کراچی میں بجلی کا بحران چند حقائق

کے ای ایس سی ملک میں پاور سیکٹر میں پہلی ڈسٹری بیوشن کمپنی ہے جو پرائیوٹائز کی گئی جو اپنے قیام سے...


Latif Mughal November 02, 2013

NEW DEHLI: کے ای ایس سی ملک میں پاور سیکٹر میں پہلی ڈسٹری بیوشن کمپنی ہے جو پرائیوٹائز کی گئی جو اپنے قیام سے کراچی شہر سمیت 6000 کلو میٹر ایریا میں بجلی فراہم کر رہی ہے۔ 1994-95ء تک یہ ایک منافع بخش ادارہ رہا ہے۔ اس کا منافع 18کروڑ روپے تھا کمپنی شیئر ہولڈرز کو منافع اور ملازمین کو بونس بھی دیتی رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 2005ء میں اسے پرائیویٹائز کر دیا۔ دبئی کی کمپنی کنوز الوطن نے کامیاب بولی کے باوجود کے ای ایس سی لینے سے انکار کر دیا اور زر ضمانت ضبط کروا لیا جو 10 کروڑ روپے تھا۔ اب دوبارہ بڈنگ ہونا چاہیے تھی لیکن نہیں کی گئی۔ وزیر نجکاری حفیظ شیخ یہ اعلان کر چکے تھے کہ اگر کے ای ایس سی کو ایک ڈالر میں بھی بیچنا پڑا تو بیچ دیں گے۔ دوسرے نمبر پر آنے والی کمپنی حسن ایسوسی ایٹس سے بات چیت شروع کی گئی اور ایک نیا کنسورشیم ترتیب دیا گیا۔ اور اونے پونے داموں 15 ارب 86 کروڑ میں کمپنی کنسورشیم کو فروخت کر دی گئی۔

اس کنسورشیم میں پہلی کمپنی کے ای ایس پاور لمیٹڈ تھی جو کہ دنیا کے بدنام زمانہ جزیرے CAYMON ISLAND میں رجسٹرڈ تھی یہ جزیرہ منی لانڈرنگ اور جوئے کے حوالے سے مشہور ہے کے ای ایس پاور لمیٹڈ کو 73 شیئرز میں سے 71.5 شیئرز فروخت کر دیے گئے جس کے ساتھ کراچی کی دو چھوٹی کمپنیاں یعنی حسن ایسوسی ایٹس اور پریمئیر مرکنٹائل تھی جن کو نہ تو پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی ان کی ساکھ بہتر تھی۔ جس معاہدے کے تحت کے ای ایس سی کو بیچا گیا اس معاہدے میں اس طرح کی سرمایہ کاری کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔ اس وقت کے ای ایس سی کے اثاثہ جات کی مالیت 300 ارب سے زیادہ کی تھی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ ایک ایسے گروپ کو کے ای ایس سی جیسے اہم قومی اور حساس ادارے کا انتظام دے دیا گیا جو غیر قانونی تھا۔ دوسرا صرف 15 ارب 86 کروڑ میں کے ای ایس سی دے دی گئی اس کے ساتھ کے ای ایس سی کی امپروومنٹ کے لیے FIP پلان کے تحت حکومت نے 14.5 ارب روپے کے ای ایس سی کو دیے تھے جو ادارے کے اکاؤنٹ میں موجود تھے۔

اور 25 ارب روپے کے واجبات کنزیومر پر تھے۔ یعنی کے ای ایس سی تقریباً 16 ارب روپے میں فروخت کی گئی اور تقریباً 43 ارب روپے کے ای ایس سی کو دیے گئے جب کہ نجکاری سے اب تک 200 ارب روپے مزید سبسڈی کی شکل میں کے ای ایس سی کو دیے جا چکے ہیں۔ کے ای ایس سی کی نجکاری کے وقت نجکاری کرنے کی جو وجوہات بتائی گئی تھیں اور جو وعدے کیے گئے تھے پورے نہیں ہوئے۔ حکومتی دعویٰ کے مطابق (1) نہ ہی سبسڈی ختم کی گئی (2) نہ ہی انویسٹمنٹ کی گئی (3) نہ ہی جنریشن بڑھائی گئی معاہدے میں یہ شامل تھا کہ ایک ہزار میگاواٹ جنریشن بڑھائی جائے گی ۔ اس کے برعکس سبسڈی کی رقم بڑھا دی گئی۔ جنریشن کم کر دی گئی۔ کے ای ایس سی کے پیداواری یونٹ بند کر دیے گئے۔ ادارے کی پیداواری صلاحیت M.W. 1941 تھی جو جان بوجھ کر کم کر دی گئی۔ مقصد صرف فرنس آئل کی بچت کرکے پیسہ کمانا تھا۔ 2008سے تاحال صورت حال یہ ہے کہ KESC کے پاور پلانٹ سے صرف M.W. 400 to 600 بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ M.W. 750 واپڈا سے لی جاتی ہے باقی 400 سے 500 M.W. IPPS سے لے کر کام چلایا جا رہا ہے۔ اور باقی 10-12 گھنٹے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ پنجاب میں لوڈشیڈنگ کی ذمے دار بھی کے ای ایس سی کے مالکان اور ابراج کمپنی ہے کیونکہ کے ای ایس سی واپڈا سے 750 MWبجلی لے رہی ہے اور اپنے پاور پلانٹ بند کیے ہوئے ہیں اگر یہ اپنے پاور پلانٹ پوری صلاحیت کے مطابق چلائیں اور واپڈا سے لینے والی بجلی نہ لیں تو پنجاب میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہوسکتا ہے۔

لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کراچی جو ملک کا صنعتی حب ہے۔ ملک کی بیشتر صنعتیں یہاں واقع ہیں۔ کراچی کی آبادی 2 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ کراچی میں بجلی کی جتنی کھپت ہے اس سے زیادہ پیداواری صلاحیت موجود ہونے کے باوجود 12-12 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرکے کراچی کو مفلوج بنادیا گیا ہے۔نیپرا کے مطابق کراچی میں لوڈشیڈنگ غیر قانونی ہے کیونکہ کے ای ایس سی کے پاس کراچی میں بجلی کی ڈیمانڈ سے زیادہ پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ یہاں کی صنعتیں بند ہو گئی ہیں۔ خاص کر (Small Scale انڈسٹری) کاروباری و تجارتی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے7-8 لاکھ لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان ایمپلائمنٹ کے شعبہ کا ہوا ہے۔ ملکی ایکسپورٹ کم ہوگئی ہے۔ وقت پر آرڈر پورے نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی منڈیوں پر انڈیا، بنگلہ دیش اور ملائیشیا وغیرہ نے قبضہ کر لیا ہے۔ جہاں پاکستانی مال کی کھپت تھی۔ کراچی سے انڈسٹری منتقل بھی ہوئی ہے اس سے پاکستان کو ہر سال تقریباً 2 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ اسی طرح سالانہ تقریباً 1 ارب ڈالر کے جنریٹر امپورٹ ہو رہے ہیں۔ اب تک 6 ارب ڈالر کے جنریٹر امپورٹ ہو چکے ہیں۔

اسی طرح تقریباً 1000ملین ڈالر کا آئل بل میں اضافہ ہوا ہے۔ ملکی زرمبادلہ کا نقصان ہے ، جگہ جگہ جنریٹر چلنے سے دھواں اور شور بھی ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ماحولیات کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں اسی طرح ملکی اکنامی کو تقریباً 20 ارب ڈالر کا نقصان ادارہ کی نجکاری کی وجہ سے ہوچکا ہے۔ اورسالانہ GDP کا نقصان 2 فیصد ہے۔ کے ای ایس سی کے مالک ابراج کمپنی نے اپنی طرف سے انویسٹمنٹ نہیں کی بلکہ کے ای ایس سی کی قیمتی زمین جن میں بن قاسم پاور پلانٹ اور متعدد گرڈ اسٹیشن شامل ہیں ملکی اور غیر ملکی بینکوں/مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھوا کر 100 ارب سے زیادہ کا قرضہ لے چکی ہے۔ اس کے علاوہ واپڈا، PSO، SSGC، کینوپ ، IPPSاور دیگر اداروں کے 100ارب سے زیادہ قرضے واجب الادہ ہیں جو نہیں دیے جا رہے۔ اس طرح کے ای ایس سی کو 200 ارب سے زیادہ کا مقرض بنا دیا گیا ہے۔

کراچی کے صنعت کاروں اور کاروباری لوگوں کا 2000 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ صارفین کو کروڑوں یونٹ زیادہ کا بل بھیجا جاتا ہے ۔ ایوریج بلنگ کی جاتی ہے اور ناجائز بل صارفین کو بھرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔کنزیومر کو کوئی پروٹیکشن حاصل نہیں ہے۔ جب کے ای ایس سی کی نجکاری کی جا رہی تھی تو یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ نیپرا نے کے ای ایس سی کا ٹیرف 7سال کے لیے فکس کر دیا ہے اور 7سالوں تک ٹیرف میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس 8سالوں میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ نج کاری کے وقت مزدوروں سے تحریری وعدہ کیا گیا تھا کہ 10 فیصد شیئر مزدوروں کو دیے جائیں گے لیکن 8 سال گزر جانے کے باوجود نہیں دیے گئے۔ کے ای ایس سی جب نج کاری کی نذر کی جا رہی تھی تو ملازمین سے یہ تحریری وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ مستقل ملازمین کو نوکریوں سے نہیں نکالا جائے گا۔لیکن جبری برطرفیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی شہر کے بیشتر علاقوں میں کئی کئی روز سے بجلی کی بندش اور طویل دورانیے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف ہر گلی کوچے اور ہر سڑک پر احتجاج اور مظاہرے بھی ہو رہے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں