مہان مناڈے گیت ساگر کے اس پار جا اترے
منا ڈے کو ’’ورسٹائل سنگر‘‘ مانا جاتا ہے، ایک ایسا مغنی جس کی کوئی دوسرا گلوکار نقل نہیں کر سکتا۔
بہت مہان گائک...
لتا نے اپنی ایلبم ''شردھا نجلی'' (خراجِ تحسین) میں ان کے بارے میں کہا تھا ''ہم لوگوں کے لیے گاتے ہیں اور منادا گانے والوں کے لیے گاتے ہیں'' اور منادا خود کیا کہتے تھے؟ ایک دن مہندر کپور نے ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے کہا ''منادا ہم تو بس ایسے ہی ہیں، گاتے تو آپ ہیں'' اس پر مناڈے نے کہا ''بھیے! ہم تو بس کلامندر کے آنگن میں جھاڑو دینے آتے ہیں، گاتے تو شری مہدی حسن ہیں''۔ اب اتنے کشادہ دلی سے اعتراف کرنے والے انکسار کے پیکر کہاں، ایک ایک کرکے اٹھتے چلے جا رہے ہیں۔
موسیقی اور گلوکاری مناڈے کے خاندان میں پرانے وقتوں سے چلی آ رہی تھی، والد پورن چندر ڈے اور والدہ مہامایا بھی گلوکار تھے لیکن ان کے سب سے چھوٹے چچا کرشن چندر ڈے المعروف کے سی ڈے (تِری گٹھڑی میں لاگا چور، مسافر جاگ ذرا) تو سنگیت اچاریا کہلاتے تھے، مناڈے پر ان کے سب سے زیادہ اثرات ہیں۔ کے سی ڈی فلمی صنعت میں ہمہ صفت موصوف شخصیت تھے، انہوں نے فلموں میں یادگار رول بھی کیے، گایا بھی، موسیقی بھی ترتیب دی اور تدوین کاری بھی کی اور دل چسپ المیہ ان کے ساتھ یہ تھا کہ وہ سات ہی برس کی عمر میں مکمل نابینا ہوگئے تھے۔ ان کے شاگردوں میں سچن دیو برمن (ایس ڈی برمن) جیسے عظیم موسیقار شامل تھے، وہ اپنے کیرتن (سبق آموز) گیتوں کے لیے معروف تھے، انہوں نے آٹھ نعتیں بھی ریکارڈ کرائیں۔
مناڈے کا اصل نام پربودھ چندر (Prabodh Chandra) تھا، تھیئٹر میں منّا کے نام سے جانے جاتے تھے سو یہ نام عمر بھر ان کے ساتھ رہا۔ یکم مئی 1919 کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اندوببور پاٹھ شالا سے حاصل کی، سکاٹش چرچ کالجیٹ اسکول سے میڑک اور گریجوایشن ودیا ساگر کالج سے کی۔ منا ڈے کا مزاج اس حوالے سے بوقلموں قرار پاتا ہے کہ جہاں ایک طرف ان کے اندر ایک پہلوان اور باکسر موجود تھا تو دوسری طرف ایک من موجی گلوکار بھی تھا۔ وہ پرائمری اسکول میں تھے تو اپنے گانے کی صلاحیت کا اظہار اپنے ہم جولیوں کی فرمائش پر ٹیبل بجا کر کیا کرتے تھے، اس کے ساتھ ہی اکھاڑے میں دیسی کشتی کے رموز اور باکسنگ (مکے بازی) بھی سیکھا کرتے۔ ان کھیلوں میں بھی انہوں نے اپنے تعلیمی اداروں کا نام روشن کیا۔
ابھی چھوٹے ہی تھے کہ چچا کے سی ڈی نے گانے کی باقاعدہ تربیت دینا شروع کر دی۔ مناڈے نے بھی اپنے مہربان چچا کو مایوس نہیں کیا اور خوب دل لگا کر سیکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب یہ کالج پہنچے تو ایک طرف باکسنگ اور کشتی کے میدان میں جھنڈے گاڑتے تو دوسری طرف موسیقی کے انٹر کالجیٹ مقابلوں میں حریفوں کو پچھاڑتے۔ موسیقی کے سالانہ انٹرکالجیٹ مقابلوں میں مسلسل تین سال تک اول آتے رہے۔
کالج سے فارغ ہونے کے بعد اپنے چچا کی معاونت کرنے لگے جو اس وقت فلموں میں گاتے اور موسیقی ترتیب دیا کرتے تھے۔ چچا کچھ عرصے تک بھتیجے کی تربیت کیا کیے، دیکھا کہ باصلاحیت ہے تو اپنے لائق شاگرد ایس ڈی برمن کے حوالے کر دیا۔ یہ 1942 کا برس تھا۔ منا ڈے نے گانے کی ریاضت کبھی ترک نہ کی، ایس ڈی برمن کے علاوہ چچا نے انہیں وقت کے باکمال اساتذہ استاد دبیر خان، استاد امان علی خان اور استاد عبدالرحمٰن خان سے بھی تربیت دلوائی۔ 1942 کے بعد انہوں نے اپنے طور پر کام کا آغاز کیا۔
پلے بیک سنگر کے طور پر ان کے کیریئر کا آغاز 1943 میں فلم ''تمنا'' سے ہوا۔ اس فلم کی موسیقی کے سی ڈے ہی نے ترتیب دی تھی۔ ان کے ساتھ ہم آوازی کا فریضہ اُس زمانے کی بہت ہی مقبول و حسین مغنیہ ثریا نے انجام دیا۔ یہ دوگانے نشر ہوئے تو مناڈے بھی راتوں رات پورے برصغیر میں گونجنے لگے، سننے والوں نے ان کی آواز کی انتہائی پذیرائی کی۔ اس کے بعد انہیں فلم مشعل میں گانے کا موقع ملا۔ اس فلم کی موسیقی ایس ڈی برمن نے ترتیب دی تھی، جو اپنے فن کے ماسٹر تھے، وہ فلم کی کسی ایک سیچوایشن کے لیے موسیقی نہیں دیا کرتے تھے بل کہ پوری فلم کا تھیم اپنے اوپر طاری کرکے دھن بناتے تھے۔
