بُک شیلف

تاریخ بتاتی ہے کہ شروع شروع میں انسان دیوتائوں کے آگے بچوں کی قربانی دیاکرتے تھے۔

انسان کی تاریخ بڑی مزے دار، دلچسپ اور پراسرار کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ فوٹو: فائل

موت کا تعاقب
(فینٹسی، تجسس، دہشت اور جرم وسزا سے بھرپور ناولوں کی سیریز)



اردو کے مشہور ڈرامہ نگار، افسانہ نگار اور ناول نگار اے حمید(عبدالحمید) بچوں ، بڑوں کی دنیا میں کبھی بھلائے نہیں جاسکتے۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اے حمید کے چھوٹے، چھوٹے انتہائی دلچسپ اور تجسس سے بھرے ہوئے ناول پڑھ کر ہی جوان ہوئی۔ اے حمید نے اس بڑی ہونے والی نسل پر اپنے بہت اثرات چھوڑے ہیں۔

انسان کی تاریخ بڑی مزے دار، دلچسپ اور پراسرار کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ شروع شروع میں انسان دیوتائوں کے آگے بچوں کی قربانی دیاکرتے تھے۔ بعض کتابوں میں لکھاہے کہ بابل ونینوا کی وادی میں ستاروں سے کچھ لوگ اترکرآئے تھے۔ مصر کے جادوگر پتھر میں جان ڈال دیتے تھے۔ زیرنظرننھے منے ناولوں میں جو کہانی بیان کی گئی ہے وہ دراصل دنیا کی ساری تاریخ میں سے انتہائی دلچسپ ، پراسرار اور حیرت انگیز کہانیوں کا ہی ایک سلسلہ ہے۔

''موت کا تعاقب'' سیریز کاآغاز قدیم ملک مصر سے ہوتا ہے۔ فرعون(بادشاہ مصر) کو نجومیوں نے بتایا کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا جو اسے ہلاک کردے گا۔ فرعون کی ملکہ اپنے بیٹے کو خفیہ طورپر ایک ننھی سی کشتی میں ڈال کر دریائے نیل کی لہروں کے حوالے کردیتی ہے۔ وہ لڑکا مصر کا شہزادہ ہے مگر ایک ماہی گیر کے جھونپڑے میں عنبر کے نام سے پرورش پاتا ہے ۔ جوان ہوکر اسے معلوم ہوتاہے کہ وہ فرعون کا بیٹا ہے۔ وہ اپنی ملکہ ماں سے ملتاہے۔ اس کا بے وفا دوست فرعون اور اس کی ملکہ کوقتل کروا کے خود فرعون بن بیٹھتا ہے اور عنبر کو جلاوطن کردیتاہے۔ عنبر اپنی ماں کی قبر پر جاتاہے۔

وہاں ایک مقدس آواز اسے دعا دیتی ہے کہ وہ کبھی نہیں مرے گا اور قیامت تک زندہ رہے گا۔ عنبر ایک بادبانی جہاز پر سوار ہوتاہے۔ صبح اٹھ کردیکھتاہے کہ جہاز کے سارے ملاح اورکپتان غائب ہیں۔ وہ جہاز پر اکیلا ہے اور بپھرے ہوئے سمندر میں اپنے آپ کو بہاچلاجارہاہے۔اس کے بعد کہانی بھی آگے سے آگے بڑھتی جارہی ہے جو دس ناولوں کی اس سیریز میں انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کی گئی ہے۔

تاریخ کا لازوال سفر عنبر، ناگ اور ماریا کے ساتھ طے ہوتا ہے۔ یہ وہ کردار ہیں جو ہزاروں سال سے زندہ ہیں۔ناولوں کے اس سلسلے کا پہلا ناول'' مصر کی ملکہ''، دوسرا''فرعون کی تباہی'' ، تیسرا ''پھانسی کے تختے پر''، چوتھا ''شہزادے کا اغوا''، پانچواں ''روحوں کا شہر''،چھٹا ''ہڑپہ کا شیش ناگ''،ساتواں ''زہر کا پیالہ''، آٹھواں ''مردوں کی سرائے''، نواں ''مکڑے کا جال'' اوردسواں ''میں سانپ ہوں'' ہے۔

آج کی دنیا میں انٹرنیٹ اور اس طرح کی کچھ دیگرتفریحات نے بچوں کو کتاب بینی کے کلچر سے محروم کردیاہے۔معاشرے کے سب بڑوں کو بھی اس بھولے بسرے کلچر کے فروغ میں ایسے اداروں کابھرپور ساتھ دینا چاہئے۔اپنے بچوں کو اس کلچر سے استفادہ کرنے میں پوری پوری مدد کرنی چاہئے۔ اس میں آج کے بڑوں کا بھی بھلا ہے اور کل کے بڑوں کا بھی۔ انتہائی دیدہ زیب ٹائٹل، عمدہ طباعت کے حامل ان ناولوں میں سے ہرایک کم وبیش سو صفحات پرمشتمل ہے اور ہرناول کی قیمت محض 95روپے ہے۔ملنے کا پتہ القاپبلی کیشنز،12-Kمین بلیوارڈ ،گلبرگ 2،لاہور


سجن نال میلہ، پندھ کتھا
مصنف: مدثر بشیر
صفحات:79،قیمت:150روپے،ناشر:سانجھ،بک سٹریٹ 2مزنگ روڈ ، لاہور


اپنی بات کو بڑی آسانی ، روانی اور خوبصورتی سے کہہ دینا بہت بڑا فن ہے جو بہتوں کو قدرتی طور پر ودیعت ہوا ہوتا ہے اور ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تجربات کی بھٹی سے گزر کر اس فن کو سیکھ جاتے ہیں ، بہرحال اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ دونوں صورتوں میں قابلیت اور اہلیت کا ہونا ضروری ہے۔مدثر بشیر کو بھی اپنی بات کہنے اور دوسرے تک پہنچانے کا فن آتا ہے۔ یہ ان کی پہلی تصنیف نہیں اس سے قبل انھوں نے نوشاہی پھل، آکھیا قاضی نے ، سمے ، نین پران اور چک نمبر 6 لکھی۔

لاہور سے چونکہ ان کی محبت کافی گہری ہے اس لئے انھوں نے لہوردی وار بھی تصنیف کی جو کافی پسند کی گئی ۔ زیر تبصرہ کتاب میں انھوں نے چار عنوانات کے تحت اپنے من کی بات قارئین تک پہنچائی ہے ۔ پہلے باب ''وار''میں انھوں نے پنجابی پندھ کی تاریخ پر مضمون باندھا ہے ، دوسرے باب '' میں تکیا؍ہنڈایا کراچی سلیکھ میلہ'' میں کراچی میں منعقد ہونے والے ادبی میلے کی روداد بڑی خوبصورتی سے بیان کی ہے۔

تیسرے باب ''میلہ پیر نوشوؒ2011 ء''میں شرکت کا احوال ہے۔ چوتھے باب '' اک دن ششی تھرور نال 2012ء'' میں اندرون لاہور میں گزارے گئے وقت کی کتھا بڑے خوبصورت انداز میں لکھی ہے۔ مدثر بشیر اپنی تحریر کے سحر سے قاری کو جکڑ لیتے ہیں ، تحریر کا ربط قاری کو اپنے ساتھ بہائے لئے جاتا ہے ۔ ان کی پنجابی میں دو طرح کے لہجے دکھائی دیتے ہیں ، لاہور کی پنجابی کے ساتھ ساتھ وسطی پنجاب کے دیہاتی علاقوں کا لہجہ بھی نظر آتا ہے ان کا یہ منفرد انداز تحریرمیں ایک نئی جان ڈال دیتا ہے۔

بچوں کا انسائیکلو پیڈیا
مصنف: محمد عارف جان
ناشر: بک ہوم لاہور،صفحات:160روپے،قیمت: 3 سو روپے


بلاشبہ دور جدید کی ترقی سائنس و ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے۔ آج کوئی ملک یا قوم اس میدان میں لوہا منوائے بغیر ترقی یافتہ نہیں کہلوا سکتی، لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں دیگر کی طرح اس شعبہ میں بھی کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا۔ اور بچے جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، ان کے لئے شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی میں رہنمائی اور دلچسپی پیدا کرنے کی طرف جلدی سے ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا۔ آج بازاروں اور لائبریریوں میں شہزادیوں اور جنوں کی کہانیوں پر مشتمل تو بے شمار کتابیں دستیاب ہیں لیکن بچوں کی درست سمت میں رہنمائی کے لئے نہ ہونے کے برابر کام کیا گیا ہے۔

بچوں کے ذہنوں میں ابھرتے سوالات و جوابات ان کی علمی تشنگی و ذہنی تجسس کو جلا بخشتے ہیں اور اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے مصنف نے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے۔ مثال کے طور پر زمین کیسے وجود میں آئی؟ دن اور رات کیوں ہوتے ہیں؟ شہاب ثاقب کسے کہتے ہیں؟ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ بارش کیوں ہوتی ہے؟ سمندر کی گہرائی اور زمین کی بلندی کیسے ناپی جاتی ہے؟ کیا پودے رات کو سوتے ہیں؟ پتنگے روشنی کے گرد کیوں اڑتے ہیں؟ ہفتے میں سات دن کیوں ہوتے ہیں؟ سیل سے بجلی کیسے حاصل ہوتی ہے؟ دنیا سے آکسیجن کیوں ختم نہیں ہوتی؟ دانتوں کو کیڑا کیوں لگتا ہے؟ جیسے سوالات کے جوابات دے کر اس کتاب میں بچوں کی نہ صرف ذہنی تسکین بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ان کی دلچسپی پیدا کرنے کی بھرپور سعی بھی کی گئی ہے۔
Load Next Story