’’امریکا نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف بروقت وار کیا‘‘
جب بھی کوئی طالبان رہنماء حکومت پاکستان کے قریب آیا، ڈرون مار کر اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔
امریکا نے ڈرون حملے میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کومارکر ایک بار پھرثابت کردیاہے کہ وہ اپنے مفادمیں اپنی سوچ کے مطابق بالکل ٹھیک اوربروقت فیصلے کرتا ہے، کیا حکیم اللہ محسوداس سے قبل ڈرون طیارے کی رینج سے باہرتھا؟۔
امریکا اتنی ''بڑی کامیابی'' پہلے بھی حاصل کرسکتا تھا لیکن اس سے قبل یہ اس کے مفاد میں نہیں تھا۔ وزیراعظم نوازشریف امریکا سے واپس آئے تو ان کا اطمینان دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا لیکن خدشات یہی تھے کہ ڈرون حملے اتنے آسانی سے نہیں رکیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا امریکا پاکستان کی خاطر اپنا مفاد قربان کردے گا؟۔امریکی صدر اوباما کو ضرور اپنے دشمن کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی اطلاع پیشگی نہ سہی فوری طور پر ضرور دی گئی ہوگی، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو اس حملے کی ٹائمنگ، اس کے فوری اور امریکا کے حق میں مفید اثرات سے پیشگی طور پر آگاہ کردیا گیا ہو۔
اس سے قبل یہی دیکھا گیا کہ جب بھی کوئی طالبان رہنماء حکومت پاکستان کے قریب آیا، معاہدہ کیا یا معاہدے پر آمادہ نظر آیا، ڈرون مار کر اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ کمانڈر نیک محمد محسود نے پاک فوج کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں تاریخی معاہدہ کیا تو ڈرون حملہ کرکے نیک محمد کو پاک فوج پر حملے نہ کرنے کی قسم کھانے کا مزہ چکھایا گیا، باجوڑ میں طالبان کے ساتھ معاہدے کا ڈرافٹ تیار تھا، اس معاہدے پر فریقین کے دستخط باقی تھے کہ ڈمہ ڈولہ کے دینی مدرسے پر قاتل ڈرون نے ایسے میزائل داغے کہ 80 سے زائد معصوم طلباء کے جسموں کے ساتھ ساتھ اس معاہدے کے بھی پرخچے اڑ گئے۔
طالبان گروپ بڑی تیزی کے ساتھ خود رو پودوں کی طرح سامنے آنے لگے تب بیت اللہ محسود جیسے کمانڈر کو خیال آیا کہ ان گروہوں کو اپنے مقاصد کیلیے یکسو بنانے کیلئے متحد کیا جانا چاہیے، سو انہوں نے ''پرو گورنمنٹ'' اور ''اینٹی گورنمنٹ'' طالبان گروہوں کو اکھٹا کیا اور ''شوریٰ اتحاد المجاہدین'' کے نام سے طالبان گروہوں کا ایک متحدہ محاذ بنایا۔ اس اتحاد میں بیت اللہ محسود کی کامیابی کا اہم پہلو یہ تھا کہ انھوں نے شمالی وزیرستان کے طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر اور جنوبی وزیرستان کے مقامی طالبان کے سربراہ ملانذیر کو ساتھ ملا لیا تھا۔
بجائے اس کے کہ ''اچھے طالبان'' خدشات کے مطابق برے نظریات کے زیر اثر آجاتے بہت جلد لوگوں نے دیکھ لیا کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں نسبتاً سکون آگیا تھا، پاک فوج پر حملے رک گئے تھے، وزیرستان کے عام لوگوں نے طالبان گروہوں کے اتحاد پر اطمینان کا اظہار کیا تھا کیونکہ حافظ گل بہادر اور ملانذیر پہلے ہی حکومت کے ساتھ معاہدے میں تھے، مگر۔۔۔۔؟ امریکہ کو یہ نئی پیش رفت پسند نہیں آئی، اس اہم اتحاد کے مرکزی کردار بیت اللہ محسود کو جنوبی وزیرستان میں اپنے سسر کے گھر میں ڈرون میزائل داغ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا۔ اگلی باری ملانذیر کی تھی جس کی وجہ سے جنوبی وزیرستان میں مثالی امن قائم تھا، ملانذیر پاکستان میں بے گناہ عوام کو خودکش دھماکوں میں مارنے کے خلاف تھے اورامریکا کے دشمنوں کی فہرست میں خاص جگہ رکھتے تھے۔
اب حکیم اللہ محسود کے ممکنہ جان نشین خان سید عرف خالد سجناں، عدنان رشید، احسان اللہ احسان، شاہد اللہ شاہد اور عصمت اللہ معاویہ جیسے کمانڈروں کی زندگی کے آنے والے دن بھی بہت اہم ہیں۔ امریکا نے یقیناً کچھ دانے مناسب وقت کیلیے زندہ رکھنے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے مابین مذاکرات کیونکر ہونگے، اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے والے افراد کیا موجودہ حالات میں ڈرون حملے کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر عملی مذاکرات شروع کرسکیں گے؟۔
