اور بھی پیشے ہیں زمانے میں ڈاکٹری کے سوا
زمانہ بہت تیزی سے بدل گیا۔ ایک وقت تھا جب بازار سے ایک واٹر گیم کھیلنے کو ملا کرتی تھی۔ اس گیم میں مختلف ...
www.facebook.com/draffanqaiser
زمانہ بہت تیزی سے بدل گیا۔ ایک وقت تھا جب بازار سے ایک واٹر گیم کھیلنے کو ملا کرتی تھی۔ اس گیم میں مختلف رنگوں کے گول گول رِنگ ہوا کرتے تھے، جنھیں بٹن دبا کر پلاسٹک کی بنی دو کیلوں میں ڈالنا ہوتا تھا۔ آپ بٹن دباتے جاتے اور پانی کے بہائو سے وہ رِنگ ان کیلوں میں ڈالتے اور نکالتے جاتے تھے۔ پھر بیٹری سیل سے چلنے والی گیمز آ گئیں۔ ان گیمز میں ایک چھوٹی اسکرین ہوتی تھی جس پر مختلف ڈبوں سے آپ گاڑیوں کی ریس اور مختلف اشکال سے گیمز کھیل سکتے تھے۔ اس وقت پاکستانی ماں باپ کی ایک ہی خواہش ہوتی کہ ان کا بچہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے۔ موبائیل فون ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد ہماری قوم میں موبائیل فونز کا اس قدر جنون بڑھا کہ چین سمیت ہر قسم کے موبائیل فونز کی عالمی منڈی پاکستان بن گیا۔ جدید ترین دور میں جدید ترین موبائیل گیمز بھی متعارف ہو گئیں۔ اب جدید اینڈ رائڈ تھری ڈی ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان ہی ہاتھوں نے کبھی رنگ والی واٹر گیم بھی کھیلی تھی۔ سب جدید ہو گیا اور پاکستانی ماں باپ کی خواہش بھی بدل گئی کہ ان کا بچہ بڑا ہوکر ڈاکٹر بنے یا کم از کم ڈاکٹر بہو گھر لے کر آئے۔ اسی خواہش نے اب قومی جنون کا روپ دھار لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جلد ہی پاکستان میں مریض کم اور ڈاکٹر زیادہ نظر آئیں گے۔
اگر آپ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں تو آپکو میٹرک کے 1050، ایف ایس سی (پری میڈیکل) کے1100 اور انٹری ٹیسٹ کے 1100 نمبروں میں سے اپنی ہمت، برداشت اور قوت سے کہیں زیادہ نمبر حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ پھر آپ کے حاصل کردہ نمبروں میں سے 10 فیصد میٹرک، 40 فیصد ایف ایس سی اور 50 فیصد انٹری ٹیسٹ کے نمبروں کا ایک مربع نکال کر بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کسی سرکاری میڈیکل کالج میں داخلے کے اہل ہیں یاں نہیں۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے۔ انٹری ٹیسٹ چند گھنٹے کا امتحان پوری عمر کی محنت، خوابوں کا جنازہ کیسے نکالتا ہے اور اس سے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرانے والی اکیڈمیاں کس طرح ایک مافیے کی شکل اختیار کر چکی ہیں، اس پر قارئین کو پھر تفصیل سے آگاہ کروں گا۔ ابھی کہانی آگے کی یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں انٹری ٹیسٹ دینے والوں میں سے بہت ہی قلیل تعداد سرکاری میڈیکل کالجز میں چلی جاتی ہے۔ یہی تعداد آج کل آپ کو پولیس سے ڈنڈے کھاتی سڑکوں پر ینگ ڈاکٹرز کے روپ میں اکثر دیکھنے کو بھی ملتی ہے۔
جو بچ جاتے ہیں ان میں سے اکثریت یاں تو اپنے خواب کچل کر فارمیسی، بی بی اے جیسی فیلڈز کا انتخاب کر لیتی ہے یا پھر دوبارہ انٹری ٹیسٹ مافیے کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ مگر ان میں سے جیب میں چند روپے رکھنے والے یا تو پرائیوٹ میڈیکل کالجز کا رخ کرتے ہیں یا پھر چین، روس کی راہ لیتے ہیں۔ پرائیوٹ میڈیکل کالجز میں اکثر کا میرٹ پیسہ ہے۔ پنجاب میں کئی پرائیوٹ میڈیکل کالجز ڈونیشن کی مد میں لاکھوں روپے لے کر ان بچوں کو بھی ایڈمیشن دے دیتے ہیں جن کے ایف ایس سی میں 600 نمبر بھی بمشکل پورے ہوتے ہیں اور ایسے بچے ماں باپ کے لاکھوں ضایع کروا کر فیل ہو ہو کر EXPEL ہی ہو جاتے ہیں۔ لاہور اس وقت پاکستان میں پرائیوٹ میڈیکل کالجز کی سب سے بڑی منڈی ہے جہاں 2 درجن سے زائد پرائیوٹ میڈیکل کالجز جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ تمام پرائیوٹ میڈیکل کالجز نہیں مگر چند ضرور ایسے ہیں کہ جہاں میڈیکل تعلیم کا معیار سوالیہ نشان ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک پرائیوٹ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر بننے کا کم سے کم خرچہ 50 لاکھ اور بی ڈی ایس ڈاکٹر کا کم سے کم خرچہ 35 لاکھ ہے؟ چین اور روس گو کہ خرچہ قدرے کم ہوتا ہے مگر جب آپ کی اولاد ڈاکٹر بن کر لوٹتی ہے تو وہ صرف اخلاقیات سے عاری Made in China ڈاکٹر ہی ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔
یہ CRAZE، یہ پاگل پن کیوں؟ آخر ایسا کیا ہے اس شعبے میں؟ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کبھی بھوکا نہیں مرتا۔ بالکل صحیح کہا جاتا ہے جب وہ میڈیکل کی مشکل ترین تعلیم کے بعد 25-26 سال کی عمر میں اپنے آپکو خالی ہاتھ دیکھتا ہے تو سڑکوں کا رخ کرتا ہے اور پولیس کے ڈنڈے کھا کھا کر مرتا ہے۔ سفید اوورآل، لفظ ڈاکٹر صاحب، پیسہ اور سفید لباس میں پری نما اسٹاف نرسز شائد باہر سے دیکھنے والوں کے لیے اس شعبے میں گلیمر ضرور پیدا کر دیتے ہیں مگر سچ پوچھیں تو ڈاکٹری اب ایک بھیانک خواب بنتی جا رہی ہے۔ اگر آپ نوجوان ڈاکٹر ہیں تو آپ کے پاس دو آپشنز موجود ہیں یا تو آپ بھوکے مریں یا پھر خوب محنت کر کے پیسہ کمانے والی ایک ایسی مشین بن جائیں کہ جو اس وقت عروج پر کام کرنا شروع کرتی ہے جب اس کے اپنے 50 فیصد پرزے خراب ہو چکے ہوتے ہیں۔ آپ کماتے رہیں، اگر کمانا چھوڑیں گے تو مریض بھاگ جائیں گے اور آپ پھر فاقوں مریں گے۔
کماتے رہیں اور پھر پریکٹس چیمبر میں ہی دوسرے جہاں کوچ کر جائیں اور سارا پیسہ اولاد کی عیاشی کے لیے چھوڑ جائیں۔ اس پیشے سے جڑا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے کے جنون نے اچھی بہو کا میعار بھی یہ رکھ دیا ہے کہ وہ ایک خوبصورت ڈاکٹر ہو اور گھر بیٹھ کر کالے دھوئیں میں بیٹے کے لیے گول گول روٹیاں پکائے۔ افسوس ناک حد تک سرکاری اور پرائیوٹ میڈیکل کالجز سے بڑی تعداد میں لیڈی ڈاکٹرز بننے والی اکثر خواتین آج گھروں میں روٹیاں ہی پکا رہی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اس شعبے میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد ہونے کہ باوجود ہمیں اس شعبے سے جڑے بڑے ناموں میں خواتین کا نام آٹے میں نمک کے برابر ملتا ہے؟ حد تو یہ ہے کہ گائینی جو بالخصوص خواتین کا شعبہ ہے پاکستان بھر میں اس فیلڈ میں بھی تقریبا تمام بڑے نام مرد ڈاکٹرز کے ہی ہیں۔
قارئین آپ یقینا سوچ رہیں ہوں گے کہ میں خود بھی تو ڈاکٹر ہوں۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ جس طرح بکرے کو قربانی کے وقت جب کان سے پکڑ کر قربان گاہ لے جایا جا رہا ہوتا ہے اور اس بیچارے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ قربان ہونے جا رہا ہے، ایسا ہی کچھ سانحہ میرے ساتھ بھی گزرا۔ خیر خدا کو کچھ اور بھی منظور تھا آئیلٹس میں تھوڑا نام بن گیا اور یوں میڈیا میں مجھے اس شعبے کی فرسٹریشن کے گرداب سے کچھ وقت باہر گزارنے کا موقع مل گیا۔ یہ سچ ہے کہ اگر مجھے ایاز خان صاحب اور لطیف چوہدری صاحب جیسی پرخلوص اور شفیق ہستیوں کا سہارا نہ ملتا تو میں کب کا میڈیکل کے شعبے سے اکتا جاتا۔ اب محنت تو کرنی ہے اور مشین تو مجھے بھی بننا ہی پڑے گا، مگر میں پھر بھی تمام قارئین سے یہی درخواست کروں گا کہ اپنی اولاد کو اندھے کوئیں میں مت دھکیلیں۔ واٹر گیم سے انڈرائیڈ کی جدید تھری ڈی گیمز کی طرح، زمانے نے بھی خوب ترقی کر لی ہے، بس ہمیں اب اپنی معاشرتی سوچ کو تھری ڈی جدت دینے کی ضرورت ہے اور اپنی نسلوں کو خود یہ باور کروانا ہے کہ اور بھی پیشے ہیں زمانے میں، ڈاکٹری کے سوا۔