شوکت صدیقی کی یاد میں
انھوں نے صحافت کا پیشہ ضرور اختیار کیا مگر وہ حقیقی طور پر افسانہ نگار ہی تھے۔
یادش بخیر یہ تذکرہ ہے 1940 کا جب یہ جملہ زبان زد عام تھا کہ جو نوجوان ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں ہوتا لازم ہے کہ اس کا دماغی معائنہ کرایا جائے۔
یہ جملہ بے وجہ بیان نہیں کیا جاتا تھا بلکہ صداقت تو یہ ہے کہ اس دور میں ہر تعلیم یافتہ نوجوان ترقی پسند نظریات سے متاثر نظر آتا تھا۔ چنانچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دور میں ترقی پسند نظریات و ترقی پسند تحریک کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ البتہ خوش قسمت تھے اس دور میں عہد شباب قدم رکھنے والے نوجوان جنھیں اس دور کے جید مارکسٹ ساتھیوں کا ساتھ نصیب ہوا۔ چنانچہ خوش نصیب نوجوانوں میں ایک نام ہے محترم شوکت صدیقی صاحب کا۔
شوکت صدیقی کا جنم 20 مارچ 1920 کو اتر پردیش کے شہر لکھنو میں ہوا۔ ان کے والد محترم کا اسم گرامی الطاف حسین صدیقی تھا۔ شوکت صدیقی نے تمام تعلیمی مراحل لکھنو میں ہی طے کیے۔ مطلب یہ کہ 1938 میں 18 برس کی عمر میں میٹرک پاس کیا۔ 1944 میں B.A کی سند حاصل کی جب کہ 26 برس کی عمر میں M.A سیاسیات میں لکھنو یونیورسٹی سے کیا۔ البتہ صحافتی زندگی کا آغاز انھوں نے حصول تعلیم کے درمیان میں ہی کردیا اور 1944 میں وہ ماہنامہ ترکش کے مدیر نامزد ہوگئے یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمگیر جنگ اپنے نقطہ عروج پر تھی، تحریک پاکستان و ہند کی آزادی و تقسیم کا عملی یقینی نظر آرہا تھا۔ شوکت صدیقی نہ صرف ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوچکے تھے بلکہ اس تحریک میں شریک بھی ہوچکے تھے۔
یہ ضرور تھا کہ دیگر تمام نوجوانوں کی طرح شوکت صدیقی بھی اپنے مستقبل کے لیے فکر مند تھے البتہ 1950 میں جب کہ سقوط لکھنو کا عمل جاری تھا شوکت صدیقی کا پورا خاندان ہجرت کرکے لاہور آگیا اور بعدازاں ان کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوچکے تھے۔ اسی باعث انھیں کوئی سرکاری ملازمت تو نہ حاصل ہوسکی چنانچہ انھوں نے مکمل طور پر صحافت سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کرلیا اور روزنامہ پاکستان اسٹینڈر و ٹائمز آف کراچی میں ملازمت اختیار کرلی اور بعد ازاں روزنامہ امروز سے وابستہ ہوگئے۔
انھوں نے صحافت کا پیشہ ضرور اختیار کیا مگر وہ حقیقی طور پر افسانہ نگار ہی تھے چنانچہ 1952 میں شوکت صدیقی کے افسانوں کا مجموعہ تیسرا آدمی چھپا اور منظر عام پر آیا۔ 1954 میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین و کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد ہوئی تو فیض احمد فیض، عبداللہ ملک، حمید اختر، احمد ندیم قاسمی، سید سبط حسن کے ساتھ ساتھ شوکت صدیقی کو بھی پابند زنداں کردیا گیا۔ البتہ 1958 وہ سال تھا جب شوکت صدیقی کا ناول ''خدا کی بستی'' منظر عام پر آیا۔
اس ناول میں ان کے ترقی پسند نظریات کھل کر سامنے آئے۔ رجعت پسند طبقات نے اس ناول ''خدا کی بستی'' پر یہ الزامات عائد کیے کہ اس ناول میں اشتراکی نظریات پیش کیے گئے ہیں یہ الزامات بے سبب نہ تھے۔ حقیقت میں بھی ایسا ہی تھا، ناول ''خدا کی بستی'' کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ 60 برس میں اس کے 30 ایڈیشن چھپ چکے ہیں وہ بھی اردو میں اور پاکستان میں جب کہ اس ناول کا ترجمہ چینی، بلغارین، چیکوسلواکی، بنگالی و گجراتی زبانوں میں ہوچکا ہے جب کہ روس کی 17 زبانوں میں اس ناول کا ترجمہ ہوچکا ہے یوں یہ بات بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ ناول ''خدا کی بستی'' ایک بین الاقوامی ناول ہے یعنی بین الاقوامی اہمیت کا حامل ناول ہے۔
جب کہ اس ناول کو ڈرامائی شکل میں پاکستان ٹیلی ویژن سے بھی پیش کیا گیا چنانچہ ڈرامہ ''خدا کی بستی'' نے بھی ناول کی مانند بے مثال کامیابی حاصل کی اور یہ ڈرامہ پاکستان ٹیلی ویژن کے یادگار ڈراموں میں سے ایک ہے۔ شوکت صدیقی نے مزید دو ناولٹ و تین مکمل ناول بھی قلم بند کیے جب کہ ان کا اولین افسانہ ''کون کسی کا'' 1940 میں ہفت روزہ ''خیام'' لاہور میں چھپا تھا۔
شوکت صدیقی نے آٹھ ڈرامے تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ طبقاتی جدوجہد اور بنیاد پرستی کے نام سے اخباری کالم بھی 1988 میں لکھے جب کہ ان کا تحریر کردہ ڈرامہ ''جانگلوس'' بھی PTV سے پیش کیا گیا مگر نامکمل کیونکہ یہ ڈرامہ پنجاب کے جاگیرداری نظام کے پس منظر میں لکھا گیا تھا چنانچہ مخصوص طبقے کی شدید مخالفت کے باعث فقط 18 اقساط کے بعد ڈرامہ ''جانگلوس'' بند کردیا گیا۔ شوکت صدیقی کو ان کی ادبی خدمات کے صلے میں 1960 میں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1997 میں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ عطا ہوا۔ 2002 میں کمال فن ایوارڈ ان کے دست مبارک کی زینت بنا جب کہ 2003 میں ستارہ امتیاز، 2005 میں عالمی فروغ ادب ایوارڈ ان کے منتظر تھے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی و انجمن ترقی پسند مصنفین کے رکن بھی رہے۔
شوکت صدیقی کا نام ان صحافیوں میں شامل ہوتا تھا جوکہ سابق وزیر اعظم محترم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ روزنامہ مساوات کراچی کے مدیر رہے۔ یہی سبب تھا کہ وہ 1972 سے 1977 تک بھٹو صاحب کے تمام غیر ملکی دوروں میں ان کے ہم سفر رہے۔
کم و بیش 66 برس تک ادبی خدمات انجام دینے والے شوکت صدیقی 18 دسمبر 2006 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور کراچی میں آسودہ خاک ہوئے اگرچہ شوکت صدیقی نے 86 برس 9 ماہ عمر پائی اور نظروں سے اوجھل ہوگئے البتہ ان کا قلمی کام زندہ ہے اور ترقی پسند نظریات کے حامل لوگوں کے لیے رہنمائی کا کام کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ 18 دسمبر 2020 کو ان کی 13 ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے اس موقع پر ہم ان کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ تمام قسم کے جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