بادشاہت کا سفر جاری
ووٹوں سے اقتدار میں آنیوالے کہتے تو ہیں کہ وہ اپنے عوام کو جوابدہ ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
قیام پاکستان کو یوں تو 72 سال مکمل ہوچکے جس میں اقتدار میں رہنے والے تمام جمہوریت پسندوں مگر سویلین حکمرانوں کی مدت اقتدار اب غیر سویلین حکمرانوں کے اقتدار سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک میں کوئی بھی حکمران امریکا کی مرضی کے بغیر کبھی اقتدار میں نہیں آیا۔امریکا کے نزدیک پاکستان میں برسر اقتدار رہنے والوں کی اہمیت ضرور ہے کہ وہ سویلین ہوں یا غیر سویلین امریکا اپنے مفاد کے لیے ہر حکمران سے کام لیتا اور بعد میں انھیں مسترد بھی کرتا رہا ہے۔
امریکا کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کوئی بھی اقتدار میں جمہوریت کے نام پر آئے یا مارشل لا لگا کر آئے امریکا سویلین کے مقابلے میں غیرسویلین کو اہمیت دیتا آیا ہے کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتا ہے نہ عوام کو سنہری خواب دکھا کر اور نہ وہ عوام کو کسی معاملے میں جوابدہ ہوتا ہے۔
ووٹوں سے اقتدار میں آنیوالے کہتے تو ہیں کہ وہ اپنے عوام کو جوابدہ ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ اب تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ ہر حکمران اقتدار میں آتے ہی پروٹوکول کا اسیر ہو جاتا ہے اور یہ سرکاری پروٹوکول اسے عوام سے دور تو کر دیتا ہے مگر سرکاری پروٹوکول دیکھ کر ہر حکمران کو پروٹوکول کی آڑ میں عوام سے دور رہنے کا موقع مل جاتا ہے جب کہ حقیقت میں اس کی خواہش اور سرکاری مصروفیات ہی ایسی ہوجاتی ہیں کہ انھیں عوام سے دور رہنے بلکہ عوام کو جان بوجھ کر بھلانے کا موقعہ مل جاتا ہے۔
1972 میں بھٹو صاحب کی حکومت کے بعد واحد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تھے جو پروٹوکول کم رکھتے اور وزیر اعظم ہاؤس میں جان بوجھ کر نہیں رہتے تھے جب کہ سب ہی بادشاہوں جیسے حکمران گزرے ہیں اور موجودہ حکمران بھی اس سلسلے میں کم نہیں نکلے اور وہ بھی بادشاہت کے سلسلے میں اپنے سابقہ پیش روؤں سے کم نہیں اور ان کے پاس بھی اپنے وزیروں اور ارکان اسمبلی سے ملنے کا وقت نہیں ہے اور موجودہ حکومت کے حلیف بھی اس سلسلے میں اپنے وزیر اعظم سے مطمئن نہیں ہیں اور انھی کی شکایات پر وزیر اعظم کے ترجمان ندیم چن کو وضاحت کرنا پڑی کہ ایسا نہیں ہے اور جو رکن چاہے وزیر اعظم سے مل سکتا ہے۔
میاں نواز شریف کو تو عوامی وزیر اعظم کہا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ ان کے تو مزاج اور سرکاری کام شاہانہ تھے۔ وہ جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تب ہی وہ اپنے ہی ارکان اسمبلی سے دور رہتے تھے اور راقم کو اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات پنجاب ڈاکٹر صفدر محمود نے بتایا تھا کہ میاں صاحب اپنے رکن اسمبلی کو ایک ماہ میں صرف دو منٹ کی ہی ملاقات کا وقت عنایت فرماتے ہیں اور ایک غیر ملکی خاتون صحافی کو وزیر اعلیٰ پنجاب سے دو ہفتوں میں بھی ملاقات کا وقت نہیں مل سکا تھا۔
میاں نواز شریف کا تو یہ بھی ریکارڈ ہے کہ وہ ایک سال سے زائد عرصے تک ملک کے بالاتر آئینی ادارے سینیٹ میں نہیں آئے اور ان کا سینیٹ آنا کوئی احسان نہیں بلکہ ان کا آئینی فرض تھا مگر بدقسمتی سے اب تک کے تمام حکمران یہ آئینی فرض اپوزیشن میں ہونے تک یاد رکھتے ہیں اور ان کی نظر حکمران کے ہر آئینی اور خصوصی طور پر غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اپوزیشن میں رہ کر حکمرانوں کے خلاف سب کچھ بولنا اور الزامات لگانا اپنا سیاسی فرض اولین سمجھتے ہیں اور حکمران اور حکومتی اہلکاروں و عمارتوں کو نقصان پہنچانا اپنا حق سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اس وقت تک بادشاہ سلامت نہیں ہوتے۔