اس فلم کا ایک گانا ہے ''اوپر گگن وشال؛ نیچے گہرا پاتال''، یہ مچھیروں کا گانا ہے، جو سمندر میں کام کر رہے ہیں، اس گانے کی موسیقی کی گمبھیرتا کمال ہے، گانا سنتے وقت احساس ہوتا ہے کہ جیسے سمندر پر کوئی نیم روشن اور نیم تاریک سمے طاری ہے اور پس منظر سے ''آ ۔۔۔ ہا، آ ۔۔۔ ہا'' کی آوازیں سمندر کے پاتال سے گونج رہی ہیں، ان آوازوں کی رہ نما آواز منا ڈے کی ہے، جو اس خوبی سے ریکارڈ کی گئی ہے کہ لگتا ہے یہ گگن اور سمندر کے پاتال کے درمیانی منطقے سے پھوٹ رہی ہے۔
اس گانے کے رموز کو سمجھنے کے لیے سامع کے کانوں کا انتہائی حساس ہونا ضروری ہے۔ یہ فلم ممتاز ہدایت کار نِتن بوس نے لکھی اور ڈائریکٹ کی، ہیرو اس کے اشوک کمار اور ہیروئن سمترا دیوی تھی۔ یاد رہے کہ نِتن بوس بے مثل فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر، سکرین رائیٹر، رائیٹر، میوزک ڈائریکٹر اور گیت نگار ستیا جیت رے کے کزن تھے۔ 1952 میں منا ڈے کی آواز فلم امربھوپالی کے لیے حاصل کی گئی، یہ فلم دو زبانوں بنگالی اور مراٹھی میں بنائی گئی تھی، دونوں زبانوں کے گانے منا ڈے ہی نے گائے۔ یوں تو دونوں گانوں کو پذیرائی ملی لیکن بنگالی میں گائے گئے گیت نے انہیں بنگالی کا بڑا مغنی قرار دلوا دیا۔
منا ڈے کو ''ورسٹائل سنگر'' مانا جاتا ہے، ایک ایسا مغنی جس کی کوئی دوسرا گلوکار نقل نہیں کر سکتا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ منا ڈے اپنے وقت کے تمام لیجنڈ گلوکاروں محمد رفیع، کشور کمار، مکیش وغیرہ کے گانے بڑی سہولت سے گا لیتے تھے لیکن منا دا کے اپنی مخصوص تیکینک میں گائے ہوئے گانے ان میں سے کوئی بھی نہیں گا سکتا تھا۔ رفیع مرحوم نے ایک بار ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا ''مجھے ایک زمانہ سنتا ہے لیکن خود میں سوائے منا ڈے کے کسی اور کو نہیں سنتا''۔ یہ ایک بہت بڑے گلوکار کا خراجِ تحسین ہے۔
یہ بھی مانا جاتا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں منا ڈے سے زیادہ تربیت یافتہ گلوکار اور کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے تمام قابل ذکر ہم عصروں کے ساتھ گایا اور ایسے گانوں میں نقادوں سے اپنی برتری کو منوایا۔ وہ خالص کلاسیکی موسیقی میں بھرپور مزاح پیدا کرنے کی ایسی صلاحیت رکھتے تھے، جس سے ان کا کوئی ہم عصر متصف نہیں تھا۔ وہ سروں کا ایسا تال میل بناتے تھے کہ سننے والا ہنس ہنس کر دوہرا ہو جاتا تھا لیکن کمال یہ ہے کہ وہ راگ کی شکل بگڑنے نہیں دیتے تھے، مثال کے طور پر فلم پڑوسن کا مقبول ترین گانا ''اک چتر نار، کرکے سنگھار'' ہے، جس میں کشور کمار نے ان کا ساتھ دینے کی کوشش کی ہے۔
اس فلم میں ایک طرف کشور کمار نے خود مزاحیہ اداکاری بھی کی ہے جب کہ منا دا کی آواز اپنے وقت کے عظیم مزاحیہ اداکار محمود خان پر فلمائی گئی ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے فلم بوٹ پالش کا گانا ''لپک جھپک تو آرے بدروا'' ہے۔ یہ گانا منا ڈے کی سولو پرفارمنس ہے اور ڈیوڈ پر فلمایا گیا ہے۔ اس میں ایسے ایسے تان پلٹے لگے ہیں کہ سننے والا کے ہنس ہنس کر ہیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں، اس پر ڈیوڈ کی بے مثال اداکاری الگ۔ یہ ہی نہیں منا دا نے غزل گائیکی میں بھی اپنا لوہا منوایا مثال کے طور پر مجروح سلطان پوری کی طویل بحر کی غزل ''ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے''، جب رومانٹک گیت ''کون آیا مرے من کے دوارے پایَل کی جھنکار لیے'' گایا تو ان کی آواز ایسی سلکی ہو گئی کہ لوگ طلعت محمود کو بھول گئے۔
منا ڈے نے کلاسیکی موسیقی کو پاپ میوزک میں بھی ڈھالا۔ بنگالی فلمی صنعت میں انہوں نے لیجنڈری ہیمنت کمار جیسے موسیقاروں کے ساتھ گایا، باقی گلوکار عوام کے لیجنڈ کہلاتے ہیں اور منا ڈے گلوکاروں کے لیجنڈ تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں چار ہزار سے زیادہ گانے بھارت کی قریب قریب ایک درجن زبانوں میں گائے۔ انہیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے بھارت کے ایک سو موسیقاروں کے ساتھ گایا، وہ سؤرگ باشی ہونے سے دو برس قبل تک ہندوستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں پرفارم کرتے رہے۔
پدم بھوشن اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور بے شمار دوسرے اعزازات حاصل کرنے والے منا ڈے کے اندر بلا کا عجز تھا۔ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا ''میں کیا گاتا ہوں بابا، رفیع ۔۔۔ رفیع بلاشبہ عظیم گلوکار ہے اور بھارت میں اگر کسی آواز کو سنہری آواز قرار دیا جائے تو وہ ہیمنت کمار جی ہیں''۔ کشور کمار کے بارے میں کہتے تھے ''کشور ایک پیدائشی جینئس ہیں لیکن ایک حد تک گلوکار ہیں، مکیش کی نیزل (غُنّی) آواز ناقابل فراموش ہے اور طلعت محمود کی آواز کا ریشم ابھی تک لمس نایافتہ (Untouched) ہے، میں کیا گاتا ہوں!''
1964 میں چیتن آنند کی فلم حقیقت کا ایک گانا ریکارڈ کیا جا رہا تھا یہ گانا آج بھی مقبول ہے، بول ہیں ''ہو کے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہو گا''۔ اس کی موسیقی مدن موہن نے دی اور بول کیفی اعظمی کے ہیں۔ اس گانے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اپنے وقت کی تین بڑی آوازیں رفیع، طلعت محمود اور منا ڈے شامل تھیں جب کہ بھوپندر کا یہ پہلا فلمی گانا تھا، یہ ایک بہت ہی الگ نوعیت کا تجربہ تھا۔ چاروں نے اپنی بہترین پرفارمنس دی، ایسی کہ جب گانا ختم ہوا تو بڑی دیر تک سناٹا سا طاری رہا لیکن منا ڈے کی ادائی پر رفیع کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور جب وہ بولنے کے قابل ہوئے تو خراجِ تحسین یوں ادا کیا بھی ''منا دا آپ لاجواب ہیں''۔ آنند جی (کلیان جی/ آنند جی معروف جوڑی کے ایک رکن) کہتے ہیں وہ اپنے سب سے طاقت ور حریف رفیع کے بارے میں اکثر کہا کرتے تھے ''رفیع حیرت انگیز ہے، آنند میں غلط تو نہیں کہ رہا؟ یہ غائبانہ خراجِ تحسین وہ رفیع مرحوم کی غیر موجودی میں اکثر ادا کیا کرتے تھے۔
منا ڈے کے چچا پورے گلے سے گایا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے گانے سے کئی بار مائیکرو فون خراب ہوئے۔ وہ بھتیجے کو بمبئی لے گئے۔ وہاں ایک فلم رام راجیا میں سیج والمیکی انداز میں گانے کے لیے ان کی آواز درکار تھی۔ سیج والمیکی وہ شخصیت ہے جس نے قبل مسیح میں سنس کرت زبان میں عظیم رزمیہ ''رامائن'' لکھا۔ فلم ساز وجے بھٹ نے سینیئر ڈے سے گانے کی درخواست کی، مہربان چچا نے ان سے کہا کہ وہ منا ڈے کی آواز استعمال کر لیں، وجے بھٹ نے گو مہ گو کے سے انداز میں ان کی پیش کش قبول کر لی لیکن جب منا ڈے نے ریکارڈنگ کروا لی تو وہ بہت حیران ہوا کہ ایک نوجوان جو محض 22 سال کا ہے، کیسے ایک عمر رسیدہ کردار کے لیے اپنی آواز کو موزوں کر لیتا ہے، اس گانے کے ان کو ڈیڑھ سو روپے ملے جو 1941 میں ایک خطیر رقم بنتی ہے تاہم اس میں قباحت یہ ہو گئی کہ ان کی آواز کو بڑی عمر کے کرداروں کے لیے مختص کردیا گیا اور اس قباحت نے انہیں آنے والے بہت سارے برسوں تک لپیٹ میں لیے رکھا حال آں کہ ان کے مقابلے میں مکیش کی آواز میںتکان کا تاثر کہیں زیادہ ہے۔
