ملک میں غیر یقینی کی فضاقائم کرنے والے دہشت گرد ہوتے ہیں چیف جسٹس
دہشت گرد تشدد کے ذریعے اپنے نظریات کو لاگو اور ریاستی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں، آصف سعید کھوسہ
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ دہشت گرد تشدد کے ذریعے اپنے نظریات کو لاگو اور ریاستی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں، جب کہ ملک میں غیر یقینی کی فضا قائم کرنے والے بھی دہشت گردی ہوتے ہیں۔
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں ججز سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھاکہ دہشت گردی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، افغان طالبان جب روس کےخلاف لڑرہےتھےتووہ مجاہدین تھے، امریکی قابض افواج کےخلاف جب یہ مجاہدین لڑےتودہشت گرد قرار دیئےگئے، اس تاریخی تناظر سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی آج کا نہیں پرانا مسئلہ ہے، پوری دنیا میں ریسرچ کی جارہی اور پوری دنیا اس کا حل نکالنا چاہتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، دہشتگردی میں سیاسی، نظریاتی اور مذہبی نظریات جیسے 3 پہلو ہیں، سیاسی ومذہبی مقاصد کے لیے دنیا بھر میں تشدد کے طریقے اپنائے جاتے رہے ہیں، نائن الیون کے بعد اسلامک بنیاد پرستوں نے امریکا میں حملہ کیا، سپریم کورٹ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی تعریف سےمتعلق فیصلہ دے چکی ہے، دہشت گرد تشدد کے ذریعے اپنے نظریات کو لاگو اور ریاستی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں، جب کہ ملک میں غیر یقینی کی فضا قائم کرنے والے بھی دہشت گردی ہوتے ہیں، دہشت گردی کی روک تھام کےلیےحکومت کومؤثراقدامات کرنے ہوں گے۔
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ججز، وکلا اورعملے کی تربیت پرتوجہ دے رہے ہیں، وکلا کو مختلف چیزوں پر دسترس ہونی چاہیے، اس لئے اب یہاں ریسرچ سٹڈی پر بھی کام جاری ہے جس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، تحقیقات کے بل بوتے پر قومیں ترقی کرتی ہیں، نئی چیزوں کے مشاہدے سے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں ججز سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھاکہ دہشت گردی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، افغان طالبان جب روس کےخلاف لڑرہےتھےتووہ مجاہدین تھے، امریکی قابض افواج کےخلاف جب یہ مجاہدین لڑےتودہشت گرد قرار دیئےگئے، اس تاریخی تناظر سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی آج کا نہیں پرانا مسئلہ ہے، پوری دنیا میں ریسرچ کی جارہی اور پوری دنیا اس کا حل نکالنا چاہتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، دہشتگردی میں سیاسی، نظریاتی اور مذہبی نظریات جیسے 3 پہلو ہیں، سیاسی ومذہبی مقاصد کے لیے دنیا بھر میں تشدد کے طریقے اپنائے جاتے رہے ہیں، نائن الیون کے بعد اسلامک بنیاد پرستوں نے امریکا میں حملہ کیا، سپریم کورٹ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی تعریف سےمتعلق فیصلہ دے چکی ہے، دہشت گرد تشدد کے ذریعے اپنے نظریات کو لاگو اور ریاستی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں، جب کہ ملک میں غیر یقینی کی فضا قائم کرنے والے بھی دہشت گردی ہوتے ہیں، دہشت گردی کی روک تھام کےلیےحکومت کومؤثراقدامات کرنے ہوں گے۔
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ججز، وکلا اورعملے کی تربیت پرتوجہ دے رہے ہیں، وکلا کو مختلف چیزوں پر دسترس ہونی چاہیے، اس لئے اب یہاں ریسرچ سٹڈی پر بھی کام جاری ہے جس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، تحقیقات کے بل بوتے پر قومیں ترقی کرتی ہیں، نئی چیزوں کے مشاہدے سے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