پرویز مشرف کو سزائے موت مگر

آمر کبھی اکیلا آمریت مسلط نہیں کرتا بلکہ اس کے کچھ حواری ہوتے ہیں جو وقت بدلنے پر جمہوریت کے علمبردار بن جاتے ہیں

پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی ہے۔ (فوٹو: فائل)

واقعات، حادثات، سانحات، کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی کا راستہ طے کرتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ دیکھا جائے کوئی بھی قوم کسی بھی حادثے، سانحے یا واقعے کے بعد کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے۔ اور پاکستان میں بھی ترقی کی گاڑی سست روی سے چل رہی ہے، لیکن بہرحال اس میں پٹرول ابھی موجود ہے اور امید یہی ہے کہ موجود رہے گا۔ کیوں کہ جہاں اس میں ایندھن ختم ہونے کی بری خبر سننے کو ملتی ہے تو اچانک کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ یہ پھر سے فراٹے بھرنے لگتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ان فراٹوں کی رفتار باقی دنیا کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔

جمہوریت کی مضبوطی پاکستان کے قیام سے آج تک کا اہم مسئلہ رہی ہے۔ جمہوری ادارے بھی یقینی طور پر تب ہی مضبوط ہوں گے جب جمہوریت مضبوط ہوگی۔ لیکن صد افسوس کہ ہمارے ہاں جمہوریت کو اپنے مفادات کےلیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اسے مضبوط بنانے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ عوام مگر امید کے دیے کی لو سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔ لو پھڑپھڑاتی ہے تو دل پھڑپھڑاتے ہیں۔ دیے کی لو پورے جوبن پر ہوتی ہے تو عوام بھی سکون کا سانس لیتے ہیں۔ جمہوریت کا کھیل جاری و ساری ہے؛ اور اس سے کئی لکھ پتی ہوگئے تو کئی کی شیروانیوں کی پھٹی جیبیں ان کے خلوص ثابت کرتی رہیں۔

جمہوریت کی ترقی کا جن بوتل سے کب باہر نکلے گا نہیں معلوم، لیکن بہرحال ہر حکومت، ہر سیاسی جماعت اس نعرے کو سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔ پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت رکھنے والے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اسباب پر اتنی بحث ہوچکی ہے کہ اب اس پر بحث کرنا فقط وقت کا ضیاع ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ گزرتے وقت کی تہوں میں سے ہر کچھ عرصے بعد اس سانحے سے جڑا کوئی نہ کوئی سچ سامنے آتا رہے تو اُس سچ پر بحث ہوتی رہے گی۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کی نہ صرف حکومت ختم کردی بلکہ جلاوطن بھی کردیا۔

یاد رکھیے! آمر کبھی بھی تن تنہا آمریت مسلط نہیں کرتا بلکہ اس کے کچھ حواری ایسے ہوتے ہیں جو اس کا ساتھ دینے کےلیے ضرورت پڑنے پر نہ صرف آمریت کی بیساکھیاں بننے کو تیار رہتے ہیں بلکہ وقت آنے پر جمہوریت کے علمبردار بھی بن جاتے ہیں۔ اور حیرت کا پہلو یہ ہے کہ ہر جگہ اُن کی خوب آؤ بھگت بھی ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان کے ساتھ بھی ہے۔

سزا کس کو ہوئی؟ جزا کا حقدار کون ٹھہرا؟ پس زنداں کون جائے گا؟ تخت پر براجمان کون ہوگا؟ آمریت کے پہلو میں نغمہٴ مفادات کون گنگنگائے گا؟ جمہوریت کے سفر میں قید و بند کی صعوبتیں کون اُٹھائے گا؟ اس تمام بحث سے قطع نظر ہم موضوع بحث ہی کو مکمل یوٹرن دے دیتے ہیں۔