نواز شریف نے تیسری بار وزیر اعظم بن کر بھی اپنے شاہی اطوار نہیں بدلے تو پہلی بار کبھی صوبائی وزیر بھی نہ رہنے والے عمران خان وزیر اعظم بادشاہ کیوں نہ بنیں۔ نواز شریف پر تو سینیٹ میں نہ آنے پر ملک بھر میں تنقید ہوئی تھی اور ایوان بالا میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم ایوان میں آجائیں انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
ایک سال بعد انھوں نے اس ایوان بالا میں قدم رکھا تھا جہاں ایک اعتدال پسند چیئرمین میاں رضا ربانی تھے تو دوسری طرف پیپلزپارٹی سے تعلق مگر نواز شریف کے سیاسی مخالف چوہدری اعتزاز احسن بھی موجود تھے۔ انھوں نے بھارتی جاسوس کل بھوشن کا نام زبان پر لانے کے لیے پچاس ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا مگر نواز شریف کبھی بھارتی جاسوس کا نام زبان پر نہ لائے تھے اور چوہدری اعتزاز احسن کے 50 ہزار بچ گئے تھے۔
سابق حکمرانوں کی جگہ جو وزیر اعظم عمران خان لائے گئے وہ بظاہر تو اپنے حلیفوں کے چند ووٹوں کی اکثریت سے منتخب ہوئے تھے مگر منتخب ہوتے ہی انھیں بتایا گیا ہوگا کہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اس ملک کی تاریخ میں ہر کوئی بادشاہ ثابت ہوا ہے۔ سوائے لیاقت علی خان و چند دیگر کے کیونکہ وہ منتخب نہیں نامزد تھے اور گورنر جنرل اور صدر مملکت جن کے پاس 58-2B کا اختیار تھا کے محتاج تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کے لیے اپوزیشن کہیں کہتی ہے کہ وہ اب بھی کنٹینر پر ہیں اور خود کو وزیر اعظم اب بھی نہیں سمجھ رہے کیونکہ ان کے بیانات اپوزیشن جیسے ہیں۔
اپوزیشن اپنے خلاف احتسابی کارروائی کے بعد عمران خان کو بادشاہ بھی قرار دے رہی ہے جو خود کو مطلق العنان اور بااختیار سمجھ کر اپوزیشن کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ بقول اپوزیشن عمران خان نے اپنے مخالف اپوزیشن رہنماؤں کو جیل میں بند کرا رکھا ہے اور دوسری سطح کے اپوزیشن رہنما جب حکومت کے خلاف سخت بیانات دیتے ہیں تو فوراً نیب حرکت میں آجاتا ہے اور اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری کی پیشگی خبر حکومتی عہدیدار دیتے ہیں جو سچ ثابت ہوتی ہے۔
بعض حکومتی وزیروں کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ عدالتی فیصلوں کا پیشگی اعلان کرنے سے بھی گریز نہ کریں۔ کچھ وزرا نے عدالتوں کے سلسلے میں کچھ ایسا کہا بھی ہے جس پر انھیں توہین عدالت کے نوٹس ضرور ملے مگر انھیں معافی مل گئی مگر اپوزیشن کی معافی قبول نہ ہوئی۔
ماضی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اپنے اپنے اقتدار میں ایک دوسرے کے شدید مخالف رہے ، دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف بے شمار جھوٹے کیس بنوائے۔ انتقامی کارروائیاں اور احتساب کیا مگر دونوں نے شدید مخالفت کو ذاتی دشمنی نہیں بنایا اور آپس میں ملتے رہے۔ دونوں نے جمہوری روایت برقرار رکھ کر کبھی آپس میں ملنے سے انکار نہیں کیا مگر عمران خان نے ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ بعض آئینی دفعات کے تحت بھی اپوزیشن لیڈر سے ملنے کو تیار نہیں۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو نے تو جنرل پرویز مشرف سے بھی ملاقات سے انکار نہیں کیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان تو سوا سال میں اپوزیشن لیڈر سے ملاقات تو کیا ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں۔ انھوں نے نواز شریف سے اظہار تعزیت بھی میڈیا کے ذریعے کیا جب کہ باہمی مخالفت کے باوجود نواز شریف اور چوہدری شجاعت نے اپنی اخلاقی ذمے داری کا خیال رکھا مگر اب جمہوری کہلانے والے وزیر اعظم آئینی تو کیا اپنی اخلاقی ذمے داری بھی پوری نہیں کر رہے جو جمہوریت کے خلاف ہے کیونکہ جمہوریت میں بادشاہت نہیں چلائی جاسکتی۔