امریکا اتنی ''بڑی کامیابی'' پہلے بھی حاصل کرسکتا تھا لیکن اس سے قبل یہ اس کے مفاد میں نہیں تھا۔ وزیراعظم نوازشریف امریکا سے واپس آئے تو ان کا اطمینان دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا لیکن خدشات یہی تھے کہ ڈرون حملے اتنے آسانی سے نہیں رکیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا امریکا پاکستان کی خاطر اپنا مفاد قربان کردے گا؟۔امریکی صدر اوباما کو ضرور اپنے دشمن کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی اطلاع پیشگی نہ سہی فوری طور پر ضرور دی گئی ہوگی، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو اس حملے کی ٹائمنگ، اس کے فوری اور امریکا کے حق میں مفید اثرات سے پیشگی طور پر آگاہ کردیا گیا ہو۔
اس سے قبل یہی دیکھا گیا کہ جب بھی کوئی طالبان رہنماء حکومت پاکستان کے قریب آیا، معاہدہ کیا یا معاہدے پر آمادہ نظر آیا، ڈرون مار کر اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ کمانڈر نیک محمد محسود نے پاک فوج کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں تاریخی معاہدہ کیا تو ڈرون حملہ کرکے نیک محمد کو پاک فوج پر حملے نہ کرنے کی قسم کھانے کا مزہ چکھایا گیا، باجوڑ میں طالبان کے ساتھ معاہدے کا ڈرافٹ تیار تھا، اس معاہدے پر فریقین کے دستخط باقی تھے کہ ڈمہ ڈولہ کے دینی مدرسے پر قاتل ڈرون نے ایسے میزائل داغے کہ 80 سے زائد معصوم طلباء کے جسموں کے ساتھ ساتھ اس معاہدے کے بھی پرخچے اڑ گئے۔
طالبان گروپ بڑی تیزی کے ساتھ خود رو پودوں کی طرح سامنے آنے لگے تب بیت اللہ محسود جیسے کمانڈر کو خیال آیا کہ ان گروہوں کو اپنے مقاصد کیلیے یکسو بنانے کیلئے متحد کیا جانا چاہیے، سو انہوں نے ''پرو گورنمنٹ'' اور ''اینٹی گورنمنٹ'' طالبان گروہوں کو اکھٹا کیا اور ''شوریٰ اتحاد المجاہدین'' کے نام سے طالبان گروہوں کا ایک متحدہ محاذ بنایا۔ اس اتحاد میں بیت اللہ محسود کی کامیابی کا اہم پہلو یہ تھا کہ انھوں نے شمالی وزیرستان کے طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر اور جنوبی وزیرستان کے مقامی طالبان کے سربراہ ملانذیر کو ساتھ ملا لیا تھا۔
بجائے اس کے کہ ''اچھے طالبان'' خدشات کے مطابق برے نظریات کے زیر اثر آجاتے بہت جلد لوگوں نے دیکھ لیا کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں نسبتاً سکون آگیا تھا، پاک فوج پر حملے رک گئے تھے، وزیرستان کے عام لوگوں نے طالبان گروہوں کے اتحاد پر اطمینان کا اظہار کیا تھا کیونکہ حافظ گل بہادر اور ملانذیر پہلے ہی حکومت کے ساتھ معاہدے میں تھے، مگر۔۔۔۔؟ امریکہ کو یہ نئی پیش رفت پسند نہیں آئی، اس اہم اتحاد کے مرکزی کردار بیت اللہ محسود کو جنوبی وزیرستان میں اپنے سسر کے گھر میں ڈرون میزائل داغ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا۔ اگلی باری ملانذیر کی تھی جس کی وجہ سے جنوبی وزیرستان میں مثالی امن قائم تھا، ملانذیر پاکستان میں بے گناہ عوام کو خودکش دھماکوں میں مارنے کے خلاف تھے اورامریکا کے دشمنوں کی فہرست میں خاص جگہ رکھتے تھے۔
اب حکیم اللہ محسود کے ممکنہ جان نشین خان سید عرف خالد سجناں، عدنان رشید، احسان اللہ احسان، شاہد اللہ شاہد اور عصمت اللہ معاویہ جیسے کمانڈروں کی زندگی کے آنے والے دن بھی بہت اہم ہیں۔ امریکا نے یقیناً کچھ دانے مناسب وقت کیلیے زندہ رکھنے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے مابین مذاکرات کیونکر ہونگے، اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے والے افراد کیا موجودہ حالات میں ڈرون حملے کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر عملی مذاکرات شروع کرسکیں گے؟۔