حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور مذاکراتی عمل

شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے...

گزشتہ روز شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیارے کے حملے میں حکیم اللہ محسود اپنے بھائی، چچا، محافظ اور ڈرائیور سمیت ہلاک ہوگئے تھے۔ فوٹو : فائل

شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔ وفاقی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو عمل شروع کرنے والی تھی' وہ اپنے آغاز سے پہلے ہی رک گیا ہے۔ اس ڈرون حملے پر حکومت اور ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے امن مذاکرات سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ انھوں نے لندن میں موجود وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو ڈ رون حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے آگاہ کیا۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے امیر منور حسن' قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ' جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان سے بھی رابطہ کر کے ان سے موجودہ صورت حال پر مشاورت کی۔

وفاقی وزیر داخلہ نے ہفتے کے روز بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکیم اللہ محسود کا قتل امن کی کوششوں کا قتل ہے۔ اس سے مذاکرات کو دھچکا لگا ہے۔ انھوں نے امریکی سفیر کی طلبی کی بات بھی کی۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان بھی شدید ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے ڈرون حملے سے ایک روز پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ ہوا تو پھر خیبرپختونخوا سے نیٹو سپلائی بند کر دیں گے۔ خیبر پختونخوا میں برسراقتدار ان کی جماعت کی حکومت اس معاملے پر کیا ایکشن لیتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ بہرحال حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں موت کے بعد وفاقی حکومت دباؤ میں لگتی ہے اور وہ امریکا کے حوالے سے خاصی برہم بھی نظر آتی ہے۔ ملک کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی امریکا کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کر رہی ہیں اور ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ کوئی احتجاجی لائحہ عمل تیار کر کے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

کچھ عرصہ پہلے وفاقی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو فیصلہ کیا تھا' اب جو حالات سامنے آ رہے ہیں اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے اور اس میں داخلی ہی نہیں بیرونی قوتیں بھی موجود ہیں۔ وفاقی حکومت نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو جمع کیا تھا' ان جماعتوں کے قائدین نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی اور حکومت کو مینڈیٹ دیا کہ وہ اس معاملے میں جو کچھ کر سکتی ہے' کرے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کی فوج نے بھی تائید کی تھی۔ اس وقت یوں لگتا تھا کہ معاملات بہت جلد طے پا جائیں گے لیکن پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا' مشکلات آڑے آتی گئیں۔ پشاور میں چرچ میں خودکش حملہ ہوا' پھر پشاور میں ہی دہشت گردی کے مزید واقعات ہوئے۔ سوات میں پاک فوج کے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا گیا۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں نے مذاکرات کے ماحول کو کشیدہ کر دیا۔طالبان نے چرچ حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کیا۔


پشاور میں دہشت گردی کی بعض دیگر وارداتوں کے بارے میں طالبان نے انکار کیا مگر اس کے بعض ذیلی گروپوں نے کئی واقعات کی ذمے داری قبول کر لی۔ اس سے یہ تاثر ابھرا کہ طالبان کے اندر بھی تقسیم موجود ہے اور وہ کسی ایک قائد کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ یوں معاملہ پیچیدہ ہو گیا تاہم وفاقی حکومت مسلسل کہتی رہی کہ طالبان سے مذاکرات ہوں گے۔ تحریک انصاف' جے یو آئی کے تمام دھڑے اور جماعت اسلامی بھی مذاکرات کی بات کرتے رہے۔ پیپلزپارٹی' اے این پی اور ایم کیو ایم نے بھی مذاکرات کی حمایت جاری رکھی۔ ادھر حکومت نے اس پورے عرصے کے دوران طالبان سے مذاکرات کے عمل کو پوشیدہ رکھا۔ اس معاملے میں کوئی باضابطہ مصالحتی یا مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی نہ قوم کے سامنے کوئی ایجنڈا رکھا گیا کہ طالبان یا عسکریت پسندوں سے کن اصولوں کی بنیاد پر مذاکرات ہوں گے۔ جو سرگرمیاں بھی جاری رہیں وہ پس پردہ ہی رہیں یہاں تک کہ طالبان سے مذاکرات کی حامی سمجھی جانے والی جماعتوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ مذاکرات کس سطح پر ہیں۔ یہ درپردہ ہو بھی رہے ہیں یا نہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی اس معاملے پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔ یہی حال طالبان قیادت کا رہا۔

وہ ایک جانب مذاکرات کی پیش کش کو قبول کرنے کا اعلان کرتے رہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے کہ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے اور پاکستان کا نظام کفریہ ہے۔ ایسی صورت حال میں قوم میں ابہام پیدا ہونا لازمی امر تھا کیونکہ انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جو گروہ پاکستان کے آئین کو ہی تسلیم نہیں کرتا اس سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں۔ حکومت بھی صورت حال کو واضح نہیں کر رہی تھی۔ اس صورت حال میں بھانت بھانت کی قیاس آرائیوں اور تجزیوں کی بھرمار ہو گئی۔حکومت' سیاسی قیادت اور طالبان کے مذاکراتی کھیل اور ابہام کی صورت حال میں اگر نقصان میں رہے تو وہ اس ملک کے بے بس اور بے وسیلہ عوام رہے جو خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں مارے جاتے رہے۔ المیہ یہ رہا کہ حکومتی وزراء اور سیاسی و مذہبی قیادت ڈرون حملوں کی مخالفت تو کرتے رہے۔ طالبان سے مذاکرات کی بات بھی کرتے رہے لیکن کسی نے دہشت گردی کی وارداتوں میں مارے جانے والے ہزاروں بے گناہوں کے لواحقین سے تعزیت نہیں کی اور نہ ہی انھیں اپنی بیان بازی کا حصہ بنایا۔ اس المیہ کے باوجود قوم اپنے ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتی رہی کہ شاید وہ ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں مگر اب ایسا لگتا ہے کہ مسائل پہلے سے بھی زیادہ الجھ گئے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کے لب و لہجے سے لگتا ہے کہ امریکا سے ناراضی بڑھ رہی ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ کنفیوژن اور ابہام سے نکلا جائے کہ ایک جانب امریکا جو امداد دے رہا ہے' حکومت اسے قبول کر رہی ہے اور دوسری جانب امریکا کے بارے میں تلخ باتیں کی جا ہی ہیں۔ ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک راہ عمل متعین کرنا ہو گی۔ انھیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ امریکا کے ساتھ چلیں گے یا اس کے مخالف۔ امریکا نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں مار کر دوٹوک پیغام دے دیا ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور ترجیحات سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے گا۔ بقول وفاقی وزیر داخلہ امریکیوں نے کہا تھا کہ حکیم اللہ محسود نظر آیا تو اسے مار دیں گے اور ہم نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا لیکن امریکا نے جو کہا وہ کر دکھایا۔ اب حکومت کی باری ہے کہ وہ جو کہہ رہی ہے' کیا کر کے دکھا پائے گی؟
Load Next Story