ایک کمانڈو کی طرح حالات کا مقابلہ کیجئے

کہا جارہا ہے کہ پرویز مشرف کے معاملے میں قانون کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، فیصلہ عجلت میں سنایا گیا


December 20, 2019
یہ اضطراب کا نہیں، مکے لہرا کر پھانسی کا پھندا چومنے کا وقت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور: ہم کسی چیز میں خود کفیل ہوں یا نہ ہوں، ایک چیز ہمارے پاس ہے جس میں ہم خودکفیل بھی ہیں، زرخیز بھی ہیں۔ ہمارے پاس اچھی بری خبروں کی بہتات ہے۔ ہمارے پاس تجزیہ کاروں، ڈاکٹروں، دانشوروں کا اسٹاک وافر مقدار میں موجود ہے۔ ہم چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دیتے ہیں۔ ہم بیٹھے بٹھائے کینسر کے مریض کا علاج کردیتے ہیں۔ بڑے سے بڑے کیس کا فیصلہ منٹوں میں سنا دیتے ہیں۔ کسی کو غدار، ملک دشمن قرار دینا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ہم بروقت فوجی، پولیس والے، طبیب، صحافی سبھی ہوتے ہیں۔ سنجیدہ نہیں ہوتے تو اپنے کام سے نہیں ہوتے۔ کرنا نہیں آتا تو وہ اپنا کام ہوتا ہے۔ دوسروں کی پتلون میں ٹانگ گھسانے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ اب ایک ایسی خبر آئی ہے جس سے اضطراب بھی محسوس کررہے ہیں، درد بھی اٹھ رہا ہے اور سازش کی بو بھی آرہی ہے۔ اس خبر کو دبانے کےلیے مکے بھی دکھانے پڑ رہے ہیں، دھمکیاں اور دھونس بھی دکھانی پڑرہی ہے۔

بھائی کی شادی سے فارغ ہوکر پانچ دن بعد دفتر پہنچا تو ایک ایسی خبر کا سامنا کرنا پڑا جس کا ''درد'' آج بھی محسوس کررہا ہوں۔ یہ درد میرے لیے لادوا ہوتا جارہا ہے۔ میری اضطرابی کیفیت خوف میں بدلتی جارہی ہے۔ بہت کوشش کی مگر اضطراب کم ہی نہیں ہورہا۔ یہ خبر سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت کی تھی۔ مجھ سمیت ہر پاکستانی کےلیے یہ غیر متوقع اور چونکا دینے والی خبر تھی۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کو سزا ہوئی ہے وہ بھی سزائے موت۔ ایک ایسے کمانڈو کو سزائے موت جو تین جنگیں لڑنے اور چالیس سال تک اپنے وطن کی خدمت کا دعویٰ کرتا ہے۔ جو کہتا ہے کہ میں نے کارگل وار میں بھارتی سرزمین پر کھڑے ہوکر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔

مجھے اپنے سابق صدر سے پوری ہمدردی ہے۔ میں اپنے وطن کی فوج کو دنیا کی بہترین فوج سمجھتا ہوں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ میرے وطن کا ہر سپاہی محب وطن، ملک کےلیے جان نچھاور کرنے والا ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے وطن کےلیے جان ہتھیلی پر رکھنے والے کبھی غدارنہیں ہوسکتے۔ فوج کے بغیر ملک ٹوٹ جاتے ہیں، سرحدیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں۔ مجھے فوجی سرحدوں پر اور بیرکوں میں بہت اچھے لگتے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پرویز مشرف نے پاکستان کے دفاع کےلیے جنگیں لڑی ہیں۔ لیکن جو ان پر الزام ہے کیا اس میں کوئی حقیقت نہیں؟ انہیں سزا کس الزام میں ملی اور کیا یہ الزام غلط ہے؟ کیا تین نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے آئین معطل نہیں کیا تھا؟ یہ وہ آئین ہے جس سے وفاداری کا حلف پرویز مشرف نے اٹھایا تھا۔ کیا پرویز مشرف نے اس آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار نہیں دیا جس کی بنیاد پر پورا ملک کھڑا ہے، جس آئین کی بنیاد میں قرآن کا نظریہ، سنت رسولؐ شامل ہے۔

اس آئین کی دفعہ چھ کہتی ہے ''کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا کسی اور غیرآئینی طریقے سے آئین منسوخ کرے یا اسے معطل کرے یا اسے منسوخ کرنے کی سازش کرے تو سنگین غداری کا مجرم ہوگا''۔ 17 دسمبر 2019 سے پہلے صرف سیاستدانوں، صحافیوں، شاعروں اور ادیبوں کو غدار کہا جاتا تھا۔ اب ایک سابق آرمی چیف کو غدار قرار دیا گیا ہے تو اتنا اضطراب کیوں ہے؟ اتنی بے چینی کیوں ہے؟ ہم بھی آپ کی حب الوطنی پر شک نہیں کرتے، آپ بھی تھوڑا سا ہماری محبت پر یقین کرلیں۔

کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کے معاملے میں قانون کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ فیصلہ عجلت میں سنایا گیا۔ جو مقدمہ 6 سال سے زائد عرصہ تک چلتا رہا ہو۔ جس کی 125 سے زائد سماعتیں ہوچکی ہوں۔ جس ملزم کے وکیلوں، ملزم کو بار بار صفائی کا موقع دیا گیا ہو، وہ فیصلہ عجلت میں کیسے ہوسکتا ہے؟ ان فیصلوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا کسی کو علم بھی نہیں ہوتا تھا اور ملزموں کو پھانسی گھاٹ پر اتار دیا جاتا رہا؟

جان کی امان پاؤں تو یہ اضطراب، یہ درد ہم نے بھی محسوس کیا، بلکہ اس سے کم نہیں تو زیادہ محسوس کیا ہوگا؟ جب 12 اکتوبر 1999 کی رات اسلام آباد کی سڑکوں پر ٹینک دوڑے۔ پی ٹی وی، پارلیمنٹ کی دیواریں پھلانگیں گئیں، تو ہم سو نہیں سکے۔ جب کارگل کے برفیلے محاذ پر ہتھیار پھینکنے کی خبر ملی تو ہم بھی روئے تھے۔ جب ایک کال پر میرا ملک مقتل گاہ بنا، جب میرے ہمسائے میں اپنوں کے ڈیزی کٹر بموں سے سینے چھلنی ہوئے تو ہم بھی تڑپے تھے۔ جب پاکستان کے ہوائی اڈوں سے امریکی جہاز اڑتے تھے ہم بھی گڑگڑاہٹ سے کانپتے تھے۔ گوانتاناموبے کی جیل میں جب بھی عافیہ روتی ہے تو پورا پاکستان بھی روتا ہے۔ سانحہ 12 مئی، سانحہ لال مسجد، سانحہ باجوڑ، اکبر بگٹی کے قتل کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ زخم بہت ہیں، سزا کم ہے۔ انصاف تو پاکستان کے ساتھ نہیں ہوا، جس کو برباد کیا گیا۔ انصاف تو عوام کے ساتھ نہیں ہوا جس کو غیروں کی لگائی گئی آگ میں ستر ہزار سے زائد سپوت جھونکنے پڑے۔

وقت بدل گیا ہے۔ یہ اضطراب کا نہیں، مکے لہرا کر پھانسی کا پھندا چومنے کا وقت ہے۔ ہمت کیجئے اور سب سویلینز کو مات دے دیجئے۔ اس فاطمہ جناح کو ہرا دیجئے جسے غدار کہا گیا۔ اس بھٹو کو شکست دیجئے جو پھانسی پر جھول گیا۔ اس بے نظیر کو پیچھے چھوڑ دیجئے جو پنڈی میں قربان ہوگئی۔ اس نواز شریف کا منہ بند کردیجئے جو بار بار سزا کاٹنے کےلیے جیل سے بھاگتا ہے۔ آئیے ایک کمانڈو کی طرح حالات کا مقابلہ کیجئے۔ وگرنہ ہم باقی زندگی میں اپنے دشمنوں سے منہ چھپاتے پھریں گے کہ ہمارا ''کمانڈو'' بھگوڑا نکلا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں