جدہ مکہ اورمدینہ کا روحانی سفر حصہ سوم

نبی پاکؐ کے روضہ مبارک کے منبر تک کا علاقہ ریاض الجنہ یعنی جنت کا باغ کہلاتا ہے۔


ایم قادر خان December 17, 2019

صوبہ حجاز کے ایک اہم شہرکا اصل نام یثرب تھا، جب نبی پاکؐ مکہ سے ہجرت کرکے یثرب آئے تو اس کا نام مدینۃ النبی پڑگیا اس کے معنی ہیں نبی کا شہر۔ واقع مسجد نبویؐ دنیا کی واحد اسلامی مسجد ہے اس کے قریب حضرت محمد ﷺ کی آخری آرام گاہ ہے۔ مدینہ مکہ سے 340 کلو میٹر شمال میں واقع ہے، بحیرہ احمر کے ساحل سے 190 کلو میٹر دور یہ حجاز کی سرزمین کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ مدینہ کی آبادی تقریباً 12 لاکھ کے قریب ہے۔

چوتھی صدی عیسوی میں یمن سے دو بڑے قبائل بنو اوس اور بنو خزرج یہاں آکر آباد ہوئے۔ شروع میں یہ دونوں قبائل یہودی حکمرانوں کے تابع رہے لیکن بعد میں اپنے معاملات آزادانہ طے کرنے لگے۔ پانچویں صدی عیسوی کے آخری سالوں میں عربوں نے یہودیوں سے اقتدار چھین لیا، وقت گزرنے کے ساتھ بنو اوس اور بنو خزرج بھی ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے۔ 120 برس تک چھوٹی بڑی جنگیں لڑتے رہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں مدینہ کی صورت حال کچھ اس طرح تھی کہ بنو نادر اور بنو قروضا نے بنو اوس کے ساتھ اتحاد کرلیا اور بنو قونیقا، بنو خزرج کے مخالف ہوگئے۔

نبی پاکؐ کو مدینہ آمد سے چند برس قبل ان قبائل کے درمیان ایک بدترین خونریز لڑائی ہوئی جو بعد میں ان قبائل کی آخری لڑائی ثابت ہوئی۔ شدید خونریزی کے باوجود ہارجیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئی اور جھگڑے کی بنا باقی رہ گئی۔ جھگڑا مٹانے کے لیے مدینہ کے زعما نے حضرت محمد مصطفیﷺ کو ثالث بنانے کا ارادہ کیا اس غرض سے آپؐ سے ایک خفیہ ملاقات کی۔ یہ ملاقات منہا اور مکہ کے درمیان واقع ایک مقام الداعقبہ میں ہوئی۔ ان سرکردہ لوگوں نے نبی پاکؐ سے اس جھگڑے میں ثالث بننے کی گزارش کی۔ اس بات کی ضمانت دی کہ آپؐ مدینہ آ جائیں تو آپؐ اور آپ کے ساتھیوں کو مکمل آزادی اور عزت حاصل ہوگی۔

622 عیسوی میں آپؐ اور آپ کے 70 ساتھی ایک ایک دو دو کرکے مدینہ پہنچ چکے تھے۔ یہ ہجرت شہر کی سیاسی و سماجی زندگی میں انقلاب کا پیش خیمہ تھی۔ بنو اوس اور بنو خزرج کے طویل جھگڑے کا خاتمہ ہوگیا ان قبائل کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا اور تھوڑی تعداد میں یہودی بھی مسلمان ہوگئے۔ ان مشرک قبائل مکہ سے آنے والے انصار اور یہودی قبائل کے مابین باقاعدہ معاہدہ طے پایا جو تاریخ میں میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس معاہدہ کی رو سے چاروں گروہ آپس میں حلیف تھے اور نبی پاکؐ ان کے متفقہ قائد۔

موجودہ مسجد نبویؐ اصل مسجد نبویؐ سے سوگنا بڑی ہے اس وقت مسجد نبویؐ کم و بیش سارے قدیم مدینہ شہر پر پھیلی ہوئی ہے۔ آپؐ نے مدینہ آمد کے فوری بعد تعمیر کرائی تھی آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار اس مقام پر پہنچے اور اس مقام پر مسجد کا ارادہ کرلیا۔ یہ زمین دو یتیم بھائیوں کی ملکیت تھی آپؐ نے ان سے یہ زمین خرید لی اور مسجد نبویؐ کی بنیاد رکھی۔ مسجد کی تعمیر میں سات ماہ کا عرصہ لگا۔ مسجد 31 میٹر لمبی، 30 میٹر چوڑی تھی۔ اس کے ستون کھجورکے تنوں سے بنائے گئے تھے اور چھت کھجور کے خشک پتوں سے ڈالی گئی تھی۔

مسجد کی دیواریں صرف 4 میٹر بلند تھیں، داخلی دروازے تین تھے۔ مشرق میں باب النسا مغرب میں باب جبرئیلؑ اور جنوب میں باب الرحمیان، جنگ خیبر کے بعد مسجد میں کچھ توسیع کردی گئی۔ مسجد کی حدود میں ہر جانب 47 میٹر کا اضافہ کیا گیا۔ مغربی دیوار کے ساتھ ستونوں کی تین نئی قطاریں بنائی گئیں اور یہ جگہ نماز کے لیے مخصوص کردی گئی۔ اس وقت تک مسجد کا کوئی مینار نہ تھا، چار میناروں میں سے یہ پہلا مینار حضرت عمرؓ کے دور میں تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر تھی۔ 1307 عیسوی میں محبت ابن کلاون نے باب الاسلام کے نام سے ایک اور مینار تعمیر کرایا، اور کل تعداد دس ہوچکی تھی جوکہ 104 میٹر اونچے تھے۔ میناروں کے نچلے اور بالائی حصے بالترتیب حشت پہلو چوکور اور سلینڈر نما ہیں اس کا خوبصورت سبز گنبد انتہائی دل کش ہے۔

نبی پاکؐ کی وفات کے ساڑھے چھ سو سال تک آپ کے مقبرے پر کوئی گنبد نہ تھا پہلا گنبد ایک مغلوب حکمران نے 1289 عیسوی میں بنوایا جو لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ موجودہ جو سبز گنبد ہم دیکھ رہے ہیں یہ دراصل نبی پاکؐ کے ہجرے کا بیرونی گنبد ہے۔ اس موجودہ گنبد کا اضافہ ترک سلطان محمد دوم نے 1818 میں کیا اور 1837 میں اس پر سبز رنگ کیا گیا۔ باب الجبرئیل سے داخل ہونے والوں کے سیدھے ہاتھ پر جو چبوترا ہے باب الصفا کا چبوترا کہلاتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مکہ سے ہجرت کرکے آئے تھے اور ان کا کوئی گھر بار نہ تھا۔ یہ لوگ وسائل کی کمی کے باعث گھر گرہستی کا بار نہ اٹھا سکتے تھے، یہ جگہ ہی ان کا ٹھکانہ تھی ان اصحاب میں ابوہریرہ، حضرت ابو ذر غفاری، حضرت سلمان فارسی، حضرت عبداللہ مسعود اور حضرت بلال حبشی شامل تھے۔

رسول اللہؐ اور ان کے دو ساتھیوں حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے مزارات حضورؐ کے ساتھ ہیں۔ نبی پاکؐ کی دختر حضرت فاطمہؓ کا انتقال نبی پاکؐ کے صرف تین ماہ بعد ہوا تھا ۔

روزہ رسولؐ کی مشرقی سمت کا دروازہ عین اسی جگہ پر ہے جہاں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے گھر کا دروازہ تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں نبیؐ کے زمانے میں حضرت جعفرؓ، حضرت عباسؓ، نومل بن فارسؓ اور عماد بن یاسرؓ کے گھر واقع تھے۔ تمام ستون تاریخی اہمیت کے حامل ہیں یہ ایک ستون زمانہ حنانا کہلاتا ہے یہ اس جگہ پر واقع ہے جہاں نبی پاکؐ نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔یہ جگہ آپؐ کے منبر کے پیچھے دائیں جانب واقع ہے۔ اس جگہ پر کھجور کا ایک درخت ہوا کرتا تھا نبی پاکؐ اس کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔

بعد میں یہ منبر بن گیا تو آپؐ اس پر بیٹھ کر خطبہ دینے لگے، دوسرا ستون زمانہ استحادنا کہلاتا ہے، نبی پاکؐ بیرونی وفود سے اسی جگہ ملاقات کیا کرتے تھے۔ یہاں آپؐ ان سے بات چیت کرتے اور انھیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے۔ باب سحر کی جگہ اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے نبیؐ اعتکاف کے دوران اس جگہ سویا کرتے تھے اور اس خاطر یہاں لکڑی کا ایک تخت لگایا گیا تھا۔

ازدوانہ تہجد ہے یہ الماری کے پیچھے ایک جائے نماز بچھی رہتی، لوگوں کے چلے جانے کے بعد حضورؐ یہاں تہجد کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ استوان جبرئیل یہ نبی پاکؐ کے ذاتی کمرے میں بنایا گیا ہے حضرت جبرئیلؐ عام طور پر اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر حاضر ہوا کرتے تھے۔ اس طرف استوانہ حرس کے معنی ہیں نگرانی، استوانہ حرس اس جگہ واقع ہے جہاں بیٹھ کر حضرت علیؓ مسجد میں آنے والوں کے سیکیورٹی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ رسول اللہؐ کے زمانے میں ہی منافقین نے اسلام کو متاثر اور مٹانے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن ناکام رہے۔

نبی پاکؐ کے روضہ مبارک کے منبر تک کا علاقہ ریاض الجنہ یعنی جنت کا باغ کہلاتا ہے۔ اس جگہ کے فرش پر قالین بچھا کر اس کی شناخت نمایاں کردی گئی ہے جب کہ مسجد نبویؐ کا تمام فرش سرخ قالین سے ڈھکا ہوا ہے۔

جنت البقیع: مسجد نبویؐ کے دروازے البقیع کے سامنے ایک وسیع و عریض قبرستان جنت البقیع ہے اس کے معنی ہیں جنت کا شجر دار باغ۔ بتایا جاتا ہے اس قبرستان میں صحابہ اور بڑے جید لوگ و خواتین مدفون ہیں۔

بنو شقیقہ اس کو بنی سعدہ بھی کہتے ہیں یہ چھت دار عمارت ہے جو ایک یہودی قبیلہ بنی سعدہ کی ملکیت تھی یہ قبیلہ مدینہ میں آباد یہودی قبیلہ بنو خزرج کی ایک شاخ تھا۔ آج کل اس جگہ پر ایک پارک قائم ہے یہ مکان تاریخی اہمیت کا حامل ہے اس وقت یہ ایک بیٹھک کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں