کل کی بچیاں… آج کی عورتیں معاشرہ انھیں اپنے دامن میں سمو سکے گا

لائبیریا میں 40 ہزار کے لگ بھگ بچے جنگ کا ایندھن بنے ان میں لڑکیوں کی بھی قابل ذکر تعداد شامل ہے۔


Khurram Mansoor Qazi November 03, 2013
بطور جنگجو کمانڈر خواتین نے جو سیکھا اس سے جان چھڑانا ان کے لئے جوکھم کا کام ہے۔ فوٹو : فائل

بازار میں چلتے چلتے اچانک اس نے جست لگائی اور ایک مرد کو دبوچ کر سڑک پر پٹخ دیا۔

پھر اس نے موٹر سائیکل کے ہیلمٹ سے اس اس کے سر پر پے درپے ضربیں لگائیں،اس دوران اس کے منہ سے مغلظات کا طوفان امڈتا رہا اور وہ اس شخص کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتی رہی۔ راہگیروں نے بیچ بچائو کروایا اور انھیں الگ کیا مگر میری گال کا غصہ تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ اس نے پولیس کو فون کر کے بلایا اور پھر اس کی مٹھی گرم کر کے اس شخص کو جیل بھجوا دیا۔ اب اس کے چہرے پر کچھ سکون کے آثار تھے۔ وہ نخوت بھرے انداز میں گویا ہوئی ''اس جیسے چوہے میرے سامنے کیسے ٹِک سکتے ہیں،میں ان سے بہتر ہوں،کیونکہ جنگ کے دوران یہ اپنے بِلوں میں گھسے رہے جبکہ میں ایک اول درجے کی جنگجو کمانڈر ہوں۔ اصل میں، میں مرد اور یہ عورت ہے۔''

میری گال ان ہزاروں خواتین میں سے ایک ہے کہ جو لائبیریا کی خونی جنگ میں پل کر جوان ہوئیں اور اب جنگ کے خاتمے کے بعد وہ ماضی اور حال کے درمیان اٹک کر رہ گئی ہیں۔ ماضی ان کے لئے ایک بھیانک خواب ہے تو حال بھی ان کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں۔ نہ تو وہ ماضی سے پیچھا چھڑا سکتی ہیں اور نہ ہی حال کو مکمل طور پر قبول کر سکتی ہے۔ برسوں پر محیط خانہ جنگی نے ان کی نفسیات پر کچھ ایسے منفی اثرات مرتب کئے ہیں کہ وہ ''آدھا تیتر اور آدھا بٹیر'' کی مثال بن کر رہ گئی ہیں۔

میری گال سمندر کے کنارے ایک گندے مندے شراب خانہ کی مالک ہے۔ وہ دو بچیوں کی ماں ہے۔ اس کا ایک بوائے فرینڈ بھی ہے لیکن اس نے آج تک شادی نہیں کی۔ وہ خود کو عورت نہیں مرد سمجھتی ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ چونکہ وہ خونی جنگ کا ایک متحرک حصہ رہی ہے اس لئے وہ عورت نہیں مرد ہے۔ میری گال نے شراب خانے اور گھریلو کام کاج کے لئے ایک دس سالہ لاوارث لڑکی رکھی ہوئی ہے۔

یہ لڑکی اسے جنگ کے خاتمے پر ایک ویران گھر میں پڑی ہوئی ملی تھی۔ میری نے اسے اپنا لیا۔ کہنے کو تو وہ اسے اپنی بیٹی ہی گردانتی ہے مگر چھوٹی چھوٹی غلطی پر وہ اسے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتی ہے جبکہ لڑاکا اور جھگڑالو گاہکوں سے نپٹنے کے لئے وہ ان آوارہ لڑکوں کا استعمال کرتی ہے کہ جو اس کے بار کے اردگرد بلامقصد منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہ لڑکے میری کے ایک اشارے پر ناپسندیدہ گا ہکوں کی لاتوں اور مکوں سے خوب خبر لیتے ہیں۔

میری صرف 2 برس کی تھی تو ملک میں جنگ چھڑ گئی۔ اس کے ماں باپ میں علیحدگی ہو چکی تھی اور معاشی تنگدستی کی وجہ سے میری کو اس کے باپ کے پاس بھیج دیا گیا۔ میری کا باپ دوسری شادی کر چکا تھا۔ میری کی سوتیلی ماں اسے خوب مارتی جبکہ اس نے میری کو سکول سے ہٹا کر بازاروں میں چکن بیچنے پر لگا دیا ۔ گھر کے بیشتر کام اسے ہی کرنے پڑتے اور جب وہ نافرمانی کرتی تو اس کی سوتیلی ماں اور سگا باپ اس کے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر اس کی آنکھوں میں کالی مرچیں ڈال دیتے اور پھر اسے سسکنے کے لئے کڑی دھوپ میں چھوڑ دیا جاتا۔