منا دا چاہتے تھے کہ نوجوان کرداروں کے لیے بھی ان کے گانے لیے جائیں۔ 1953 میں فلم پرینیتا (Parineeta) بن رہی تھی تو ان سے ''چلی رادھے رانی'' گوایا گیا، یہ سمجھے کہ گانا فلم کے ہیرو اشوک پر ہے لیکن جب فلم دیکھی تو معلوم ہوا کہ ان کی آواز بہ دستور ایک عمر رسیدہ کردار کے لیے استعمال کی گئی ہے، یہ فلم بمل رائے نے بنائی تھی۔ اسی طرح جب راج کپور کی فلم بوٹ پالش کے لیے ان کا گانا، جو بہت مقبول ہوا، ''لپک جھپک تو آرے بدروا'' ریکارڈ ہوا تو گانے کی شوخی دیکھ کر وہ بڑے خوش ہوئے کہ چلو اس بار تو خواہش پوری ہو گی ہی لیکن یہ گانا بھی ڈیوڈ پر فلمایا گیا تھا، جو بہت ہی عمر رسیدہ تھے۔ ہندی اور اردو فلموں میں ایسے گانے خاص طور پر منا دا کے خانے میں ڈال دیے جاتے تھے لیکن ایسا نہیں کہ ان کی آواز نوجوان کرداروں کے لیے استعمال ہی نہیں کی گئی، ''زندگی کیسی ہے پہیلی ہائے'' کی طرح کے ان کے بے شمار گانے ہیں جنہوں نے مقبولیت اور پذیرائی کے ریکارڈ قائم کیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود فلموں کے ہیرو بھی ان کا گانا لینے سے ہچکچاتے تھے۔
دلیپ کمار سے لے کر راجیش کھنا تک طلعت محمود، رفیع اور کشور کمار کی آوازوں کو ترجیح دیتے تھے۔ بوڑھے کرداروں کے علاوہ ان کو وہ گانے بھی دیے جاتے تھے جو ایسے مشکل ہوتے تھے کہ موسیقاروں کو منا دا کے سوا دوسرا کوئی گانے کا اہل دکھائی ہی نہیں دیتا تھا، ''کیتکی، گلاب، جوہی، چمپک بن پھولے'' اس کی محض ایک مثال ہے، جو منا دا نے فلم ''بسنت بہار'' کے لیے عظیم گلوکار بھیم سین جوشی کے مقابل گایا اس کے علاوہ کلاسیکی گانے بھی ان ہی کے دامن میں ڈالے جاتے تھے، خود منا دا کا کہنا تھا کوئی ایسا گانا نہیں جو کلاسیکل نہ ہو، محض انداز اور تکے سے زیادہ دیر تک نہیں گایا جا سکتا، سارے گا ما پا دھا نی ہوم ورک ہے یہ کرنا ہی پڑتا ہے اور اب جب وہ نہیں رہے تو ان کا گانا برصغیر بھر میں گانے والوں کے لیے ہوم ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان کی سوانح عمری Jaboner Jalsaghorey ، انگریزی میں Memories come True اور اردو میں ''یادیں جی اٹھیں'' کے نام سے شائع ہو چکی ہے، اس میں ایک دل چسپ واقعہ انہوں نے بیان کیا ہے، ''ایک بار ایک میوزک پروڈیوسر صاحب تشریف لائے اور کہنے لگا ہم آپ کے پرانے گانے، نئے انداز سے ریکارڈ کرنے آئے ہیں، میں نے پوچھا وہ کیسے؟ اس پر اس ستم ظریف نے میرا ایک نیم کلاسیکل گانے ''چھم چھم باجے رے پایلیا'' کا میرے سامنے مغربی بیس، کی بورڈوں اور ڈرم سیٹ کے ساتھ گانے کا مظاہرہ کر دیا، دو بول انہوں نے گا، سچ یہ ہے کہ یہ بڑا ہی بھیانک تجربہ تھا، میں نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں اور دونوں ہاتھ ان صاحب کے سامنے جوڑ دیے کہ بھائی مجھے معاف کر دو، میں اپنے پیارے بچوں کو ذبح نہیں کر سکتا''۔ جب انہوں نے ڈی جے سنی کا البم سنا، جو ان کے مشہورِ زمانہ گانے ''اے مری زہرہ جبیں!'' کے عنوان سے جاری کیا گیا تھا اور جس میں سنی نے ان کے متعدد گانے گائے ہیں، اس پر منا دا کا تبصرہ تھا ''بھئی! اس نے بھی تو روزی کمانی ہے، میرے گانے گا کر اس کی ضرورت پوری ہوتی ہے تو کچھ مضائقہ نہیں۔''
منا دا نے اپنی زندگی میں پدم شری ایوارڈ، پدم بھوشن ایوارڈ، دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور لائیف ایچیومنٹ ایوارڈ اور بے شمار دوسرے اعزازات حاصل کیے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کون سا ایوارڈ حاصل کرکے انہیں فخر ہوا تو برجستہ بولے ''سلوچنا''۔ سلوچنا ڈے ان کی اہلیہ تھیں جو گزشتہ برس سرطان میں مبتلا ہو کر سؤرگ باش ہو چکی تھیں۔ دونوں کی ملاقات رابندر جے ونتی میوزک فنکشن میں ہوئی تھی۔ اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد وہ انتہائی دل زدہ ہو گئے تھے اور زیادہ دیر زندہ نہ رہ پائے اور پھر 24 اکتوبر کو علی الصبح وہ اپنی سلوچنا کے پاس سدھار گئے، ان کے تین پس ماندگان ہیں ایک بیٹی سمیتا، دوسری بیٹی شروما اور سب سے چہیتی اور نہ مرنے والی بیٹی ان کی مدھر آواز۔
