منہ کے بل مودی جی
بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے مودی جی اتنے پریشان اور گم سم رہتے رہتے ہیں کہ منہ کے بل گر کر دکھا دیتے ہیں
دل دھک سے رہ گیا جب دو تین روز پہلے ایک نیوز دیکھی، جس میں مہاشے مہان بھارت کے مہان پردھان منتری مودی جی تیز تیز سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اچانک منہ کے بل گر پڑے اور فوراً ساتھ موجود سیکیورٹی کے ویر جوانوں نے لپک کر انہیں اٹھایا اور سہارا دیا۔
ویسے حیرت ہوئی کہ اس واقعے کو فوراً سے پیشتر ایک سازش کیوں قرار نہیں دیا گیا اور اس میں پاکستانی ایجنسیوں کا عمل دخل کیوں قرارنہیں دیا گیا، جو کہ وہاں کی روایت ہے کہ ہوا بھی تیز چلے یا بارش ذرا زیادہ ہوجائے یا ہماری طرف سے کوئی کبوتر گھومتا پھرتا ہی وہاں آجائے تو انڈین میڈیا کا سب سے معروف گرماگرم ریٹنگ لینے کا طریقہ یہی ہے کہ فوراً اس کا الزام پاکستان پر لگادیں۔ اور یہ تو ایک بڑا بہترین موقع تھا کہ سارے مہان بھارت کے مہان نیوز چینل چیخ چیخ کر دنیا کو حسب عادت بتاتے اور گرجدار آوازوں میں کچھ یوں خبر بریک کرتے کہ ''ایک اور بھیانک سازش کا انکشاف، سیڑھیوں کے فارنسک ٹیسٹ سے پاکستانی تیل لگے ہونے کا انکشاف، مہان پردھان منتری پر پڑوسی ملک کی قاتلانہ سازش بے نقاب'' وغیرہ۔
چلو خیر جو ہوا سو ہوا۔ اچھا بھلاموقع گنوا دیا انڈین میڈیا نے۔ لیکن ایک اور بہت بڑی بات ہوگئی اور جس پر یہ کہنا یا لکھنا بالکل بنتا ہے کہ غلطی کر بیٹھے نا مودی جی۔ اور ایک ایسا بل برائے شہریت پارلیمنٹ سے پاس کرا بیٹھے جو اردو محاورے کے مطابق اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کا صبر جواب دے گیا اور اب ایسے مظاہرے، دنگے اور پولیس تشدد کے واقعات، جو کہ اس بل کے خلاف کیے جانے والے ملک گیر احتجاج میں ساری دنیا کا میڈیا دکھا رہا ہے، سیکولر انڈیا کے چہرے پر پڑی نقاب اٹھا کر ہندوتوا کا اصل چہرہ دنیا کو بخوبی دکھا رہے ہیں۔
آپ ہی کے ملک کے نیتا ششی تھرور نے اس بل کے پاس ہونے پر کیا بیان دیا ہے، وہ تو ویسے ہی موضوع بحث بن گیا ہے کہ آج باپو یعنی گاندھی جی کی سوچ ہار گئی اور محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ جیت گیا۔ اب دیکھیں نا یہ ہم تو نہیں کہہ رہے بلکہ آپ ہی کے ملک کے نیتا کہہ رہے ہیں اور بھی بہت سے شعبوں کی مشہور شخصیات اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہیں، یہاں تک کہ گوگل کے انڈین سی ای او نے بھی مسلمانوں اور اقلیتوں کے حق میں بیان دے ڈالا ہے، حالانکہ وہ تو ہندو دھرم سے ہے لیکن انصاف پسند آدمی لگتا ہے۔
تو مودی جی مانو یا نا مانو، اور 'میں نہ مانوں' کی رٹ بھلے ہی لگائے رکھو، لیکن آپ کی جماعت کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ جی نے یہ بل پاس کروا کر آپ کو پارلیمانی سیاست میں منہ کے بل گرادیا ہے اور یہ روز بہ روز بڑھتے ہوئے دنگے، مظاہرے اور فسادات، جو کہ مہان بھارت کی بہت سی ریاستوں اور شہروں میں برپا ہیں، آپ کو ایک ایسی بند گلی میں لے جارہے ہیں جہاں سے نہ آگے بڑھنے کا راستہ ملے گا نہ واپسی کا۔ آپ کو سوچنا چاہیے تھا کہ مسلمان اور باقی اقلیتوں کا بھی ہندوستان پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہندوؤں کا۔ لیکن آپ نے بڑی بے رحمی سے ان کا یہ حق چھیننے کی کوشش کی ہے اور بنیادی انسانی حقوق کو بھی پامال کیا ہے۔ بین الاقوامی ادارے بھی تھو تھو کررہے ہیں تو اب جلد یا بعد از خرابیٔ بسیار آپ کو یہ فیصلہ شاید واپس لینا پڑے گا۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جو یہ احتجاجی لہر چل پڑی ہے وہ آپ کو اور بی جے پی کے مستقبل کے سارے منصوبوں کو کہیں بہا کر ہی نہ لے جائے۔
ادھر کشمیر پر آپ کا جابرانہ قبضہ اور ظلم و ستم پہلے ہی آپ پر بھاری پڑنا شروع ہوچلا ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے آپ کی تمام تر لابنگ کے باوجود امریکن کانگریس نے اس ظلم کے اور کشمیر میں لگے مستقل کرفیو کے خلاف قرارداد پاس کی ہے۔ دیگر مہذب اور ترقی یافتہ ممالک بھی ایسے ہی اقدامات کرچکے اور کررہے ہیں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی چیخ و پکار مچائے ہوئے ہیں۔ آپ تو جیسے گھرتے ہی جارہے ہیں روز بہ روز اور یوں لگ رہا ہے کہ جیسے یہ کہیں آپ کے انجام کا آغاز تو نہیں؟
اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیجئے۔ بل واپس لیں، کشمیر پر ظلم و ستم بند کریں، کرفیو ہٹائیں اور صرف ہندوؤں کے ایک گروہ کے بجائے سارے ہندوستان کے عوام کے وزیراعظم بن کر سوچنا شروع کریں۔ جوکہ ویسے تو آپ جیسے متعصب شخص کےلیے ناممکن کی حد تک مشکل ہے، لیکن اس کے سوا فی الحال آپ کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ آپ ہی کے دیش کے پڑھے لکھے باشعور افراد اور انڈین سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس جیسی ہستیاں بھی برملا یہ کہتی نظر آرہی ہیں کہ مودی کے اقدامات ہندوستان کو توڑنے کی جانب لے جارہے ہیں۔
یہ ایک بین الاقوامی صداقت ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کے نظام کو بقا نہیں ہے اور آپ جس نظام کی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں وہ تو اس دنیا میں مروجہ ہر تعریف کے مطابق سراسر ظلم کا نظام ہے اور کچھ بھی نہیں۔ بس جاتے جاتے ایک شعر نذر کرتا ہوں کہ؎
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ویسے تو یہ شعر فرنگیوں سے نجات کی تحریک آزادی کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے لیکن آپ کی حرکتوں کی وجہ سے موجودہ صورتحال پر بھی سو فیصد صادق آرہا ہے اور شاید ان ہی روز بہ روز امڈتے، ابلتے اور بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے مودی جی اتنے پریشان اور گم سم رہتے اور سوچوں میں کھوئے رہتے ہیں کہ منہ کے بل گر کر دکھا دیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ویسے حیرت ہوئی کہ اس واقعے کو فوراً سے پیشتر ایک سازش کیوں قرار نہیں دیا گیا اور اس میں پاکستانی ایجنسیوں کا عمل دخل کیوں قرارنہیں دیا گیا، جو کہ وہاں کی روایت ہے کہ ہوا بھی تیز چلے یا بارش ذرا زیادہ ہوجائے یا ہماری طرف سے کوئی کبوتر گھومتا پھرتا ہی وہاں آجائے تو انڈین میڈیا کا سب سے معروف گرماگرم ریٹنگ لینے کا طریقہ یہی ہے کہ فوراً اس کا الزام پاکستان پر لگادیں۔ اور یہ تو ایک بڑا بہترین موقع تھا کہ سارے مہان بھارت کے مہان نیوز چینل چیخ چیخ کر دنیا کو حسب عادت بتاتے اور گرجدار آوازوں میں کچھ یوں خبر بریک کرتے کہ ''ایک اور بھیانک سازش کا انکشاف، سیڑھیوں کے فارنسک ٹیسٹ سے پاکستانی تیل لگے ہونے کا انکشاف، مہان پردھان منتری پر پڑوسی ملک کی قاتلانہ سازش بے نقاب'' وغیرہ۔
چلو خیر جو ہوا سو ہوا۔ اچھا بھلاموقع گنوا دیا انڈین میڈیا نے۔ لیکن ایک اور بہت بڑی بات ہوگئی اور جس پر یہ کہنا یا لکھنا بالکل بنتا ہے کہ غلطی کر بیٹھے نا مودی جی۔ اور ایک ایسا بل برائے شہریت پارلیمنٹ سے پاس کرا بیٹھے جو اردو محاورے کے مطابق اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کا صبر جواب دے گیا اور اب ایسے مظاہرے، دنگے اور پولیس تشدد کے واقعات، جو کہ اس بل کے خلاف کیے جانے والے ملک گیر احتجاج میں ساری دنیا کا میڈیا دکھا رہا ہے، سیکولر انڈیا کے چہرے پر پڑی نقاب اٹھا کر ہندوتوا کا اصل چہرہ دنیا کو بخوبی دکھا رہے ہیں۔
آپ ہی کے ملک کے نیتا ششی تھرور نے اس بل کے پاس ہونے پر کیا بیان دیا ہے، وہ تو ویسے ہی موضوع بحث بن گیا ہے کہ آج باپو یعنی گاندھی جی کی سوچ ہار گئی اور محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ جیت گیا۔ اب دیکھیں نا یہ ہم تو نہیں کہہ رہے بلکہ آپ ہی کے ملک کے نیتا کہہ رہے ہیں اور بھی بہت سے شعبوں کی مشہور شخصیات اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہیں، یہاں تک کہ گوگل کے انڈین سی ای او نے بھی مسلمانوں اور اقلیتوں کے حق میں بیان دے ڈالا ہے، حالانکہ وہ تو ہندو دھرم سے ہے لیکن انصاف پسند آدمی لگتا ہے۔
تو مودی جی مانو یا نا مانو، اور 'میں نہ مانوں' کی رٹ بھلے ہی لگائے رکھو، لیکن آپ کی جماعت کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ جی نے یہ بل پاس کروا کر آپ کو پارلیمانی سیاست میں منہ کے بل گرادیا ہے اور یہ روز بہ روز بڑھتے ہوئے دنگے، مظاہرے اور فسادات، جو کہ مہان بھارت کی بہت سی ریاستوں اور شہروں میں برپا ہیں، آپ کو ایک ایسی بند گلی میں لے جارہے ہیں جہاں سے نہ آگے بڑھنے کا راستہ ملے گا نہ واپسی کا۔ آپ کو سوچنا چاہیے تھا کہ مسلمان اور باقی اقلیتوں کا بھی ہندوستان پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہندوؤں کا۔ لیکن آپ نے بڑی بے رحمی سے ان کا یہ حق چھیننے کی کوشش کی ہے اور بنیادی انسانی حقوق کو بھی پامال کیا ہے۔ بین الاقوامی ادارے بھی تھو تھو کررہے ہیں تو اب جلد یا بعد از خرابیٔ بسیار آپ کو یہ فیصلہ شاید واپس لینا پڑے گا۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جو یہ احتجاجی لہر چل پڑی ہے وہ آپ کو اور بی جے پی کے مستقبل کے سارے منصوبوں کو کہیں بہا کر ہی نہ لے جائے۔
ادھر کشمیر پر آپ کا جابرانہ قبضہ اور ظلم و ستم پہلے ہی آپ پر بھاری پڑنا شروع ہوچلا ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے آپ کی تمام تر لابنگ کے باوجود امریکن کانگریس نے اس ظلم کے اور کشمیر میں لگے مستقل کرفیو کے خلاف قرارداد پاس کی ہے۔ دیگر مہذب اور ترقی یافتہ ممالک بھی ایسے ہی اقدامات کرچکے اور کررہے ہیں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی چیخ و پکار مچائے ہوئے ہیں۔ آپ تو جیسے گھرتے ہی جارہے ہیں روز بہ روز اور یوں لگ رہا ہے کہ جیسے یہ کہیں آپ کے انجام کا آغاز تو نہیں؟
اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیجئے۔ بل واپس لیں، کشمیر پر ظلم و ستم بند کریں، کرفیو ہٹائیں اور صرف ہندوؤں کے ایک گروہ کے بجائے سارے ہندوستان کے عوام کے وزیراعظم بن کر سوچنا شروع کریں۔ جوکہ ویسے تو آپ جیسے متعصب شخص کےلیے ناممکن کی حد تک مشکل ہے، لیکن اس کے سوا فی الحال آپ کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ آپ ہی کے دیش کے پڑھے لکھے باشعور افراد اور انڈین سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس جیسی ہستیاں بھی برملا یہ کہتی نظر آرہی ہیں کہ مودی کے اقدامات ہندوستان کو توڑنے کی جانب لے جارہے ہیں۔
یہ ایک بین الاقوامی صداقت ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کے نظام کو بقا نہیں ہے اور آپ جس نظام کی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں وہ تو اس دنیا میں مروجہ ہر تعریف کے مطابق سراسر ظلم کا نظام ہے اور کچھ بھی نہیں۔ بس جاتے جاتے ایک شعر نذر کرتا ہوں کہ؎
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ویسے تو یہ شعر فرنگیوں سے نجات کی تحریک آزادی کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے لیکن آپ کی حرکتوں کی وجہ سے موجودہ صورتحال پر بھی سو فیصد صادق آرہا ہے اور شاید ان ہی روز بہ روز امڈتے، ابلتے اور بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے مودی جی اتنے پریشان اور گم سم رہتے اور سوچوں میں کھوئے رہتے ہیں کہ منہ کے بل گر کر دکھا دیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