خود احتسابی

ہم سب مسلمان ایک اﷲ، ایک کلمہ اور ایک کتاب کی بنیاد پر ایک مضبوط امت بن سکتے ہیں۔

ہم سب مسلمان ایک اﷲ، ایک کلمہ اور ایک کتاب کی بنیاد پر ایک مضبوط امت بن سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اﷲ تعالی نے انسانوں کو مختلف ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں سے نوازا ہے، جتنی مشقّت مزدور کرسکتا ہے اتنی تعلیم یافتہ نوجوان نہیں کرسکتا۔ جو ڈاکٹر میں خوبیاں ہیں وہ انجینیر میں نہیں ہوتیں۔ جن تحقیقی امور میں سائنس دان کو عبور حاصل ہے وہ سیاست دان میں موجود نہیں ہوسکتا۔ اس طرح سب ہی انسان کبھی بھی ایک سطح پر نہیں آسکتے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اور اس میں غیر معمولی خوبیاں پیدا کی ہیں۔

انسان اگر ایک طرف اپنے نفس کی پرستش میں درندہ صفت ہوجاتا ہے تو دوسری طرف اپنی خوبیوں کو بہ روئے کار لاکر امن پسند اور بہترین انسان بھی بن سکتا ہے۔ اﷲ نے انسان کو اچھے اور بُرے دونوں راستوں کی تمیز بھی بتائی ہے، برائی کے بُرے انجام اور اچھائی کے بہترین نتائج سے آگاہ کیا ہے کہ اگر انسان اپنے اندر نیکی اور اچھائی کو فروغ دے تو دنیا کی زندگی میں بھی پُرسکون رہے گا اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی پُرلطف اور بھرپور نئی زندگی پائے گا، جو کبھی ختم نہ ہوگی۔

صد افسوس کہ اسلام کی روشن تعلیمات اور خاتم النبیین ﷺ کی روشن ہدایات کے باوجود نہ جانے کیوں ہم اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو بھول گئے ہیں۔ کیوں ہم نے اپنی زندگی سے حلال اور حرام کی تمیز ختم کردی۔ کیوں کہ ہم اسلام کی روشن تعلیمات کو چھوڑ کر اغیار کی مادہ پرستانہ تہذیب کے دلدادہ اور اپنے نفس کے غلام بن گئے۔ جب کہ ہمیں اچھے اور برے راستوں کی پہچان سجھا دی گئی ہے تو ہم اچھے کاموں کو اپنانے اور برے کاموں کو ترک کرکے اعلیٰ انسان بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ کیوں ہمارے اندر بغض، کینہ، تعصب، چغلی، غیبت اور اس طرح کی بے شمار برائیاں پائی جاتی ہیں۔

اﷲ نے انسانوں کی راہ نمائی کے لیے اپنے برگزیدہ بندے رسولؑ اور نبی بنا کر بھیجے اور ان میں سے کئی پیغمبروں کو آسمانی صحیفے اور کتب بھی عطا فرمائیں تاکہ انسانوں کو دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد معلوم ہوسکے، مگر بعض انسانوں نے اپنی عقل کو استعمال نہیں کیا، انہوں نے تمام حقائق معلوم ہوجانے کے باوجود اپنے لیے مجموعی طور پر تباہی کا راستہ ہی اختیار کیا۔


یہی وجہ ہے کہ آج بُرے طریقوں کو اپنانے والے اکثریت میں موجود ہیں۔ لیکن اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا، لیکن ہدایت کی تمنا رکھنے والوں کے لیے انسانیت کا مکمل ضابطۂ حیات قرآن و سنت کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔ نیک بننے کے لیے شرط اول ایمان ہے اور جب تک کلمۂ طیبہ پر ایمان نہیں اور جب تک آخرت کا یقین نہ ہو تو نیکی اور بھلائی کا بدلہ نہ ختم ہونے والی زندگی میں کیسے مل سکے گا ؟ اس لیے غیب پر ایمان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جب روز حساب کا یقین ہوگا تبھی انسان برائی سے بچنے اور بھلائی کو اپنانے کی کوشش کرے گا۔

انسان کتنی ہی گم راہی میں لتھڑا ہوا ہو جس وقت اس کے دل میں یہ بات آگئی کہ اب مجھے سیدھے رستے پر چلنا اور برائی کے راستے سے بچنا ہے۔ اور پھر جب سچے دل سے وہ توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت اس کے شامل حال ہوجاتی ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں، اور اس کی ایک کام یاب زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک نو مسلم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرکے دنیا میں آنے کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے تو وہ ہم جیسے کم زور ایمان والوں سے زیادہ بہتر اﷲ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ بن جاتا ہے۔

ہمیں ایمان کی قدر اس لیے بھی نہیں کہ ہم تو مسلمان پیدا ہوئے ہیں، اب ہم نمازیں قائم کریں نہ کریں، ہم مسلمان ہیں۔ جھوٹ بولیں تب بھی ہم مسلمان ہیں۔ رشوت لیں پھر بھی ہم مسلمان۔ غرض یہ کہ ہمیں وراثت میں دین اسلام مل گیا، اب ہم اس پر جس طرح چاہیں عمل کریں، یہی ہماری بُھول ہے۔ اس کے بہ جائے ہمیں اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ ہم کتنا اپنے خالق کے احکامات پر عمل کرتے ہیں، اور پیارے نبی ﷺ کی کتنی اتباع کرتے ہیں۔

ہم سب مسلمان ایک اﷲ، ایک کلمہ اور ایک کتاب کی بنیاد پر ایک مضبوط امت بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو حقیقی فلاح و کام یابی کے حصول کے لیے نفسانی خواہشیں، کینہ، بغض، حسد کو ترک کرکے اپنی زندگی اسلام کی روشن تعلیمات کے مطابق گزارنے کا خود سے عہد کرنا چاہیے۔ خود کو ایسا بنانا چاہیے کہ ہمارے الفاظ اور کردار سے کسی بھی انسان کی دل آزاری نہ ہو۔ ہمیں خود کو ایسا بنانا چاہیے کہ ہم دوسروں کو اسلام کی جانب متوجہ کرنے، یعنی اسلام کی تبلیغ کے لیے اپنی زندگی کو بہ طور آئیڈیل اور نمونہ پیش کرسکیں۔
Load Next Story