لتا نے اپنی ایلبم ''شردھا نجلی'' (خراجِ تحسین) میں ان کے بارے میں کہا تھا ''ہم لوگوں کے لیے گاتے ہیں اور منادا گانے والوں کے لیے گاتے ہیں'' اور منادا خود کیا کہتے تھے؟ ایک دن مہندر کپور نے ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے کہا ''منادا ہم تو بس ایسے ہی ہیں، گاتے تو آپ ہیں'' اس پر مناڈے نے کہا ''بھیے! ہم تو بس کلامندر کے آنگن میں جھاڑو دینے آتے ہیں، گاتے تو شری مہدی حسن ہیں''۔ اب اتنے کشادہ دلی سے اعتراف کرنے والے انکسار کے پیکر کہاں، ایک ایک کرکے اٹھتے چلے جا رہے ہیں۔
موسیقی اور گلوکاری مناڈے کے خاندان میں پرانے وقتوں سے چلی آ رہی تھی، والد پورن چندر ڈے اور والدہ مہامایا بھی گلوکار تھے لیکن ان کے سب سے چھوٹے چچا کرشن چندر ڈے المعروف کے سی ڈے (تِری گٹھڑی میں لاگا چور، مسافر جاگ ذرا) تو سنگیت اچاریا کہلاتے تھے، مناڈے پر ان کے سب سے زیادہ اثرات ہیں۔ کے سی ڈی فلمی صنعت میں ہمہ صفت موصوف شخصیت تھے، انہوں نے فلموں میں یادگار رول بھی کیے، گایا بھی، موسیقی بھی ترتیب دی اور تدوین کاری بھی کی اور دل چسپ المیہ ان کے ساتھ یہ تھا کہ وہ سات ہی برس کی عمر میں مکمل نابینا ہوگئے تھے۔ ان کے شاگردوں میں سچن دیو برمن (ایس ڈی برمن) جیسے عظیم موسیقار شامل تھے، وہ اپنے کیرتن (سبق آموز) گیتوں کے لیے معروف تھے، انہوں نے آٹھ نعتیں بھی ریکارڈ کرائیں۔
مناڈے کا اصل نام پربودھ چندر (Prabodh Chandra) تھا، تھیئٹر میں منّا کے نام سے جانے جاتے تھے سو یہ نام عمر بھر ان کے ساتھ رہا۔ یکم مئی 1919 کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اندوببور پاٹھ شالا سے حاصل کی، سکاٹش چرچ کالجیٹ اسکول سے میڑک اور گریجوایشن ودیا ساگر کالج سے کی۔ منا ڈے کا مزاج اس حوالے سے بوقلموں قرار پاتا ہے کہ جہاں ایک طرف ان کے اندر ایک پہلوان اور باکسر موجود تھا تو دوسری طرف ایک من موجی گلوکار بھی تھا۔ وہ پرائمری اسکول میں تھے تو اپنے گانے کی صلاحیت کا اظہار اپنے ہم جولیوں کی فرمائش پر ٹیبل بجا کر کیا کرتے تھے، اس کے ساتھ ہی اکھاڑے میں دیسی کشتی کے رموز اور باکسنگ (مکے بازی) بھی سیکھا کرتے۔ ان کھیلوں میں بھی انہوں نے اپنے تعلیمی اداروں کا نام روشن کیا۔
ابھی چھوٹے ہی تھے کہ چچا کے سی ڈی نے گانے کی باقاعدہ تربیت دینا شروع کر دی۔ مناڈے نے بھی اپنے مہربان چچا کو مایوس نہیں کیا اور خوب دل لگا کر سیکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب یہ کالج پہنچے تو ایک طرف باکسنگ اور کشتی کے میدان میں جھنڈے گاڑتے تو دوسری طرف موسیقی کے انٹر کالجیٹ مقابلوں میں حریفوں کو پچھاڑتے۔ موسیقی کے سالانہ انٹرکالجیٹ مقابلوں میں مسلسل تین سال تک اول آتے رہے۔
کالج سے فارغ ہونے کے بعد اپنے چچا کی معاونت کرنے لگے جو اس وقت فلموں میں گاتے اور موسیقی ترتیب دیا کرتے تھے۔ چچا کچھ عرصے تک بھتیجے کی تربیت کیا کیے، دیکھا کہ باصلاحیت ہے تو اپنے لائق شاگرد ایس ڈی برمن کے حوالے کر دیا۔ یہ 1942 کا برس تھا۔ منا ڈے نے گانے کی ریاضت کبھی ترک نہ کی، ایس ڈی برمن کے علاوہ چچا نے انہیں وقت کے باکمال اساتذہ استاد دبیر خان، استاد امان علی خان اور استاد عبدالرحمٰن خان سے بھی تربیت دلوائی۔ 1942 کے بعد انہوں نے اپنے طور پر کام کا آغاز کیا۔
پلے بیک سنگر کے طور پر ان کے کیریئر کا آغاز 1943 میں فلم ''تمنا'' سے ہوا۔ اس فلم کی موسیقی کے سی ڈے ہی نے ترتیب دی تھی۔ ان کے ساتھ ہم آوازی کا فریضہ اُس زمانے کی بہت ہی مقبول و حسین مغنیہ ثریا نے انجام دیا۔ یہ دوگانے نشر ہوئے تو مناڈے بھی راتوں رات پورے برصغیر میں گونجنے لگے، سننے والوں نے ان کی آواز کی انتہائی پذیرائی کی۔ اس کے بعد انہیں فلم مشعل میں گانے کا موقع ملا۔ اس فلم کی موسیقی ایس ڈی برمن نے ترتیب دی تھی، جو اپنے فن کے ماسٹر تھے، وہ فلم کی کسی ایک سیچوایشن کے لیے موسیقی نہیں دیا کرتے تھے بل کہ پوری فلم کا تھیم اپنے اوپر طاری کرکے دھن بناتے تھے۔
