ڈرون حملہ امن عمل پر کیا گیا اب امریکا کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کریں گے چوہدری نثار

امریکا نے حکیم اللہ محسود کو عین اس وقت کیوں مارا جب ہم مذاکراتی عمل کے حتمی مرحلے پر پہنچ گئے تھے، وزیر داخلہ

امریکا نے فرد واحد پر نہیں امن عمل پر ڈرون حملہ کیا، چوہدری نثار۔ فوٹو : اے ایف پی

وفاقی وزیر داخلہ نثار علی خان نے کہا ہے کہ امریکا نے ڈرون حملہ حکیم اللہ محسود پر نہیں امن عمل پر کیا ہے اب ہم امریکا سے تعلقات پر نظر ثانی کریں گے۔

وزارت داخلہ میں اہم اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کی جاب سے انہیں طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، اس سلسلے میں انہوں نے کسی بھی قسم کی بیان بازی سے گریز کیا، اس سلسلے میں ان پر تنقید بھی کی گئی لیکن انہوں نے مذاکرات کے معاملے کو قومی مشن سمجھا ہے کیونکہ طالبان سےمذاکرات کا معاملہ انتہائی حساس ہے ہمیں اے پی سی کے فیصلے کے مطابق معاملات کو آگے بڑھانا تھا ، اس سلسلے میں ہم نے 7ہفتوں تک شبانہ روز محنت کی اور بالاخر 2 رز پہلے ہمارا باضابطہ رابطہ ہوا جس کے تحت آج 3 رکنی وفد پاکستان کی جانب سے طالبان کے پاس جارہا تھااس وفد میں 3 علما تھے جو طالبان کو باضابطہ طور پر امن کا پیغام پہنچانے جارہے تھے۔


وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفاد کو دیکھتے ہوئے ہمیں طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا لیکن وہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ علمائے کرام کے مشکور ہیں جنہوں نے طالبان سے رابطے کے لئے اہم کردار ادا کیا،پاک فوج نے میجر جنرل کی شہادت کے باوجود پاک فوج نے بھی اپنی عام نقل و حرکت بھی ختم کردی، انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے امن عمل کو شدید دھچکا لگا ہے وہ امید کرتے ہیں کہ یہ دھچکا وقتی ہو، افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری جنگ نہیں ہماری جنگ وہ ہے جو ملک کے طول عرض میں جاری ہے۔ وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ڈرون حملہ امن کوششوں پر چھپ کرحملہ ہے، نائن الیون میں کوئی بھی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن ہم 12 سال سے حالت جنگ میں ہیں، وہ امریکا کو نہیں،پاکستانی عوام کو جوابدہ ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی سفیر سے بات چیت کے دوران یہ واضح کردیا تھا کہ حکومت نیک نیتی سے طالبان سے مذاکرات کرنے جارہے ہیں، اگر امریکی حکام نے ایسا کوئی اقدام کیا جس سے مذاکراتی عمل میں رخنہ پڑے تو پاکستانی عوام کے دلوں میں امریکا کی رہی سہی عزت بھی ختم ہوجائے گی، امریکی سفیر نے یقین دہانی کرائی کہ مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملوں سے گریز کیا جائے گا تاہم افغانستان میں امن عمل کو متاثر کرنے والوں کو نشانہ بنایا جائے گا، اس کے علاوہ حکیم اللہ محسود کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے امریکی حکام سے کہا تھا کہ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ قبول نہیں، جس پر امریکی سفیر نے انپہیں ترغیب دی کہ وہ امریکا سے ایک خفیہ ڈیل کرلیں جس کے تحت امریکا امن عمل کی تکمیل تک ڈرون حملے نہیں کرے گا، حکومت نے اس پر بھی واضح موقف اختیار کرتے ہوئے ڈرون حملوں کو کسی بھی صورت جواز فراہم کرنے سے انکار کیا، تمام تر وضاحتوں کے باوجود امریکا نے ڈرون حملہ کیا۔ ایسی صورت میں وہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا حکیم اللہ محسود پر حملہ امریکا کی جانب سے امن مذاکرات کی حمایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن آسان ترین کام ہے کیونکہ لڑنا اور مرنا کسی اور کو ہوتا ہے لیکن فساد سے امن کی راہ نکالناہے، اگر ان کے لوگ مارے گئے تو فوجی آپرہیشن اور ڈرون حملوں میں طالبان کے بھی بے گناہ لوگ مرے ہیں، ان کے بھی بچے، خواتین اور بزرگ بے گناہ تھے، مذاکرات میں حساب کتاب نہیں کیا جاتا، جن ملکوں کے لئے جنگ شروع ہوئی وہاں امن ہے لیکن ہم جب بھی امن کی کوشش کرتے ہیں وہ اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا سوال صرف یہ ہے کہ اگر امریکا کا ٹارگٹ حکیم اللہ محسود تھا تو وہ کئی بار افغانستان گیا ہمیں اس کا پتہ تھا تو انہیں کیوں پتہ نہیں چلا، عین اس وقت اسے مارا گیا جب ہم مذاکراتی عمل کے حتمی مرحلے پر پہنچ گئے تھے۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ڈرون حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے کہا جائے گا کہ امریکا نے ڈرون حملے کے ذریعے امن عمل کو سبوثاژ کرنے کی کوشش کی، پاکستانی سفیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو تما صورت حال سے آگاہ کریں گے اوراس سلسلے میں ان کی حمایت حاصل کی جائے گی، وزیر اعظم سے مشورے کے بعد کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس بلایا جارہا ہے تاکہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور سب سے اہم یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس ڈرون حملے کے بعد اب پاک امریکا تعلقات کا از سر نو جائزہ لیاجائے گا۔
Load Next Story