سپر نیچرل صلاحیتیں
جب بات فلموں کی ہی چل نکلی ہے تو اک ذرا تذکرہ ہالی ووڈ کی مشہور فلم سیریز ’’ایکس مین‘‘ کا بھی ہوجائے۔
جب بات فلموں کی ہی چل نکلی ہے تو اک ذرا تذکرہ ہالی ووڈ کی مشہور فلم سیریز ''ایکس مین'' کا بھی ہوجائے۔ ایکس مین سیریز کی اب تک چھ فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں جس نے باکس آفس پر 2 بلین ڈالر (دو ارب) سے زیادہ کا بزنس کیا ہے۔ اس فلم کا ساتواں حصہ ''ڈیز آف فیوچر پاسٹ'' 23 مئی 2014 کو ریلیز ہوگا۔ جن لوگوں نے یہ فلم نہیں دیکھی انھیں بتاتے چلیں کہ فلم کی کہانی کچھ سپر نیچرل صلاحیتیں رکھنے والے کرداروں کے گرد گھومتی ہے اور فلم کی یہی خاصیت وجہ تذکرہ ہے کہ اس کالم میں آپ کو مابعد نفسیات اور خارق العادات مظاہر سے متعلق معلومات پیش کی جارہی ہیں۔ ابتدائی چار حصوں کو چھوڑ کر ہم فلم کے پانچویں حصے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ایکس مین فرسٹ کلاس جو سیریز میں پانچویں نمبر پر 2011 میں ریلیز ہوئی دراصل کہانی کا ابتدائی حصہ ہے جس میں چارلس زاویر اور ایرک لہنشر جو بعد ازاں پروفیسر ایکس اور میگنیٹو بنتے ہیں، کے ابتدائی دنوں کی روداد بیان کی گئی ہے۔
ہمارا فوکس بھی چارلس زاویر پر ہے کیونکہ پروفیسر ایکس کہانی کے مطابق قدرتی طور پر ٹیلی پیتھی کی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور خیال خوانی کے ذریعے نہ صرف اپنی بات دور دراز کسی شخص کے دماغ تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ دماغی طور پر اسے کنٹرول کرتے ہوئے اپنے اشارے پر چلنے پر مجبور بھی کرسکتے ہیں۔ ٹیلی پیتھی سے متعلق کالم میں ہم تذکرہ کرچکے ہیں کہ بعض حیوانات اور نباتات قدرتی طور پر اس کے حامل ہوتے ہیں، چونکہ حیوان نطق سے محروم ہوتے ہیں اس لیے قدرت نے انھیں صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنی بات اپنے ہم جنسوں کو خیال خوانی کے ذریعے پہنچا سکیں۔ انسانوں میں بھی قدرتی طور پر یہ صلاحیت موجود ہے لیکن فی زمانہ ٹیلی پیتھی کے ماہر دنیا میں ہمیں منظر عام پر نظر نہیں آتے۔
ہمیں یقین ہے کہ قارئین محی الدین نواب کی مایہ ناز کہانی ''دیوتا'' سے لازمی واقف ہوں گے جسے اردو زبان کی طویل ترین کہانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیوتا کے راوی فرہاد علی تیمور کا سحر آج بھی قارئین کے ذہن پر طاری ہے۔ ماہنامہ سسپنس کے صفحات پر 1975 سے 2010 تک قسط وار شایع ہونے والی دیوتا کو کتابیات پبلی کیشنز، کراچی، نے کتابی صورت میں 53 حصوں میں شایع کیا ہے۔ ماورائی علوم میں دلچسپی رکھنے والے ناظرین ممکن ہی نہیں کہ دیوتا کی سحر انگیزی سے بچ سکیں۔ فرہاد علی تیمور ایک ریاضت کے بعد ٹیلی پیتھی کا علم حاصل کرتے ہیں جب کہ ایکس مین کے چارلس زاویر کو قدرتی طور پر یہ صلاحیت ودیعت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہر انسان میں یہ خارق العادات مظاہر چھپے ہیں لیکن چونکہ ہم اپنے دماغ کا ایک محدود حصہ استعمال کرنے پر قادر ہیں اس لیے ان صلاحیتوں کا ادراک ہر کسی کو نہیں ہوسکتا۔ مخصوص ورزشوں اور مشقوں کے ذریعے ان صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
ایکس مین فرسٹ کلاس کی کہانی میں کچھ ایسے کرداروں کو لیا گیا ہے جو قدرتی طور پر سپر نیچرل صلاحیتوں کے حامل ہیں، چارلس زاویر ٹیلی پیتھی جانتا ہے جب کہ ایرک جو بعد میں میگنیٹو کا منفی کردار ادا کرتا ہے، میٹل کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے پر قادر ہے، جس طرح مقناطیس لوہے کو اپنی جانب کھینچتا ہے ایرک بھی لوہے اور اسٹیل کو اپنے اشارے پر حرکت میں لاسکتا ہے۔ ایک ایسی لڑکی بھی ہے جو اپنی جون تبدیل کرکے کسی کا بھی بھیس اپنا سکتی ہے۔ کہانی کا ولن اور اس کے ساتھی بھی کچھ محیر العقل صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ چارلس زاویر اور ایرک ولن سے لڑنے کے لیے ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو عام لوگوں سے الگ اور کسی نہ کسی سپر نیچرل صلاحیت کے حامل ہوں۔ اس سلسلے میں ایک مشین تیار کی جاتی ہے جس سے منسلک ٹوپی چارلس سر پر پہن کر اپنی ٹیلی پیتھک صلاحیت سے دنیا بھر کے میوٹنٹس سے رابطہ کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں۔ پھر وہی بات کہ ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فلم میں فینٹیسی شامل کرنا کہانی کار کی مجبوری ہوتی ہے لیکن ایک سوال ضرور ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا دنیا میں واقعی سپر نیچرل صلاحیتیں رکھنے والے افراد اس قدر تعداد میں موجود ہیں؟
کہانی کے مختلف کرداروں کی صلاحیتوں پر نظر ڈالیں تو ڈاکٹر جین گرے اپنے دماغ کی قوت سے چیزوں کو حرکت دینے پر قادر ہے ساتھ ہی اس میں بھی ٹیلی پیتھی کی صلاحیت ہے۔ لوگن عرف وولورین جسے لوگ حقیقی ایکس مین سمجھتے ہیں، حیرت انگیز جسمانی صلاحیت رکھتا ہے، اس کا بدن خود اپنا علاج کرسکتا ہے، زخم فوری مندمل ہوجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ بہت بڑی عمر کا ہونے کے باوجود بھی جوان نظر آتا ہے، اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیانی جوڑ سے اضافی ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں جو خنجر کا کام دیتی ہیں بعد ازاں ایک سائنسی تجربے کے ذریعے اس کی ہڈیوں پر میٹل چڑھا دیا جاتا ہے۔ اسٹورم بادلوں کو حرکت دینے اور ان سے بجلی کڑکانے پر قادر ہے۔ کوئی اپنی آنکھوں سے شعاعیں نکال سکتا ہے تو کوئی دیواروں کے پار جاسکتا ہے، کوئی بجلی کی طرح لپک سکتا ہے تو کوئی اندھیرے میں چمک سکتا ہے۔ کوئی آگ پر قادر ہے تو کوئی پانی کو برف بناسکتا ہے۔ کہانی میں ایسے ہی درجنوں کردار ہیں جن کی صلاحیتیں باآسانی ہضم نہیں ہوسکتیں لیکن اسے ہی تو محیر العقل یا خارق العادات کہا جاتا ہے۔
ہمارا سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا دنیا میں ایسے لوگ حقیقت میں موجود ہیں اور کیا انھیں اس طرح آسانی سے ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ فلم میں بھی عام لوگ اس سوال سے پریشان ہیں کہ اگر یہ میوٹنٹس یا سپر نیچرل صلاحیتیں رکھنے والے انسان عام ہوگئے تو یہ دیگر لوگوں کے لیے نہایت خطرناک ہوگا، ان کی پرائیوٹ لائف متاثر ہوگی اور وہ میوٹنٹس کے ہاتھوں یرغمال بن جائیں گے۔ دوسری جانب ان صلاحیتوں کے حامل عام لوگوں سے الگ ہونے کی وجہ سے خود ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ اپنی صلاحیتوں سے چھٹکارا پا کر عام لوگوں کی طرح نظر آنا چاہتے ہیں اور کچھ اسے قدرت کا انعام سمجھ کر اسے بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، منفی ذہن کے میوٹنٹس دنیا پر اپنا قبضہ چاہتے ہیں اور عام انسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل خیر و شر کی اس لڑائی کی مانند ہے جو ازل سے جاری ہے۔ عام انسان ہوں یا میوٹنٹس، جو خیر کے کارندے ہیں وہ ہمیشہ شر کے ہرکاروں سے برسر پیکار رہتے ہیں اور شیطانی چالوں سے بنی نوع انسان کو بچائے رکھنے کی اپنی بساط بھر کوششیں جاری رکھتے ہیں۔ تاریخ کے ورق پلٹیں تو ایسے خارق العادات لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جیسے ایک عورت جو اپنے ہاتھ کے اشاروں سے چھری کانٹوں کو حرکت دے سکتی تھی، ایک شخص جو ہوا میں معلق ہونے کا مظاہرہ کرچکا ہے اور خیال خوانی کے ذریعے بات کرنے والے وغیرہ وغیرہ... کتابوں میں پڑھے گئے یہ تذکرے افسانہ بھی ہوسکتے ہیں لیکن بہرحال یہ محیر العقل علوم اور سپر نیچرل صلاحیتیں ایک حقیقت ہیں، جس سے انکار ممکن نہیں۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)
ہمارا فوکس بھی چارلس زاویر پر ہے کیونکہ پروفیسر ایکس کہانی کے مطابق قدرتی طور پر ٹیلی پیتھی کی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور خیال خوانی کے ذریعے نہ صرف اپنی بات دور دراز کسی شخص کے دماغ تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ دماغی طور پر اسے کنٹرول کرتے ہوئے اپنے اشارے پر چلنے پر مجبور بھی کرسکتے ہیں۔ ٹیلی پیتھی سے متعلق کالم میں ہم تذکرہ کرچکے ہیں کہ بعض حیوانات اور نباتات قدرتی طور پر اس کے حامل ہوتے ہیں، چونکہ حیوان نطق سے محروم ہوتے ہیں اس لیے قدرت نے انھیں صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنی بات اپنے ہم جنسوں کو خیال خوانی کے ذریعے پہنچا سکیں۔ انسانوں میں بھی قدرتی طور پر یہ صلاحیت موجود ہے لیکن فی زمانہ ٹیلی پیتھی کے ماہر دنیا میں ہمیں منظر عام پر نظر نہیں آتے۔
ہمیں یقین ہے کہ قارئین محی الدین نواب کی مایہ ناز کہانی ''دیوتا'' سے لازمی واقف ہوں گے جسے اردو زبان کی طویل ترین کہانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیوتا کے راوی فرہاد علی تیمور کا سحر آج بھی قارئین کے ذہن پر طاری ہے۔ ماہنامہ سسپنس کے صفحات پر 1975 سے 2010 تک قسط وار شایع ہونے والی دیوتا کو کتابیات پبلی کیشنز، کراچی، نے کتابی صورت میں 53 حصوں میں شایع کیا ہے۔ ماورائی علوم میں دلچسپی رکھنے والے ناظرین ممکن ہی نہیں کہ دیوتا کی سحر انگیزی سے بچ سکیں۔ فرہاد علی تیمور ایک ریاضت کے بعد ٹیلی پیتھی کا علم حاصل کرتے ہیں جب کہ ایکس مین کے چارلس زاویر کو قدرتی طور پر یہ صلاحیت ودیعت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہر انسان میں یہ خارق العادات مظاہر چھپے ہیں لیکن چونکہ ہم اپنے دماغ کا ایک محدود حصہ استعمال کرنے پر قادر ہیں اس لیے ان صلاحیتوں کا ادراک ہر کسی کو نہیں ہوسکتا۔ مخصوص ورزشوں اور مشقوں کے ذریعے ان صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
ایکس مین فرسٹ کلاس کی کہانی میں کچھ ایسے کرداروں کو لیا گیا ہے جو قدرتی طور پر سپر نیچرل صلاحیتوں کے حامل ہیں، چارلس زاویر ٹیلی پیتھی جانتا ہے جب کہ ایرک جو بعد میں میگنیٹو کا منفی کردار ادا کرتا ہے، میٹل کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے پر قادر ہے، جس طرح مقناطیس لوہے کو اپنی جانب کھینچتا ہے ایرک بھی لوہے اور اسٹیل کو اپنے اشارے پر حرکت میں لاسکتا ہے۔ ایک ایسی لڑکی بھی ہے جو اپنی جون تبدیل کرکے کسی کا بھی بھیس اپنا سکتی ہے۔ کہانی کا ولن اور اس کے ساتھی بھی کچھ محیر العقل صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ چارلس زاویر اور ایرک ولن سے لڑنے کے لیے ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو عام لوگوں سے الگ اور کسی نہ کسی سپر نیچرل صلاحیت کے حامل ہوں۔ اس سلسلے میں ایک مشین تیار کی جاتی ہے جس سے منسلک ٹوپی چارلس سر پر پہن کر اپنی ٹیلی پیتھک صلاحیت سے دنیا بھر کے میوٹنٹس سے رابطہ کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں۔ پھر وہی بات کہ ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فلم میں فینٹیسی شامل کرنا کہانی کار کی مجبوری ہوتی ہے لیکن ایک سوال ضرور ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا دنیا میں واقعی سپر نیچرل صلاحیتیں رکھنے والے افراد اس قدر تعداد میں موجود ہیں؟
کہانی کے مختلف کرداروں کی صلاحیتوں پر نظر ڈالیں تو ڈاکٹر جین گرے اپنے دماغ کی قوت سے چیزوں کو حرکت دینے پر قادر ہے ساتھ ہی اس میں بھی ٹیلی پیتھی کی صلاحیت ہے۔ لوگن عرف وولورین جسے لوگ حقیقی ایکس مین سمجھتے ہیں، حیرت انگیز جسمانی صلاحیت رکھتا ہے، اس کا بدن خود اپنا علاج کرسکتا ہے، زخم فوری مندمل ہوجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ بہت بڑی عمر کا ہونے کے باوجود بھی جوان نظر آتا ہے، اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیانی جوڑ سے اضافی ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں جو خنجر کا کام دیتی ہیں بعد ازاں ایک سائنسی تجربے کے ذریعے اس کی ہڈیوں پر میٹل چڑھا دیا جاتا ہے۔ اسٹورم بادلوں کو حرکت دینے اور ان سے بجلی کڑکانے پر قادر ہے۔ کوئی اپنی آنکھوں سے شعاعیں نکال سکتا ہے تو کوئی دیواروں کے پار جاسکتا ہے، کوئی بجلی کی طرح لپک سکتا ہے تو کوئی اندھیرے میں چمک سکتا ہے۔ کوئی آگ پر قادر ہے تو کوئی پانی کو برف بناسکتا ہے۔ کہانی میں ایسے ہی درجنوں کردار ہیں جن کی صلاحیتیں باآسانی ہضم نہیں ہوسکتیں لیکن اسے ہی تو محیر العقل یا خارق العادات کہا جاتا ہے۔
ہمارا سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا دنیا میں ایسے لوگ حقیقت میں موجود ہیں اور کیا انھیں اس طرح آسانی سے ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ فلم میں بھی عام لوگ اس سوال سے پریشان ہیں کہ اگر یہ میوٹنٹس یا سپر نیچرل صلاحیتیں رکھنے والے انسان عام ہوگئے تو یہ دیگر لوگوں کے لیے نہایت خطرناک ہوگا، ان کی پرائیوٹ لائف متاثر ہوگی اور وہ میوٹنٹس کے ہاتھوں یرغمال بن جائیں گے۔ دوسری جانب ان صلاحیتوں کے حامل عام لوگوں سے الگ ہونے کی وجہ سے خود ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ اپنی صلاحیتوں سے چھٹکارا پا کر عام لوگوں کی طرح نظر آنا چاہتے ہیں اور کچھ اسے قدرت کا انعام سمجھ کر اسے بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، منفی ذہن کے میوٹنٹس دنیا پر اپنا قبضہ چاہتے ہیں اور عام انسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل خیر و شر کی اس لڑائی کی مانند ہے جو ازل سے جاری ہے۔ عام انسان ہوں یا میوٹنٹس، جو خیر کے کارندے ہیں وہ ہمیشہ شر کے ہرکاروں سے برسر پیکار رہتے ہیں اور شیطانی چالوں سے بنی نوع انسان کو بچائے رکھنے کی اپنی بساط بھر کوششیں جاری رکھتے ہیں۔ تاریخ کے ورق پلٹیں تو ایسے خارق العادات لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جیسے ایک عورت جو اپنے ہاتھ کے اشاروں سے چھری کانٹوں کو حرکت دے سکتی تھی، ایک شخص جو ہوا میں معلق ہونے کا مظاہرہ کرچکا ہے اور خیال خوانی کے ذریعے بات کرنے والے وغیرہ وغیرہ... کتابوں میں پڑھے گئے یہ تذکرے افسانہ بھی ہوسکتے ہیں لیکن بہرحال یہ محیر العقل علوم اور سپر نیچرل صلاحیتیں ایک حقیقت ہیں، جس سے انکار ممکن نہیں۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)