اس فلم کا ایک گانا ہے ''اوپر گگن وشال؛ نیچے گہرا پاتال''، یہ مچھیروں کا گانا ہے، جو سمندر میں کام کر رہے ہیں، اس گانے کی موسیقی کی گمبھیرتا کمال ہے، گانا سنتے وقت احساس ہوتا ہے کہ جیسے سمندر پر کوئی نیم روشن اور نیم تاریک سمے طاری ہے اور پس منظر سے ''آ ۔۔۔ ہا، آ ۔۔۔ ہا'' کی آوازیں سمندر کے پاتال سے گونج رہی ہیں، ان آوازوں کی رہ نما آواز منا ڈے کی ہے، جو اس خوبی سے ریکارڈ کی گئی ہے کہ لگتا ہے یہ گگن اور سمندر کے پاتال کے درمیانی منطقے سے پھوٹ رہی ہے۔
اس گانے کے رموز کو سمجھنے کے لیے سامع کے کانوں کا انتہائی حساس ہونا ضروری ہے۔ یہ فلم ممتاز ہدایت کار نِتن بوس نے لکھی اور ڈائریکٹ کی، ہیرو اس کے اشوک کمار اور ہیروئن سمترا دیوی تھی۔ یاد رہے کہ نِتن بوس بے مثل فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر، سکرین رائیٹر، رائیٹر، میوزک ڈائریکٹر اور گیت نگار ستیا جیت رے کے کزن تھے۔ 1952 میں منا ڈے کی آواز فلم امربھوپالی کے لیے حاصل کی گئی، یہ فلم دو زبانوں بنگالی اور مراٹھی میں بنائی گئی تھی، دونوں زبانوں کے گانے منا ڈے ہی نے گائے۔ یوں تو دونوں گانوں کو پذیرائی ملی لیکن بنگالی میں گائے گئے گیت نے انہیں بنگالی کا بڑا مغنی قرار دلوا دیا۔
منا ڈے کو ''ورسٹائل سنگر'' مانا جاتا ہے، ایک ایسا مغنی جس کی کوئی دوسرا گلوکار نقل نہیں کر سکتا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ منا ڈے اپنے وقت کے تمام لیجنڈ گلوکاروں محمد رفیع، کشور کمار، مکیش وغیرہ کے گانے بڑی سہولت سے گا لیتے تھے لیکن منا دا کے اپنی مخصوص تیکینک میں گائے ہوئے گانے ان میں سے کوئی بھی نہیں گا سکتا تھا۔ رفیع مرحوم نے ایک بار ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا ''مجھے ایک زمانہ سنتا ہے لیکن خود میں سوائے منا ڈے کے کسی اور کو نہیں سنتا''۔ یہ ایک بہت بڑے گلوکار کا خراجِ تحسین ہے۔
یہ بھی مانا جاتا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں منا ڈے سے زیادہ تربیت یافتہ گلوکار اور کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے تمام قابل ذکر ہم عصروں کے ساتھ گایا اور ایسے گانوں میں نقادوں سے اپنی برتری کو منوایا۔ وہ خالص کلاسیکی موسیقی میں بھرپور مزاح پیدا کرنے کی ایسی صلاحیت رکھتے تھے، جس سے ان کا کوئی ہم عصر متصف نہیں تھا۔ وہ سروں کا ایسا تال میل بناتے تھے کہ سننے والا ہنس ہنس کر دوہرا ہو جاتا تھا لیکن کمال یہ ہے کہ وہ راگ کی شکل بگڑنے نہیں دیتے تھے، مثال کے طور پر فلم پڑوسن کا مقبول ترین گانا ''اک چتر نار، کرکے سنگھار'' ہے، جس میں کشور کمار نے ان کا ساتھ دینے کی کوشش کی ہے۔
اس فلم میں ایک طرف کشور کمار نے خود مزاحیہ اداکاری بھی کی ہے جب کہ منا دا کی آواز اپنے وقت کے عظیم مزاحیہ اداکار محمود خان پر فلمائی گئی ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے فلم بوٹ پالش کا گانا ''لپک جھپک تو آرے بدروا'' ہے۔ یہ گانا منا ڈے کی سولو پرفارمنس ہے اور ڈیوڈ پر فلمایا گیا ہے۔ اس میں ایسے ایسے تان پلٹے لگے ہیں کہ سننے والا کے ہنس ہنس کر ہیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں، اس پر ڈیوڈ کی بے مثال اداکاری الگ۔ یہ ہی نہیں منا دا نے غزل گائیکی میں بھی اپنا لوہا منوایا مثال کے طور پر مجروح سلطان پوری کی طویل بحر کی غزل ''ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے''، جب رومانٹک گیت ''کون آیا مرے من کے دوارے پایَل کی جھنکار لیے'' گایا تو ان کی آواز ایسی سلکی ہو گئی کہ لوگ طلعت محمود کو بھول گئے۔
