پھر شاید ایک نہیں کئی ردالفساد کرنے پڑیں

امراض قلب کے اسپتال میں وکلا دہشتگردی کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے مریض کیونکہ عام پاکستانی ہیں۔

moazzamhai@hotmail.com

فرض کیجیے کہ کوئی شخص خود سے بم باندھ کر کسی اسپتال میں جا کر پھٹ جائے یا یہ بم اسپتال میں پھینک کر کئی مریض مار ڈالے تو میڈیا کیا کرے گا ؟ میڈیا ایسے درندہ صفت شخص کو دہشتگرد اور اس حملے کو دہشتگردی گردانے گا نا؟ اور فرض کیجیے کہ کوئی شخص اسپتال میں بندوق لے کر گھس جائے اور وہاں داخل اپنے مخالفوں، دشمنوں کو قتل کر دے تو اسے میڈیا کیا کہے گا؟ قاتل کہے گا۔ کہے گا نا؟

اب آئیے، اس صورتحال کو ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں کہ جنگوں کے دوران بھی اسپتالوں یہاں تک کہ فوجی اسپتالوں پہ بھی حملہ کرنا، بم گرانا، وہاں داخل مریضوں کو مارنا مذہبی، اخلاقی یہاں تک کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ممنوع ہے اور اگر کوئی طاقت جنگ یا خانہ جنگی کے دوران بھی کسی اسپتال پر حملہ کرے جس کے نتیجے میں وہاں داخل مریض جان سے جائیں تو ایسے حملے کو جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم کہا جاتا ہے کرپٹ سے کرپٹ میڈیا بھی اسے انسانیت کا مجرم قرار دیتا ہے۔

11 دسمبر کو وکلا مافیا کے منظم جتھوں نے لاہور میں امراض قلب کے اسپتال پہ باقاعدہ اس مافیا کے اپنے ارکان کے الفاظ میں لشکر کشی کی۔ وکلا نے اس حملے میں مریضوں کو لگی ڈرپس کھینچ کر نکالیں، درندگی اور دہشتگردی کی انتہا تھی کہ ان وحشیوں نے مریضہ کے منہ سے لگا آکسیجن ماسک تک نوچ کر اس کو اذیت ناک موت سے دوچار کیا، آپریشن تھیٹر میں گھس کر آپریشن کرنے میں مصروف ڈاکٹروں کو آپریشن تھیٹر سے باہر گھسیٹ گھسیٹ کر مارا، اسپتال میں ہر طرف توڑ پھوڑ مچائی، علاج معالجے کے لیے رکھی گئی مشینوں اور آلات کو بھی نہیں چھوڑا۔ ڈاکٹروں بشمول خواتین ڈاکٹروں، اسپتال کے عملے کے افراد، مریضوں، تیمار داروں، پولیس والوں، میڈیا کے نمایندوں پہ کھلے عام بد ترین تشدد کیا گیا۔

وکلا مافیا کے امراض قلب کے اسپتال پہ حملے کے نتیجے میں کئی مریض جاں بحق ہو گئے۔ اب آپ بتائیے کہ کیا یہ دہشتگردی نہیں، یہ قتل نہیں اور کیا یہ انسانیت کے خلاف جرائم نہیں؟ اگر ہیں تو میڈیا نے ایسا کیوں نہیں کہا اور کیا یہ حملہ کرنے والے دہشتگرد، قاتل اور انسانیت کے مجرم نہیں ہوئے؟ نجی چینل پہ بیٹھے ٹی وی اینکروں نے تو نہیں کہا حالانکہ اگر آپ اوپر دیے گئے قانونی، اخلاقی اور انسانی اصولوں کے مطابق دیکھیں تو وکلا مافیا کا اسپتال پہ حملہ اور اس حملے کے نتیجے میں مریضوں کی ہلاکت دہشتگردی، قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تعریف پہ پورا اترتا ہے۔ تاہم یہ پاکستان ہے جہاں طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں اور کمزورکے لیے کوئی انصاف نہیں۔ یہاں معاملہ دوسرا ہے۔

امراض قلب کے اسپتال میں وکلا دہشتگردی کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے مریض کیونکہ عام پاکستانی ہیں ،کوئی جنرل، جج، سیاستدان یا بیورو کریٹ یا ان کے بیوی بچے ماں باپ بہن بھائی نہیں چنانچہ ہم پورے یقین سے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب ''اسلامی جمہوریہ'' پاکستان المعروف ریاست مدینہ میں کیا پیش آئے گا۔