جب میری کچھ بڑی ہوئی تو اپنی دادی کے ساتھ رہنے لگی مگر یہاں کی پابندیاں اس کی آزاد طبیعت کو راس نہ آئیں۔ 13سال کی کم عمری میں ہی میری ماں بھی بن گئی۔ اس نے شادی کئے بغیر ہی ایک 25 سالہ مرد سے تعلقات استوار کر لئے تھے جس کا نتیجہ ایک بیٹی کی پیدائش کی صورت میں برآمد ہوا مگر میری کی والدہ اس سے بیٹی کو چھین کر لے گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ میری صحیح اطوار پر بچی کی پرورش کرنے کے قابل نہیں ہے۔ پھر میری کی والدہ نے گھانا جانے کا ارادہ کیا تاکہ جنگ کی حشرسامانیوں سے محفوظ رہا جا سکے مگر میری نے گھانا جانے کے بجائے گھر سے بھاگنے کو ترجیح دی اور یوں وہ اپنے علاقے ''پوٹوکارنر'' میں اکیلی ہی رہ گئی جبکہ اس کا خاندان وہاں سے کوچ کر گیا۔

بچپن کے زمانے میں میری گال نے ''مونورویا'' نامی قصبے کے قرب میں قائم ٹریننگ کیمپ کے باہر ایک مضبوط اور توانا مسلح عورت کو انتہائی تفاخر سے چہل قدمی کرتے دیکھا تھا۔ یہ منظر میری کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا تھا اور وہ خود کو بھی ایک ایسی ہی جنگجو عورت کے روپ میں دیکھنے لگی تھی۔ خاندان کے کوچ کر جانے کے بعد میری ایک مقامی جنگجو کمانڈر سے ملی اور اسے جنگجو بننے کی خواہش کا اظہار کیا جسے فوراً قبول کر لیا گیا۔ یہاں سے اسے ''ناسا'' میں قائم جنگی کیمپ جیکسن میں لے جایا گیا جہاں اسے جنگ اور اسلحہ سے متعلق بنیادی تربیت دی گئی۔

اپنی پہلی جنگی مہم کے دوران میری پر خوف طاری رہا۔ پہلے پہل تو گولیوں ور بموں کی آوازیں اس پر لرزہ طاری کر دیتیں مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ عادی ہوتی چلی گئی۔ اس کے جسم پر گولیوں کے چھید کے دو نشانات بھی واضح ہیں۔ ایک گولی تو اس کی ریڑھ کی ہڈی کو چھو کر گزر گئی اور وہ ہمیشہ کے لئے معذور ہوتے ہوتے بچی جبکہ میری نے اپنے جسم پر جنگ سے متعلق ٹیٹو بھی کھدوا رکھے ہیں جو اس کی شدت پسندی کے مظہر ہیں۔

اتنی کم عمری میں ہی میری نے ایسے ایسے روح فرسا مناظر دیکھے اور ایسے ظالمانہ کارنامے انجام دیئے کہ جو اب اس کی راتوں کی نیند اور دن کے سکون کے لئے زہر قاتل کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ مخالفین کے جسمانی اعضاء کو تن سے جدا کرنا' گرم سلاخوں سے داغنا' حاملہ عورتوں کو شرط لگا کر قتل کرنا کہ اس کے پیٹ میں لڑکی ہے یا لڑکا' نوجوان لڑکیوں کو بھینٹ کے لئے موت کے گھاٹ اتارنا' دشمن کی زندہ حالت میں کھال اتارنا اور اس طرح کے بے شمار انسانیت سوز مظالم میری کے ماضی کا حصہ ہیں۔ میری کے علاوہ بھی بے شمار بچیوں اور لڑکیوں نے اپنی کہانیاں سناتے ہوئے بتایا کہ انہیں انسانوں کو کاٹنے' پکانے اور کھانے کے لئے مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ ان میں سے بعض کے سامنے ان کے گھر والوں اور رشتہ داروں کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ۔ لڑکیوں کی عصمت دری کی جاتی اور وحشیانہ تشدد کیا جاتا بلکہ انتہائی حدود کو چھوتے ہوئے ایک ہی خاندان کے افراد کو ایک دوسرے پر تشدد اور قتل و غارت پر مجبور کیا جاتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ غیرانسانی افعال کے دوران انہیں رونے یا ماتم کرنے کی اجازت بھی نہ ہوتی بلکہ انہیں ہنسنے اور قہقہے بلند کرنے کے احکامات دیئے جاتے اور اگر کسی کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے تو بطور سزا اس کی آنکھیں نکال لی جاتیں۔