منا ڈے نے کلاسیکی موسیقی کو پاپ میوزک میں بھی ڈھالا۔ بنگالی فلمی صنعت میں انہوں نے لیجنڈری ہیمنت کمار جیسے موسیقاروں کے ساتھ گایا، باقی گلوکار عوام کے لیجنڈ کہلاتے ہیں اور منا ڈے گلوکاروں کے لیجنڈ تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں چار ہزار سے زیادہ گانے بھارت کی قریب قریب ایک درجن زبانوں میں گائے۔ انہیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے بھارت کے ایک سو موسیقاروں کے ساتھ گایا، وہ سؤرگ باشی ہونے سے دو برس قبل تک ہندوستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں پرفارم کرتے رہے۔
پدم بھوشن اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور بے شمار دوسرے اعزازات حاصل کرنے والے منا ڈے کے اندر بلا کا عجز تھا۔ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا ''میں کیا گاتا ہوں بابا، رفیع ۔۔۔ رفیع بلاشبہ عظیم گلوکار ہے اور بھارت میں اگر کسی آواز کو سنہری آواز قرار دیا جائے تو وہ ہیمنت کمار جی ہیں''۔ کشور کمار کے بارے میں کہتے تھے ''کشور ایک پیدائشی جینئس ہیں لیکن ایک حد تک گلوکار ہیں، مکیش کی نیزل (غُنّی) آواز ناقابل فراموش ہے اور طلعت محمود کی آواز کا ریشم ابھی تک لمس نایافتہ (Untouched) ہے، میں کیا گاتا ہوں!''
1964 میں چیتن آنند کی فلم حقیقت کا ایک گانا ریکارڈ کیا جا رہا تھا یہ گانا آج بھی مقبول ہے، بول ہیں ''ہو کے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہو گا''۔ اس کی موسیقی مدن موہن نے دی اور بول کیفی اعظمی کے ہیں۔ اس گانے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اپنے وقت کی تین بڑی آوازیں رفیع، طلعت محمود اور منا ڈے شامل تھیں جب کہ بھوپندر کا یہ پہلا فلمی گانا تھا، یہ ایک بہت ہی الگ نوعیت کا تجربہ تھا۔ چاروں نے اپنی بہترین پرفارمنس دی، ایسی کہ جب گانا ختم ہوا تو بڑی دیر تک سناٹا سا طاری رہا لیکن منا ڈے کی ادائی پر رفیع کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور جب وہ بولنے کے قابل ہوئے تو خراجِ تحسین یوں ادا کیا بھی ''منا دا آپ لاجواب ہیں''۔ آنند جی (کلیان جی/ آنند جی معروف جوڑی کے ایک رکن) کہتے ہیں وہ اپنے سب سے طاقت ور حریف رفیع کے بارے میں اکثر کہا کرتے تھے ''رفیع حیرت انگیز ہے، آنند میں غلط تو نہیں کہ رہا؟ یہ غائبانہ خراجِ تحسین وہ رفیع مرحوم کی غیر موجودی میں اکثر ادا کیا کرتے تھے۔
منا ڈے کے چچا پورے گلے سے گایا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے گانے سے کئی بار مائیکرو فون خراب ہوئے۔ وہ بھتیجے کو بمبئی لے گئے۔ وہاں ایک فلم رام راجیا میں سیج والمیکی انداز میں گانے کے لیے ان کی آواز درکار تھی۔ سیج والمیکی وہ شخصیت ہے جس نے قبل مسیح میں سنس کرت زبان میں عظیم رزمیہ ''رامائن'' لکھا۔ فلم ساز وجے بھٹ نے سینیئر ڈے سے گانے کی درخواست کی، مہربان چچا نے ان سے کہا کہ وہ منا ڈے کی آواز استعمال کر لیں، وجے بھٹ نے گو مہ گو کے سے انداز میں ان کی پیش کش قبول کر لی لیکن جب منا ڈے نے ریکارڈنگ کروا لی تو وہ بہت حیران ہوا کہ ایک نوجوان جو محض 22 سال کا ہے، کیسے ایک عمر رسیدہ کردار کے لیے اپنی آواز کو موزوں کر لیتا ہے، اس گانے کے ان کو ڈیڑھ سو روپے ملے جو 1941 میں ایک خطیر رقم بنتی ہے تاہم اس میں قباحت یہ ہو گئی کہ ان کی آواز کو بڑی عمر کے کرداروں کے لیے مختص کردیا گیا اور اس قباحت نے انہیں آنے والے بہت سارے برسوں تک لپیٹ میں لیے رکھا حال آں کہ ان کے مقابلے میں مکیش کی آواز میںتکان کا تاثر کہیں زیادہ ہے۔
منا دا چاہتے تھے کہ نوجوان کرداروں کے لیے بھی ان کے گانے لیے جائیں۔ 1953 میں فلم پرینیتا (Parineeta) بن رہی تھی تو ان سے ''چلی رادھے رانی'' گوایا گیا، یہ سمجھے کہ گانا فلم کے ہیرو اشوک پر ہے لیکن جب فلم دیکھی تو معلوم ہوا کہ ان کی آواز بہ دستور ایک عمر رسیدہ کردار کے لیے استعمال کی گئی ہے، یہ فلم بمل رائے نے بنائی تھی۔ اسی طرح جب راج کپور کی فلم بوٹ پالش کے لیے ان کا گانا، جو بہت مقبول ہوا، ''لپک جھپک تو آرے بدروا'' ریکارڈ ہوا تو گانے کی شوخی دیکھ کر وہ بڑے خوش ہوئے کہ چلو اس بار تو خواہش پوری ہو گی ہی لیکن یہ گانا بھی ڈیوڈ پر فلمایا گیا تھا، جو بہت ہی عمر رسیدہ تھے۔ ہندی اور اردو فلموں میں ایسے گانے خاص طور پر منا دا کے خانے میں ڈال دیے جاتے تھے لیکن ایسا نہیں کہ ان کی آواز نوجوان کرداروں کے لیے استعمال ہی نہیں کی گئی، ''زندگی کیسی ہے پہیلی ہائے'' کی طرح کے ان کے بے شمار گانے ہیں جنہوں نے مقبولیت اور پذیرائی کے ریکارڈ قائم کیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود فلموں کے ہیرو بھی ان کا گانا لینے سے ہچکچاتے تھے۔
دلیپ کمار سے لے کر راجیش کھنا تک طلعت محمود، رفیع اور کشور کمار کی آوازوں کو ترجیح دیتے تھے۔ بوڑھے کرداروں کے علاوہ ان کو وہ گانے بھی دیے جاتے تھے جو ایسے مشکل ہوتے تھے کہ موسیقاروں کو منا دا کے سوا دوسرا کوئی گانے کا اہل دکھائی ہی نہیں دیتا تھا، ''کیتکی، گلاب، جوہی، چمپک بن پھولے'' اس کی محض ایک مثال ہے، جو منا دا نے فلم ''بسنت بہار'' کے لیے عظیم گلوکار بھیم سین جوشی کے مقابل گایا اس کے علاوہ کلاسیکی گانے بھی ان ہی کے دامن میں ڈالے جاتے تھے، خود منا دا کا کہنا تھا کوئی ایسا گانا نہیں جو کلاسیکل نہ ہو، محض انداز اور تکے سے زیادہ دیر تک نہیں گایا جا سکتا، سارے گا ما پا دھا نی ہوم ورک ہے یہ کرنا ہی پڑتا ہے اور اب جب وہ نہیں رہے تو ان کا گانا برصغیر بھر میں گانے والوں کے لیے ہوم ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان کی سوانح عمری Jaboner Jalsaghorey ، انگریزی میں Memories come True اور اردو میں ''یادیں جی اٹھیں'' کے نام سے شائع ہو چکی ہے، اس میں ایک دل چسپ واقعہ انہوں نے بیان کیا ہے، ''ایک بار ایک میوزک پروڈیوسر صاحب تشریف لائے اور کہنے لگا ہم آپ کے پرانے گانے، نئے انداز سے ریکارڈ کرنے آئے ہیں، میں نے پوچھا وہ کیسے؟ اس پر اس ستم ظریف نے میرا ایک نیم کلاسیکل گانے ''چھم چھم باجے رے پایلیا'' کا میرے سامنے مغربی بیس، کی بورڈوں اور ڈرم سیٹ کے ساتھ گانے کا مظاہرہ کر دیا، دو بول انہوں نے گا، سچ یہ ہے کہ یہ بڑا ہی بھیانک تجربہ تھا، میں نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں اور دونوں ہاتھ ان صاحب کے سامنے جوڑ دیے کہ بھائی مجھے معاف کر دو، میں اپنے پیارے بچوں کو ذبح نہیں کر سکتا''۔ جب انہوں نے ڈی جے سنی کا البم سنا، جو ان کے مشہورِ زمانہ گانے ''اے مری زہرہ جبیں!'' کے عنوان سے جاری کیا گیا تھا اور جس میں سنی نے ان کے متعدد گانے گائے ہیں، اس پر منا دا کا تبصرہ تھا ''بھئی! اس نے بھی تو روزی کمانی ہے، میرے گانے گا کر اس کی ضرورت پوری ہوتی ہے تو کچھ مضائقہ نہیں۔''
منا دا نے اپنی زندگی میں پدم شری ایوارڈ، پدم بھوشن ایوارڈ، دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور لائیف ایچیومنٹ ایوارڈ اور بے شمار دوسرے اعزازات حاصل کیے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کون سا ایوارڈ حاصل کرکے انہیں فخر ہوا تو برجستہ بولے ''سلوچنا''۔ سلوچنا ڈے ان کی اہلیہ تھیں جو گزشتہ برس سرطان میں مبتلا ہو کر سؤرگ باش ہو چکی تھیں۔ دونوں کی ملاقات رابندر جے ونتی میوزک فنکشن میں ہوئی تھی۔ اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد وہ انتہائی دل زدہ ہو گئے تھے اور زیادہ دیر زندہ نہ رہ پائے اور پھر 24 اکتوبر کو علی الصبح وہ اپنی سلوچنا کے پاس سدھار گئے، ان کے تین پس ماندگان ہیں ایک بیٹی سمیتا، دوسری بیٹی شروما اور سب سے چہیتی اور نہ مرنے والی بیٹی ان کی مدھر آواز۔