ضلع وسطی اور شرقی میں از سر نو حلقہ بندیاں بلدیاتی انتخابات کے التوا کا خدشہ
ضلع وسطی میں یونین کمیٹیزکی تعداد61 سے 48جبکہ ضلع شرقی میں 67یونین کمیٹیز کم کرکے 52کے نقشہ جات تیارکرلیے گئے۔
کراچی کے ضلع وسطی میں مجوزہ 61یونین کمیٹیزکوکم کرکے 48 اور ضلع شرقی میں 67 سے کم کرکے 52 یونین کمیٹیز کردی گئی ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں بھی نظرثانی کی جارہی ہے، نئی نظرثانی شدہ رپورٹ پیرکومتعلقہ ادارے میں جمع کرائی جا ئے گی۔
صوبائی حکومت کی جانب سے فیصلوں میں بار بار تبدیلی اور غیرقانونی اقدامات سے شکوک وشبہات بڑھتے جارہے ہیں جو صوبے بالخصوص کراچی میں سیاسی خلفشار بڑھنے اور بلدیاتی انتخابات کے التوا کا باعث ہوسکتے ہیں، ضلع وسطی اور ضلع شرقی میں بلدیاتی نشستوں کی کمی پر ایم کیوایم کا سخت ردعمل متوقع ہے۔
ایم کیوایم کے ذرائع کے مطابق کورنگی کو نیا ضلع بنانے کا فیصلہ اور حدبندیوں میں غیرقانونی اقدامات پر شدید احتجاج اور اس حوالے سے عدلیہ سے رجوع کیا جائے گا، تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے نئے حکم نامے کے تحت ڈپٹی کمشنرز نئی بلدیاتی حد بندیوں کا کام ازسرنو کررہے ہیں جو پیر تک مکمل کرلیا جائے گا ،ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنرز 98ء کی مردم شماری اور 2001ء کے بلدیاتی نظام کے نقشہ جات کی مدد سے ازسرنو بلدیاتی حلقے بنارہے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ نے 25اکتوبر کو کراچی کے5 اضلاع میں 268یونین کمیٹیز ویونین کونسلیں تشکیل دیکر سیاسی جماعتوں سے اعتراضات کی وصولی کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے، 25 اکتوبر کو ڈپٹی کمشنرز کی مجوزہ رپورٹ میں ضلع شرقی میں 67یونین کمیٹیز ضلع غربی میں 51، ضلع جنوبی 48، ضلع وسطی میں 61، ضلع ملیر کے شہری علاقوں میں 20 یونین کمیٹیزاور دیہی علاقوں میں 21یونین کونسلیں تشکیل دی گئی تھیں ، مجوزہ بلدیاتی حلقوں پر سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اعتراضات جمع کیے جارہے تھے کہ سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں بلدیاتی حلقوں میں کمی کے اقدامات شروع کردیے گئے، ذرائع کے مطابق ضلع وسطی میں یونین کمیٹیزکی تعداد61 سے کم کرکے 48کرنے کا کام دو دن قبل کرلیا گیا تھا ۔
جبکہ ضلع شرقی میں مجوزہ 67یونین کمیٹیز کم کرکے 52 یونین کمیٹیز کے نقشہ جات ہفتہ کی رات کو بنائے گئے،ان اضلاع میں بلدیاتی نشستوں پرکمی سے آبادی کا فرق بہت زیادہ ہوگیا ،شہری آبادی پر مشتمل ان اضلاع میںکسی یوسی میں 40ہزار آبادی ہے،کہیں63ہزار آبادی آرہی ہے، دیگر اضلاع کے بلدیاتی حلقوں میں بھی نظرثانی کی جارہی ہے، ذرائع نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے زیر اثر علاقے ضلع غربی،ملیراورجنوبی میں بلدیاتی نشستوں میںواضح کمی کا امکان نہیں ہے،صرف ایم کیوایم کے زیراثر علاقوں میں کمی کی جارہی ہے۔
دیہی آبادی کی ایک یونین کونسل کی آبادی صرف 10سے 15ہزار رکھی جارہی ہے،سرجانی ٹاؤن، منگھوپیر، جام جاکرو اور دیگر دیہی علاقے جو میٹروپولیٹین حدود میں نہیں آتے تھے انھیں متعلقہ ڈپٹی کمشنر نے بناء کسی نوٹی فکیشن کے شہری علاقہ قرار دیدیا ہے، ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں شہری اور دیہی بلدیاتی نشستوں پر آبادی کا فرق نمایاں ہورہا ہے جس کے باعث شہری سیاست میں بھونچال آجانے کی توقع ہے،سندھ حکومت کے اقدامات کا مقصد بلدیہ کراچی میں اپنی مرضی کی میئرشپ لانے کا ہے، بلدیاتی ماہرین کے مطابق کراچی میںحلقہ بندیوں کی تشکیل کا کام غیرقانونی طریقے سے کیا جارہا ہے۔
اعتراضات جمع کرانے کیلیے کوئی پبلک نوٹس یا اخبار میں حد بندیاں مشتہر نہیں کی گئیں اور نہ ہی ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر نئی حدبندیوں کے نقشہ جات آویزاں کیے گئے،مجوزہ رپورٹ پر اعتراضات کے عمل کے دوران دوبارہ بلدیاتی حلقوں میں ترامیم غیرقانونی عمل ہے، بلدیاتی ماہرین نے کہا کہ بلدیاتی حلقوں کی حد بندیاں اس طرح کی جارہی ہیں کہ ایک مخصوص جماعت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو، ذرائع نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ، این جی او یا شہری باآسانی عدالت میں ان حلقہ بندیوں کو چیلنج کر سکتا ہے۔
جس سے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کا امکان ہے، ماضی میں بھی 2001ء میں سندھ کے چند اضلاع میں بلدیاتی انتخابات عدالتی حکم امتناع کے باعث بروقت نہ ہوسکے تھے، کمشنر کراچی شعیب صدیقی نے کراچی میں حلقہ بندیوں کی ازسرنو تشکیل کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ 25اکتوبر تا یکم نومبر کو مجوزہ بلدیاتی حلقوں پر اعتراضات جمع کیے جا چکے ہیں، جمعہ کی رات آخری تاریخ تک سیکڑوں کی تعداد میں اعتراضات جمع ہوچکے ہیں جن کی روشنی میں حد بندیاں فائنل کی جائیں گی۔
دریں اثناء کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہونے والی حلقہ بندیوں سے متعلق کراچی ڈویژن کے پانچوں اضلاع میں حلقہ بندیوں سے متعلق داخل کیے گئے اعتراضات کی سماعت کا شیڈول جاری کردیا ہے، شیڈول کے مطابق کمشنر کراچی 5 نومبر بروز منگل صبح 10.30 کواپنے دفتر میں ضلع ملیر کی حلقہ بندیوں سے متعلق جمع کیے گئے اعتراضات کی سماعت کریں گے جبکہ دوپہر 2 بجے ضلع وسطی سے متعلق اعتراضات کی سماعت کریں گے ، 6 نومبر بروز بدھ صبح 11.30پر ضلع جنوبی ،7 نومبر بروز جمعرات کوصبح 11.30 بجے ضلع شرقی اور 8 نومبر بروز جمعہ 10 بجے ضلع غربی سے متعلق حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی سماعت کریں گے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے فیصلوں میں بار بار تبدیلی اور غیرقانونی اقدامات سے شکوک وشبہات بڑھتے جارہے ہیں جو صوبے بالخصوص کراچی میں سیاسی خلفشار بڑھنے اور بلدیاتی انتخابات کے التوا کا باعث ہوسکتے ہیں، ضلع وسطی اور ضلع شرقی میں بلدیاتی نشستوں کی کمی پر ایم کیوایم کا سخت ردعمل متوقع ہے۔
ایم کیوایم کے ذرائع کے مطابق کورنگی کو نیا ضلع بنانے کا فیصلہ اور حدبندیوں میں غیرقانونی اقدامات پر شدید احتجاج اور اس حوالے سے عدلیہ سے رجوع کیا جائے گا، تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے نئے حکم نامے کے تحت ڈپٹی کمشنرز نئی بلدیاتی حد بندیوں کا کام ازسرنو کررہے ہیں جو پیر تک مکمل کرلیا جائے گا ،ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنرز 98ء کی مردم شماری اور 2001ء کے بلدیاتی نظام کے نقشہ جات کی مدد سے ازسرنو بلدیاتی حلقے بنارہے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ نے 25اکتوبر کو کراچی کے5 اضلاع میں 268یونین کمیٹیز ویونین کونسلیں تشکیل دیکر سیاسی جماعتوں سے اعتراضات کی وصولی کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے، 25 اکتوبر کو ڈپٹی کمشنرز کی مجوزہ رپورٹ میں ضلع شرقی میں 67یونین کمیٹیز ضلع غربی میں 51، ضلع جنوبی 48، ضلع وسطی میں 61، ضلع ملیر کے شہری علاقوں میں 20 یونین کمیٹیزاور دیہی علاقوں میں 21یونین کونسلیں تشکیل دی گئی تھیں ، مجوزہ بلدیاتی حلقوں پر سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اعتراضات جمع کیے جارہے تھے کہ سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں بلدیاتی حلقوں میں کمی کے اقدامات شروع کردیے گئے، ذرائع کے مطابق ضلع وسطی میں یونین کمیٹیزکی تعداد61 سے کم کرکے 48کرنے کا کام دو دن قبل کرلیا گیا تھا ۔
جبکہ ضلع شرقی میں مجوزہ 67یونین کمیٹیز کم کرکے 52 یونین کمیٹیز کے نقشہ جات ہفتہ کی رات کو بنائے گئے،ان اضلاع میں بلدیاتی نشستوں پرکمی سے آبادی کا فرق بہت زیادہ ہوگیا ،شہری آبادی پر مشتمل ان اضلاع میںکسی یوسی میں 40ہزار آبادی ہے،کہیں63ہزار آبادی آرہی ہے، دیگر اضلاع کے بلدیاتی حلقوں میں بھی نظرثانی کی جارہی ہے، ذرائع نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے زیر اثر علاقے ضلع غربی،ملیراورجنوبی میں بلدیاتی نشستوں میںواضح کمی کا امکان نہیں ہے،صرف ایم کیوایم کے زیراثر علاقوں میں کمی کی جارہی ہے۔
دیہی آبادی کی ایک یونین کونسل کی آبادی صرف 10سے 15ہزار رکھی جارہی ہے،سرجانی ٹاؤن، منگھوپیر، جام جاکرو اور دیگر دیہی علاقے جو میٹروپولیٹین حدود میں نہیں آتے تھے انھیں متعلقہ ڈپٹی کمشنر نے بناء کسی نوٹی فکیشن کے شہری علاقہ قرار دیدیا ہے، ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں شہری اور دیہی بلدیاتی نشستوں پر آبادی کا فرق نمایاں ہورہا ہے جس کے باعث شہری سیاست میں بھونچال آجانے کی توقع ہے،سندھ حکومت کے اقدامات کا مقصد بلدیہ کراچی میں اپنی مرضی کی میئرشپ لانے کا ہے، بلدیاتی ماہرین کے مطابق کراچی میںحلقہ بندیوں کی تشکیل کا کام غیرقانونی طریقے سے کیا جارہا ہے۔
اعتراضات جمع کرانے کیلیے کوئی پبلک نوٹس یا اخبار میں حد بندیاں مشتہر نہیں کی گئیں اور نہ ہی ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر نئی حدبندیوں کے نقشہ جات آویزاں کیے گئے،مجوزہ رپورٹ پر اعتراضات کے عمل کے دوران دوبارہ بلدیاتی حلقوں میں ترامیم غیرقانونی عمل ہے، بلدیاتی ماہرین نے کہا کہ بلدیاتی حلقوں کی حد بندیاں اس طرح کی جارہی ہیں کہ ایک مخصوص جماعت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو، ذرائع نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ، این جی او یا شہری باآسانی عدالت میں ان حلقہ بندیوں کو چیلنج کر سکتا ہے۔
جس سے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کا امکان ہے، ماضی میں بھی 2001ء میں سندھ کے چند اضلاع میں بلدیاتی انتخابات عدالتی حکم امتناع کے باعث بروقت نہ ہوسکے تھے، کمشنر کراچی شعیب صدیقی نے کراچی میں حلقہ بندیوں کی ازسرنو تشکیل کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ 25اکتوبر تا یکم نومبر کو مجوزہ بلدیاتی حلقوں پر اعتراضات جمع کیے جا چکے ہیں، جمعہ کی رات آخری تاریخ تک سیکڑوں کی تعداد میں اعتراضات جمع ہوچکے ہیں جن کی روشنی میں حد بندیاں فائنل کی جائیں گی۔
دریں اثناء کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہونے والی حلقہ بندیوں سے متعلق کراچی ڈویژن کے پانچوں اضلاع میں حلقہ بندیوں سے متعلق داخل کیے گئے اعتراضات کی سماعت کا شیڈول جاری کردیا ہے، شیڈول کے مطابق کمشنر کراچی 5 نومبر بروز منگل صبح 10.30 کواپنے دفتر میں ضلع ملیر کی حلقہ بندیوں سے متعلق جمع کیے گئے اعتراضات کی سماعت کریں گے جبکہ دوپہر 2 بجے ضلع وسطی سے متعلق اعتراضات کی سماعت کریں گے ، 6 نومبر بروز بدھ صبح 11.30پر ضلع جنوبی ،7 نومبر بروز جمعرات کوصبح 11.30 بجے ضلع شرقی اور 8 نومبر بروز جمعہ 10 بجے ضلع غربی سے متعلق حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی سماعت کریں گے۔