ٹائم پاس

وقت بہتر بنانے کی کوشش میں بہترین لوگوں کو گنوا دیا جاتا ہے، اور ان ہی لوگوں کی یاد میں بہتر وقت کو خراب کیا جاتا ہے

وقت کا کام گزرنا ہے، اسے گزرنے دیا جائے اور اس سے کسی قسم کی زد نہ لگائی جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میں آج اس گھناؤنے کھیل سے دست برداری کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کھیل سے جس میں کھلاڑی تو انسان کہلائیں مگر کھلونا انسانی دل اور جذبات ہوں۔ آہ اور واہ کرنے والے تماشائی وہ منافقین ہوں جنہیں کرب صرف اپنی چوٹ پر ہو اور دوسرے کے چھلکتے آنسو ان کے نزدیک محض تماشا ٹھہریں۔ مجھے اس کھیل سے بیزاری ہے اور میں آئے روز انسانوں کو اسی کھیل کے ہاتھوں اپنی زندگیاں برباد کرتے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اس کھیل سے کوفت ہوتی ہے، مجھے اس کھیل کا حصہ نہیں بننا مگر میں ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہوں جہاں یہی کھیل زندگی ہے۔

یہ کھیل ہم صبح سے شام تک کھیلتے ہیں اور اس کا نام ''ٹائم پاس'' ہے، کہ بس اپنی حسیات ماؤف کرکے وقت گزاری کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو اس وقت کو اچھا بنانے کی کوشش کی جائے۔ وقت اچھا کرنے کا کوئی حیلہ بہانہ تو ہونا ہی چاہیے۔ تو لیجئے جذبات حاضر ہیں، دل حاضر ہے، اسی سے کھیلا جائے اور لمحات رنگین کیے جائیں۔ نوکری، چاکری، کھانا پینا، ہنسنا ہنسانا، رونا رلانا، کھیلنا کھلانا، آنا جانا سب کیا ہے؟ ٹائم پاس ہی تو ہے، کہ جس وقت نے ویسے ہی ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسلنے کی قسم کھائی ہے تو بس ان گزرتے لمحوں کو خوب سے خوب تر گزارا جاسکے۔

والدین کیوں بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخل کراتے ہیں؟ اس لیے تاکہ زندگی میں ان کا ٹائم اچھا پاس ہوسکے۔ وہ کسی سے کم نہ ہوں۔ نہ تعلیمی لحاظ سے، نہ رہن سہن کے لحاظ سے۔ بچے کیوں کلاس میں اول آنے کی تگ ودو میں اپنے بچپن کے قیمتی لمحات وقت کی بے رحم آگ میں راکھ کردیتے ہیں؟ تاکہ کلاس میں وقت اچھا گزر سکے۔ سب سے بہتر سب سے افضل محسوس کیا جاسکے۔ بس یوں سمجھیے کہ وہیں سے ریس کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ ریس جس میں انسان دوڑ رہا ہے۔ جس میں انسان مقابلے میں ہے۔ جس میں اسے سب سے آگے نکلنا ہے، سب کو پیچھے دھکیلنا ہے، سب کو منہ چڑانا ہے اور اپنی ذات کو سب سے افضل سمجھنا ہے۔ ریس اگر کھیل میں دیکھی جائے تو جب تک کھلاڑی دوڑ رہا ہوتا ہے، اسے اپنے آگے نکلنے کی کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ وہ تو جب ریس کے اختتام میں آخری پٹی کو عبور کرتا ہے تو اسے دکھائی دیتا ہے کہ وہ جیت چکا ہے تو خوشی سے جھومتا چھلانگیں لگاتا اپنی جیت پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے برعکس انسانی زندگی کو اگر دیکھا جائے تو وہ ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل ہے۔ اسے جیت کا، سکون کا احساس تب ہو جب اسے پتہ چلے کہ ریس تمام ہوئی اور باقی سب اس سے پیچھے رہ گئے۔ مگر اس مخلوق نے اپنا مقدر سدا دوڑنے سے ہی وابستہ کرلیا ہے اور پھر گلہ ہے کہ خوشی نام کو نہیں۔


وقت کا کام گزرنا ہے۔ اسے گزرنے دیا جائے اور اس سے کسی قسم کی زد نہ لگائی جائے۔ آس لگائی جائے تو اس سے جو زمان ومکان کی قید سے آزاد اور اسی وقت کا موجد ہے۔ جو وقت بنانے والا ہے، وہ وقت تبدیل بھی کرتا ہے اور ساکت بھی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں انسان کو محبت کے دعوے چھوڑ دینے چاہئیں، کیوں کہ حقیقی محبت انسان ہمیشہ اپنے آپ ہی سے کرتا آیا ہے۔ وقت کے ساتھ بظاہر اٹوٹ لگنے والے مضبوط رشتے بھی کسی زنگ زدہ دروازے کی طرح کمزور پڑ جایا کرتے ہیں اور انسان تعلقات روندتا ہوا اپنی ذات کے خمار میں گم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔

اس گاؤں میں جہاں پیدائش ہوتی ہے، جہاں کی مٹی میں کپڑے گندے کرتے کنچے کھیلے جاتے ہیں۔ جہاں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی کچی پکی محبتوں کا احساس ہوتا ہے۔ جہاں انسان اپنے والدین، بہن بھائیوں، دوستوں یاروں کی آنکھوں کی رونق ہوتا ہے۔ اچانک ایک عمر پر پہنچتے ہی محسوس کرتا ہے کہ اب اس کا وقت اچھا نہیں گزر رہا۔ ٹائم بہتر پاس کرنے کےلیے خود کو دیس بدر کرتا ہے۔ پرائے ملکوں کی خاک چھانتا ہے، تاکہ وقت کی بے رحم موجوں میں زندگی کی ناؤ بغیر ڈولتے آگے بڑھ سکے۔ وہی والدین جنہیں بچوں کےلیے ٹائم نہیں ملتا، کیوں کہ نوکری کرکے، پیسے کماکر بچوں کے ٹائم کو اچھا بنانے کا احساس ستاتا ہے۔ وہی بچے دیکھتے ہی دیکھتے بڑے ہوکر ان ہی والدین کےلیے ٹائم نہیں نکال پاتے۔ کیوں کہ والدین کے بڑھاپے کو سہل بنانے کےلیے نوکری کرتے ہیں۔ پیسہ کماتے ہیں۔ تاکہ اپنی جوانی اور والدین کا بڑھاپا، دونوں میں ٹائم بہتر گزر سکے۔

میں دوبارہ اس گھناؤنے کھیل سے دست برداری کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کھیل میں، جس کا حاصل لاحاصل ہے۔ جس میں خود فریبی ہی خودفریبی ہے۔ جس میں انسان کا مقدر خسارہ ہے۔ جس میں نعمت ہو تو قدر نہیں ہوتی اور قدر ہو تو نعمت نہیں ہوتی۔ بس یوں سمجھیے کہ ٹائم بہتر بنانے کی کوشش میں بہترین لوگوں کو گنوا دیا جاتا ہے، اور ان ہی لوگوں کی یاد میں اس حاصل بہتر ٹائم کو خراب کیا جاتا ہے۔ مجھے اس ٹائم پاس کے کھیل کا حصہ ہی نہیں بننا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story