دشمنوں کا ساتھ دے رہے تھے۔ ادھر پاکستان کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں تھی وہ کسی بھی لحاظ سے اسلامی مملکت پاکستان کے صحیح نمایندے کہلانے کے نہ تو لائق تھے اور نہ ہی ملک و قوم سے مخلص تھے۔ انجام کار وہی ہوا جس کا اندیشہ مولانا ابوالکلام آزاد نے ان الفاظ میں برصغیر کی تقسیم سے پہلے کیا تھا:

''مجھے شبہ ہے کہ مشرقی پاکستان زیادہ دیر مغربی پاکستان کے ساتھ نہ رہ سکے گا۔ مشرقی پاکستان کی زبان ، رہن سہن، تہذیب، ثقافت اور بعض دوسری چیزیں مغربی پاکستان سے قطعی مختلف ہیں، پاکستان کا تخلیقی شعار سرد پڑتے ہی ان تضادات کا ابھرنا ایک بدیہی امر ہے۔ پھر عالمی طاقتوں کے مفادات کا ٹکراؤ ان کی علیحدگی کا محرک ہوسکتا ہے۔''

اس حوالے سے سالار احرار امیر شریعت مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ پیش گوئی بھی یاد آرہی ہے کہ ''ادھر مشرقی پاکستان ہوگا ادھر ایک ہزار میل کے فاصلے پر مغربی پاکستان ہوگا اور درمیان میں ہند کی چالیس کروڑ آبادی ہوگی۔ آپ کی حالت یہ ہوگی کہ بوقت ضرورت مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی اور مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کی کوئی بھی امداد کرنے سے قاصر ہوگا۔'' لاکھ نہ چاہنے کے باوجود بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہی ہوگا۔ اور اب کف افسوس ملنا بھی لا حاصل اور بے سود ہے کیونکہ:

اب پچھتاوت ہو وت کیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

کاش ہمارے قائدین اور ارباب بست و کشاد کا ضمیر جاگ جائے اور وہ اس عظیم سانحے سے سبق حاصل کریں، کاش وہ ذاتی اور گروہی مفادات سے بالا تر ہوکر قومی اور ملکی مفادات کو اولیت اور ترجیح دینے کے موقف پر متفق اور متحد ہوجائیں اور وطن عزیز کے دفاع و تحفظ کی خاطر ایک مرتبہ پھر سیسہ پلائی ہوئی ناقابل تسخیر دیوار بن جائیں تاکہ دشمن کو پھر کبھی ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت اور جرأت نہ ہو۔ آئیے! باآواز بلند یک زبان ہوکر نعرہ لگائیں:

دل دل پاکستان

جان جان پاکستان

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں