موٹر ڈیلرز نے کسٹم جنرل آرڈر کیخلاف وزیراعظم سے مدد مانگ لی
استعمال شدہ گاڑیاں حکومت کے لیے ریونیوکے حصول کابھی اہم ذریعہ ہیں
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن نے کسٹم جنرل آرڈر 13/2012کو مسترد کرتے ہوئے وزیر اعظم راجاپرویز اشرف کوموقف سے آگاہ کرنے کیلیے ہنگامی مراسلہ ارسال کردیاہے۔
مراسلے میںکہاگیا ہے کہ مقامی آٹو انڈسٹری کے حوالے سے گمراہ کن اعدادوشمارکی بنیاد پر استعمال شدہ گاڑیوں کیخلاف بے بنیادپراپیگنڈہ جاری ہے جس سے متاثرہوکرکسٹم جنرل آرڈر 13/2012جاری کردیاگیاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ مارچ2011میں بھی کسٹم جنرل آرڈر میںترمیم کی گئی اور60فیصدفرسودگی الائونس مقررکیاگیا اور تھوڑے ہی وقفے سے31اگست کوایک اور ترمیم کرکے کسٹم جنرل آرڈر جاری کردیاگیاجس کے بعدبیرون ملک سے استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان بھیجنے والے تارکین وطن اورکاروباری افرادمیںشدید بے یقینی اورتشویش پائی جاتی ہے۔
خط کے مندرجات بتاتے ہوئے ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے کہاکہ استعمال شدہ گاڑیوں پرفرسودگی الائونس میںکمی کے بعداستعمال شدہ گاڑیوں کی فروخت رک گئی ہے اورخریداروں سمیت ڈیلرز بھی تشویش میں مبتلا ہیں کسٹم جنرل آرڈر 13/2012کا اطلاق کسی طور پر قبول نہیں کیاجائیگا،ڈیلرز نے پورٹ پرکھڑی کاروںکی کلیئرنس روکنے کافیصلہ کیاہے اور فرسودگی الائونس میںکمی کا فیصلہ واپس نہ لیے جانے تک گاڑیاں کلیئرنہیںکروائی جائیں گی۔
انھوںنے بتایاکہ وزیر اعظم کو ارسال کردہ خط میں انھیں لوکل اسمبلرزکی حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، استعمال شدہ گاڑیاں حکومت کے لیے ریونیوکے حصول کابھی اہم ذریعہ ہیں،گزشتہ سال صرف استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے حکومت کو 33ارب روپے کاریونیوحاصل ہوا، استعمال شدہ گاڑیاں مقامی اسمبل گاڑیوں سے کم قیمت پر فروخت کی جارہی ہیںجس میں پریمیم یا اوون منی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ان گاڑیوں میں تمام سیفٹی فیچرز اور آلات شامل ہیں،استعمال شدہ کاریں اعلیٰ معیار کی حامل ہونے کی وجہ سے لوکل کاروں سے زیادہ مقبول ہیں اور اب تک ان کاروں کے بارے میں کوئی شکایت نہیں ملی ہے،خط میں کہا گیا ہے کہ مقامی اسملبرز کی جانب سے لوکلائزیشن اور وینڈر انڈسٹری سمیت روزگار کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کیے گئے جو حقیقت کے برعکس ہیں۔
مراسلے میںکہاگیا ہے کہ مقامی آٹو انڈسٹری کے حوالے سے گمراہ کن اعدادوشمارکی بنیاد پر استعمال شدہ گاڑیوں کیخلاف بے بنیادپراپیگنڈہ جاری ہے جس سے متاثرہوکرکسٹم جنرل آرڈر 13/2012جاری کردیاگیاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ مارچ2011میں بھی کسٹم جنرل آرڈر میںترمیم کی گئی اور60فیصدفرسودگی الائونس مقررکیاگیا اور تھوڑے ہی وقفے سے31اگست کوایک اور ترمیم کرکے کسٹم جنرل آرڈر جاری کردیاگیاجس کے بعدبیرون ملک سے استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان بھیجنے والے تارکین وطن اورکاروباری افرادمیںشدید بے یقینی اورتشویش پائی جاتی ہے۔
خط کے مندرجات بتاتے ہوئے ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے کہاکہ استعمال شدہ گاڑیوں پرفرسودگی الائونس میںکمی کے بعداستعمال شدہ گاڑیوں کی فروخت رک گئی ہے اورخریداروں سمیت ڈیلرز بھی تشویش میں مبتلا ہیں کسٹم جنرل آرڈر 13/2012کا اطلاق کسی طور پر قبول نہیں کیاجائیگا،ڈیلرز نے پورٹ پرکھڑی کاروںکی کلیئرنس روکنے کافیصلہ کیاہے اور فرسودگی الائونس میںکمی کا فیصلہ واپس نہ لیے جانے تک گاڑیاں کلیئرنہیںکروائی جائیں گی۔
انھوںنے بتایاکہ وزیر اعظم کو ارسال کردہ خط میں انھیں لوکل اسمبلرزکی حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، استعمال شدہ گاڑیاں حکومت کے لیے ریونیوکے حصول کابھی اہم ذریعہ ہیں،گزشتہ سال صرف استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے حکومت کو 33ارب روپے کاریونیوحاصل ہوا، استعمال شدہ گاڑیاں مقامی اسمبل گاڑیوں سے کم قیمت پر فروخت کی جارہی ہیںجس میں پریمیم یا اوون منی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ان گاڑیوں میں تمام سیفٹی فیچرز اور آلات شامل ہیں،استعمال شدہ کاریں اعلیٰ معیار کی حامل ہونے کی وجہ سے لوکل کاروں سے زیادہ مقبول ہیں اور اب تک ان کاروں کے بارے میں کوئی شکایت نہیں ملی ہے،خط میں کہا گیا ہے کہ مقامی اسملبرز کی جانب سے لوکلائزیشن اور وینڈر انڈسٹری سمیت روزگار کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کیے گئے جو حقیقت کے برعکس ہیں۔