اب ہو گا کچھ یوں کہ شیخ رشید اور چوہدری شجاعت جیسے کردار جلد سرگرم ہوں گے اور افہام و تفہیم سے کام لینے اور مارے گئے مریضوں کی لاشوں پہ مٹی پاؤ اور آگے بڑھو کے فلسفے کا پرچار کریں گے۔ دوسری طرف مختلف مافیاؤں کے وفادار ٹی وی ٹاک شو اینکر جو اسپتال پہ وکیلوں کے حملے پہ غم و غصے کا ڈرامہ کر رہے ہیں جلد اس معاملے کو جملہ مافیاؤں کی مرضی کے مطابق ختم کرنے کے لیے ایکٹیو ہو جائیں گے۔ جلد حکومت اور وکلا مافیا کے لیڈروں کے درمیان ڈھکے چھپے مذاکرات ہوں گے اور وکلا مافیا کے جو چند کارندے پکڑے گئے ہیں جلد رہا کر دیے جائیں گے۔ باقیوں کو ہم قوی امید رکھ سکتے ہیں کہ عدالتیں ضمانت پہ رہا کر دیں گی۔

جی نہیں یہ کوئی بدگمانی کی بات نہیں۔ آپ خود دیکھئے کہ صرف پچھلے چند سالوں میں ہی وکلا اور ینگ ڈاکٹرز کی مافیاؤں نے عام لوگوں، مریضوں، تیمار داروں، عدالتی سائیلین اور ان کے لواحقین، پولیس اور میڈیا نمایندوں، ججوں، سینئر ڈاکٹروں پہ نجانے کتنے ہی حملے کیے، تشدد کیا، توڑ پھوڑ مچائی۔ آج تک وکلا مافیا اور ینگ ڈاکٹرز مافیا کے کسی ایک بھی رکن کو سزا ملی؟ نہیں ملی۔

پی ٹی آئی کی حکومت جو آج تک سانحہ ساہیوال اور صلاح الدین کے قاتلوں کو سزا نہیں دلوا سکی اس سے یہ امید رکھنا حماقت ہوگی کہ یہ وکلا مافیا جیسی منظم مافیا کے سامنے کھڑی ہوسکے گی۔ اس سارے ہنگامے کے بعد پنجاب حکومت کے وزیروں کی پریس کانفرنس اور پھروزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم کے بیانات کہ پنجاب حکومت نے معاملہ خوش اسلوبی سے ہینڈل کیااور ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ نہ ہونے دیا ایسے بیانات ہیں کہ جو معمولی شعور رکھنے والے انسان کو بھی خوفزدہ کر دیں۔ یعنی امراض قلب کے اسپتال میں تباہی مچا دی گئی، کئی مریض جانوں سے گئے، سیکڑوں مریض در بدر ہو گئے اور پنجاب حکومت کی کامیابی یہ ہے کہ اسپتال پہ حملہ آور فسادیوں کو بچا لیا گیا اور یہ صرف امراض قلب کے اسپتال پہ وکیلوں کے حملے کی بات نہیں پورے ملک میں جہاں کہیں بھی فسادی فسادبرپا کریں وہاں حکومت کا پورا فوکس عام شہریوں اور ان کی املاک کو بچانے کے لیے فسادیوں کو محفوظ سیف ایگزٹ دینے پہ ہوتا ہے۔

یہ جو آج ٹی وی اینکر شور مچا رہے ہیں کہ پنجاب پولیس نے فسادی وکیلوں کے لشکر کو اسپتال پہنچنے سے پہلے کارروائی کر کے کیوں نہ روکا اگر پنجاب پولیس نے واقعتاً وکیلوں کے جتھوں کے خلاف پہلے ہی کوئی کارروائی کرلی ہوتی تو یہی ٹی وی اینکر چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھاچکے ہوتے کہ '' قانون دانوں'' پہ پولیس تشدد کیاگیا۔ پوری دنیا یہاں تک کہ امریکا تک میںشہریوں کی حفاظت کے لیے پولیس کو فسادیوں سے نمٹنے کے لیے گولی تک چلانے کی اجازت ہوتی ہے تاہم اس ملک کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں ٹی وی اینکروں کی وجہ سے ریاستی ادارے بالخصوص پولیس مفلوج ہو چکی ہے۔ ان ٹی وی اینکروں کے مطابق چند سو فسادیوں کا یہ جمہوری حق ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں عام شہریوں سے ان کا جینے کا بنیادی حق بھی چھین لیں۔

27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پورے ملک بالخصوص سندھ اور خصوصاً کراچی میں تباہی پھیلا دی گئی، سیکڑوں لوگوں کو قتل کیا گیا اور اس دوران سکیورٹی ادارے تماشا دیکھتے رہے۔ آج تک کسی ٹی وی اینکر نے مطالبہ کیا کہ اس قتل عام کے ذمے داروں کو پکڑ کر سزا دی جائے؟ فسادیوں کے قتل و غارت گری اور فساد کے ''جمہوری حق'' کی حفاظت کرتے کرتے یہ ملک آج انارکی میں تیزی سے ڈوب رہا ہے۔ ٹی وی اینکروں کی بلیک میلنگ سے اب ریاست کو نکلنا ہو گا۔
Load Next Story