آمریت یقینی طور پر ملک کےلیے نقصان دہ رہی ہوگی، بغیر بحث و مباحثہ مان لیتے ہیں۔ لیکن ہم اس حقیقت سے پہلوتہی کیوں کرلیتے ہیں کہ آمر بذات خود تو ایک انسان ہوتا ہے اور اکیلا انسان اپنی پالیسی کو عملی سطح پر نافذ کرنے کےلیے جن جمہوری گویّوں کو سہارا بناتا ہے، وہ کیسے صاف بچ نکلتے ہیں؟ ایوب خان نے اقتدار سنبھال لیا، فیلڈ مارشل بن گئے۔ 65 کی جنگ ہوئی۔ قصے، کہانیاں، حقیقتیں سنائی دیتی رہی ہیں، سنائی دی جاتی رہیں گی۔ ڈیم بن گئے اور آج تک قائم ہیں۔ یحییٰ خان آئے، اور پھر کیسے گئے، کچھ راز زباں زدِ عام ہیں، باقی پردے کے پیچھے ہیں۔ ضیاء آئے اور پھر کیسے گئے، پوری دنیا نے دیکھا۔ باری آگئی پرویز مشرف کی۔ وہ آئے، تختہ اُلٹا، ملک سنبھال لیا، مکے لہرائے، اور پھر وردی کو سلام کر کے الوداع ہوئے۔ صدارت بھی رفتہ رفتہ کھسکتی گئی، اور آج مطعون ٹھہرے۔ مقدمہ چلا، غدار قرار دیئے گئے باوجود پاکستان کی خاطر جنگوں میں حصہ لینے کے، اور 12 اکتوبر کے اہم ترین ان کے قدم کے بجائے سزا 2007 کے اقدامات پر پاگئے۔ اور سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔

داستانِ آمریت جمہوریت کے ناول میں بڑی دلچسپ ہے۔ آج بھی ایوب خان ہوں یا پرویز مشرف، کوئی بھی جب لفظوں کی سنگ باری سہتا ہے تو اکیلا سہتا ہے۔ تن تنہا طعنوں کا بوجھ تاریخ کے دھارے میں خود اُٹھائے ہوئے ہے۔ لیکن کیا ہم نے آج تک سوچنے کی زحمت کی کہ اِن تمام آمروں سے زیادہ خطرناک تو ہمارے ملک کےلیے آمروں کے وہ حواری ہوئے ہیں جو وقت پڑنے پر اُن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم آمریت کو برا کہتے ہیں لیکن آنہی آمروں کا ساتھ دینے والوں کو دوبارہ سے سینے سے کیسے لگالیتے ہیں؟ نہ صرف اُن کو کاغذ کی پرچی پر اُن کے نام کے سامنے ٹھپے لگاتے ہیں بلکہ ان کے انتخابی نشانوں کے بیجز بھی سینے پر سجاتے ہیں۔ کیا یہ حضرات قصوروار نہیں؟ کیا یہ لوگ سزا کے حقدار نہیں؟ کہاں ہیں پرویز مشرف کو باس ماننے والے شوکت عزیز؟ کہاں ہیں ق لیگ کے وہ سرخیل جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے؟ کہاں ہیں وہ سیاسی گرو جو سمجھتے تھے پرویز مشرف مکمل درست کر رہے ہیں؟ اگر پرویز مشرف غلط ہیں تو یہ لوگ کیسے ٹھیک ہوگئے؟

خدا کرے اس ملک میں جمہوریت جیسی بھی ہو، بس چلتی رہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے اور مستقبل چیخ چیخ کر یہ سچ ثابت کرے گا کہ جب بھی کسی آمر کو، چاہے وہ باوردی ہو یا سول آمریت کا پروردہ، ضرورت پڑی تو یہی حضرات ہمیشہ ''حاضر!'' پکار کر بھاگے چلے آنے کو تیار رہیں گے۔ اور ہاں! یاد رہے کہ آمریت کو ہم نے مخصوص حالات میں مخصوص اداروں سے منسلک کردیا ہے۔ جب کہ حقیقت میں تو سول آمریت بھی اُتنی ہی ملک کےلیے نقصان دہ ہے جتنی باوردی آمریت۔ لیکن ہم سوچنا گوارا نہیں کرتے۔

پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی ہے۔ عدالت جانے، حکومت جانے، اور پرویز مشرف کے وکلا جانیں۔ ہمارا بھلا اس سے کیا لینا دینا؟ لیکن عرض بس اتنی سی ہے کہ جرم کا ساتھ دینے والے افراد بھی کیا سزا میں حصہ دار ہوتے ہیں کہ نہیں؟ کسی بھی موقع پر مجرم کا ساتھ دینے والے اور کبھی اس ساتھ پر شرمندہ نہ ہونے والے کیا کبھی عوام کا غضب بھی دیکھ پائیں گے یا ہمیشہ عوام کو یرغمال بنائے رکھیں گے؟ ویسے ہم اس حوالے سے زیادہ بحث اس لیے بھی نہیں کرتے کہ اکثریت تو آج عوامی عہدے سنبھالے بیٹھی ہے۔ اور بات اگر چل نکلے گی تو پھر موجودہ وفاقی کابینہ تو پھر...

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story