2003ء میں میری کے کیمپ پر مخالف جنگجوؤں نے ایک بڑا حملہ کیا جس میں کئی لڑکیاں ماری گئیں جبکہ میری نے ہتھیار ڈال دیئے۔ میری کو گرفتار کر کے اس پر کئی دن تک تشدد کیا جاتا رہا اور پھر اسے اس شرط پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ ان کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لے گی۔ میری کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ اس کا کوئی سیاسی مقصد تھا اور نہ ہی اس کی کسی جنگجو گروہ کے ساتھ مستقل ہمدردیاں وابستہ تھیں۔ اس کا مقصد صرف جنگ لڑنا' قتل وغارت کرنا اور انارکی پھیلانا تھا تاکہ اس کی اپنی ذات محفوظ رہے۔



اس گروہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے میری پکڑے گئے گرفتار شدہ مخالفین کے کان اور ہاتھ پاؤں کی انگلیاں کاٹتی اور دیگر ارکان کے ساتھ مل کر انسانوں کی کھالیں بھی اتارتی رہی۔ پھر ایک دن ایک بہت بڑے حملے کے دوران کہ جب جنگ اور قتل و غارت عروج پر تھی میری آنکھ بچا کر وہاں سے بھاگ نکلی اور اپنے گھر آ گئی۔ یہ جنگ کے آخری دن تھے۔ پھر حکومت اور باغیوں کے درمیان سمجھوتے کے نتیجے میں کئی جنگجو مرد وخواتین نے ہتھیار ڈال دیئے۔ میری بھی ان ہتھیار ڈالنے والوں کی فہرست سے شامل تھی۔

اس نے اپنی AK-47 رائفل اور آر پی جی لانچر حکومتی اہلکاروں کے حوالے کئے اور سمندر کنارے شراب خانہ کھول لیا۔ میری کے والد کا کہنا ہے کہ ''میری ایک بری لڑکی ہے اور وہ اس کا باپ ہونے پر شرمسار ہے۔ میری کو چاہئے کہ وہ شراب خانے کو الوداع کہہ دے۔ اپنے لئے کچھ اچھے کپڑے سلوائے' میرے ساتھ باقاعدگی سے چرچ جائے اور شرافت کی زندگی بسر کرے۔'' میری کی والدہ پیٹریشیا جنگ کے خاتمے کے بعد 2008ء میں گھانا سے واپس آ گئی۔ پیٹریشیا کہتی ہے ''جہاں میری رہتی ہے وہ جگہ بچوں کے رہنے اور پلنے بڑھنے کے لئے بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔

میں نے میری سے اس کی بڑی بیٹی چھین لی ہے کیونکہ میری کے ساتھ رہ کر اس کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ میں میری کو اس کی بڑی بیٹی واپس نہیں کروں گی بلکہ میں تو میری کی دوسری بیٹی کو بھی اپنے پاس لانا چاہتی ہوں تاکہ وہ ایک اچھی اور کارآمد شہری بن سکے۔ میں چاہوں گی کہ میری بھی اپنی بری زندگی ترک کر دے۔ اسے وہ بری جگہ بھی چھوڑ دینی چاہئے تاکہ اس کی بچیوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔'' مگر میری اپنے والدین کے خیالات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ میری کے مطابق ''میں اس شراب خانے سے مہینے کے تقریباً 45 ڈالر کما لیتی ہوں جو میرے اور میری بچی کی گزر بسر کے لئے کافی ہے۔

میں جب اپنے اردگرد دیکھتی ہوں تو مجھے کوئی ایسا شخص یا عورت نظر نہیں آتی جو مجھے نقصان پہنچا سکے۔ میں یہاں اپنوں کے درمیان ہوں۔ مجھے کوئی خوف نہیں اس لئے میرے لئے یہ جگہ چھوڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔'' مگر جنگ و جدل اور قتل و غارت گری سے بھرا میری کا ماضی اسے چین نہیں لینے دیتا۔ وہ بظاہر خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتی ہے مگر اس کی راتیں اور تنہائی' بے چینی' بے کلی اور کسی حد تک پچھتاوے سے بھری ہوئی ہیں۔

جنگ کے اختتام پر خواتین کی حالتِ زار
ایک اندازے کے مطابق 40 ہزار کے لگ بھگ بچے لائبیریا کی جنگ کا ایندھن بنے۔ ان میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی قابل ذکر تعداد میں ہیں۔ ان بچوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونکا گیا جبکہ قلی' باورچی' جنسی تسکین اور دیگر کاموں کے لئے بھی انہیں ہی استعمال کیا گیا۔ ان کے ساتھ جو ہوا اور جو انہوں نے کیا اور دیکھا وہ ایک ایسی وحشت ناک حقیقت ہے کہ جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر اب یہ بچے بڑے ہو چکے ہیں، کیا وہ اپنے ماضی کو بھلا کر زمانہ امن میں عام شہریوں کے ساتھ گھل مل جانے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کے لائبیریا کے مستقبل پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔

بلاشک لڑکوں اور لڑکیوں دونوں پر اس کے اثرات انتہائی مہلک ہیں مگر لڑکوں کی نسبت لڑکیاں جو اب عورتیں بن چکی ہیں' پر جنگ کے اثرات زیادہ مہلک اور خوفناک ہیں۔ دوران جنگ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح اتنی بلند رہی کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 60یا 90 فیصد خواتین کی عصمت دری اور گینگ ریپ کیا گیا۔ ان تمام واقعات کے خواتین کی نفسیات پر گہرے' انمٹ اور منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ خواتین چاہیں بھی تو اس خون آشام ماضی سے مکمل طور پر نہیں کٹ سکتیں۔

گولیوں اور بموں کی گھن گرج اور مخالفین پر انسانیت سوز مظالم ایسے عوامل ہیں کہ جو ان کی نفسیات پر ثبت ہو چکے ہیں اور زندگی بھر کا روگ ثابت ہو رہے ہیں۔ پھر جب حکوتی یا کسی سطح پر بھی جنگجو بچوں کے متعلق بحث چھڑتی ہے تو حاضرین کی غالب تعداد اسے لڑکوں کے متعلق ہی سمجھتی ہے جبکہ لڑکیوں اور ان کی قربانیوں اور ان پر ہونے والے مظالم کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ یہ نکتہ بھی ان جنگجو خواتین کی فلاح و بہبود کی کاوشوں میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ جنگ کے بعد مختلف ایجنسیوں اور حکومتوں کی جانب سے ان بچوں اور اب خاص کر خواتین کو معاشرے میں ضم کرنے کے لئے کاوشیں جاری ہیں مگر ان خواتین کی غالب تعداد نارمل زندگی گزارنے سے قاصر ہے کہ جس بربریت کا وہ شکار ہوئیں یا انہوں نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا' اسے بھلانا ان کے لئے ناممکن ہے۔

بطور جنگجو کمانڈر انہوں نے جو سیکھا اس سے جان چھڑانا ان خواتین کے لئے جوکھم کا کام ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جنگ کے بعد خواتین کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ مردوں نے تو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد حکومتی سطح پر ہی اپنے لئے مراعات حاصل کیں' عہدے حاصل کئے اور محفوظ مستقبل کی یقین دہانیاں حاصل کیں مگر اس سارے عمل میں خواتین کی ایک بہت بڑی اور غالب تعداد کو نظرانداز کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سی جنگجو خواتین گندے مندے علاقوں میں بے یار و مددگار زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کو گزر بسر کے لئے جسم فروشی کرنا پڑتی ہے یا پھر چوری چکاری اور ٹھگ بازی وغیرہ سے کام چلانا پڑتا ہے۔ یہ خواتین اس حد تک کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کہ وہ خود کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھتی ہیں۔

ان کا ماضی ان کے حال کے ساتھ چمٹ کر رہ گیا ہے۔ ان کو معاشرے کے عام لوگ قبول نہیں کرتے اور ان کے گھناؤنے ماضی کی وجہ سے ہی ان کو شادی کرنے یا گھر بسانے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا کیونکہ عام شہریوں کی سوچ کے مطابق بطور خواتین انہوں نے آخری حد سے بھی تجاوز کیا ہے اور اب وہ کبھی بھی پرسکون گھریلو زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہو سکتیں۔ ان کو نوکریاں بھی نہیں ملتیں کیونکہ ان کے جارحانہ رویے انہیں اس کام کے لئے موزوں قرار نہیں دیتے۔ میری گال کے الفاظ میں اس حقیقت کو یوں سمو یا جا سکتا ہے ''جنگ کے دوران ہم لڑکیوں کو الو بنایا گیا' ہمیں دھوکہ دیا گیا اور آج جبکہ امن آ رہا ہے تو ہمیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ہمارا کیا بنے گا' میرے خیال میں ہمارا کچھ نہیں بن سکتا۔ سسک سسک کر زندگی گزارنا ہی ہمارا مقدر ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں