کئی سڑکوں پر غیر قانونی چارجڈ پارکنگ ایریا قائم
کاروباری علاقوں میں سڑک پر گاڑیاں کھڑی کرنیکی فیس لی جانے لگی ،صدرمیں سرکاری پارکنگ ایریا فعال نہیں
ویسے تو کراچی کے اکثر علاقوں میں ٹریفک کے مسائل روزانہ کا معمول ہیں، خاص طور پر وہ علاقے زیادہ متاثر ہیں جو کاروباری مرکز ہوں یا جہاں کاروباری سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں اولڈ ایریا سب سے زیادہ متاثر ہے جو صدر سے ٹاور اور آس پاس کے علاقوں پر مشتمل ہے،یہ علاقے کراچی کے ضلع جنوبی میں واقع ہیں، ان علاقوں میں ٹریفک کے زیادہ مسائل ہونے کی بڑی وجہ روزانہ سب سے زیادہ گاڑیوں کی آمد و رفت کا ہونا اور پارکنگ کی جگہیں نہ ہونا ہے۔
کراچی کا اولڈ ایریا شہر کے کاروباری اور مصروف ترین علاقوں پر مشتمل ہے، جن میںمیکلوڈ روڈ کی شکل میں ایک بڑا تجارتی علاقہ واقع ہے جہاں اسٹیٹ بینک سمیت تمام سرکاری اور نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے صدر دفاتر موجود ہیں۔
اسی طرح اولڈ ایریا میں پاکستان کی سب سے بڑی اناج منڈی، ٹمبر مارکیٹ اور دیگر تجارتی مراکز واقع ہیں ان میں فریئر روڈ اور ایم اے جناح روڈ پر واقع ہول سیل کے مارکیٹ، جامع کلاتھ ، لائٹ ہاؤس، بولٹن مارکیٹ، ہومیو پیتھک دوائیوں کی مارکیٹ، پیپر مارکیٹ، پلاسٹک مارکیٹ، گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس کی سب سے بڑی مارکیٹ اور بوتل گلی شامل ہیں، اسی اولڈ ایریا میں حکومت سندھ اور وفاقی حکومت دفاتر، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور سٹی کورٹس واقع ہیں۔
اسی طرح پاسپورٹ آفس اور نادرا کے دفاتر بھی یہاں واقع ہیں، اسی ایریا میں کئی تعلیمی ادارے اور ان کے سٹی کئمپس واقع ہیں جن میں ڈاؤ یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی، سندھ مدرسہ الاسلام یونیورسٹی، ایس ایم سائنس کالج، ایس ایم لا کالج، این جے وی اسکول، ماما پارسی اسکول، سینٹ پیٹرک اسکول، سینٹ پالز اسکول، آرمی پبلک اسکول اور دیگر شامل ہیں، اسی ایریا میں شہر کا مصروف ترین اسپتال سول اسپتال، ٹراما سینٹر، برنس سینٹر اور دیگر ادارے واقع ہیں، اسی ایریا میں شہر کا مشہور فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ اور صدر کا کاروباری و تجارتی علاقہ واقع ہیں، اسی علاقے میں پورے ملک کو جانے والی گاڑیوں کے دفاتر بھی واقع ہیں، اسی بنا پر اولڈ ایریا شہر کا مصروف ترین تجارتی ، کاروباری ، تعلیمی و تفریحی مقام رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روزانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس علاقے کا رخ کرتے ہیں، جن میں طلبہ، کاروباری حضرات، وفاقی اور حکومت سندھ سے وابستہ سرکاری ملازم، وکیل، جج، ڈاکٹر، مریض، نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ملازمین، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین اور عام لوگ شامل ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ روزانہ صبح کے وقت ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر اولڈ ایریا کی طرف آتا ہے یا شہر کے کونے کونے سے گاڑیاں صدر اور ٹاور کی جانب جاتی دکھائی دیتی ہیں۔
روزانہ لاکھوں کی تعداد میں آنے والے یہ لوگ کاروں، موٹر سائیکلوں، وینوں، بسوں اور دیگر گاڑیوں میں سوار ہوکر آتے ہیں، جبکہ اولڈ ایریا میں رہنے والے مکینوں کی تعداد الگ ہے، لیکن ان سب کی گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے اولڈ ایریا میں کوئی مناسب انتظام نہیں ہے، یہاں واقع بینکوں اور تجارتی اداروں کے پاس اپنی عمارتوں میں گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام ہے، اسی طرح بعض رہائشی عمارتوں کے اندر بھی پارکنگ موجود ہے لیکن اکثر عمارتوں میں پارکنگ کی سہولت موجود نہیں ہے۔
اس وجہ سے اکثر لوگ اپنی گاڑیاں روڈ پر پارک کرتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں گاڑیوں کی پارکنگ ایک منافع بخش کاروبار ہے، سرکاری ادارے اور پرائیویٹ لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں، صدر اور دیگر تجارتی مراکز میں ہر روڈ پر ڈبل ڈبل لائنوں میں گاڑیاں پارک کی ہوئی نظر آتی ہیں، جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا ہوتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ اولڈ ایریا کے اکثر راستوں پر روزانہ ٹریفک جام ہونا معمول کی بات ہے، ہر جگہ ٹریفک اہلکار موجود ہوتے ہیں لیکن ٹریفک کے بے انتہا دباؤ کے باعث وہ بے بس نظر آتے ہیں۔
اس سلسلے میں جب ایکسپریس کی جانب سے ایس ایس پی ٹریفک ساؤتھ سعود مگسی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے پارکنگ سے متعلق گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اپنے ضلع میں ٹریفک کی روانی اور ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے ذمے دار ہیں، انھوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اولڈ ایریا میں ٹریفک کا دباؤ زیادہ ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی زیادہ تر نفری صبح اور شام کے اوقات میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد سے زیادہ ٹریفک کی روانی کے لیے کام کرتی ہے۔
واضح رہے کہ صوبائی حکومت اور کے ایم سی سمیت مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے اولڈ ایریا میں پارکنگ کی جگہیں مہیا کرنے پر نہ ہونے کی برابر کام کیا ہے، حکومت سندھ نے عالمی بینک کے تعاون سے کراچی نیبرہوڈ ایمپروومنٹ پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے جس کے تحت دیگر کاموں کے علاوہ سندھ سیکریٹریٹ اور اس سے ملحقہ تعلیمی اداروں کے لیے گاڑیوں کی پارکنگ بھی بنائی جارہی ہے لیکن یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا ہے، اسی طرح سابقہ سٹی ڈسٹرکٹ کراچی نے 2006 میں صدر کے علاقے میں پارکنگ پلازہ کے منصوبے پر کام شروع کیا۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ منصوبے پر 63 کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود یہ منصوبہ تاحال مکمل نہیں کیا جا سکا ہے، رپورٹ کے مطابق اگرچہ پارکنگ پلازہ میں بیسمنٹ اور لوئر گراؤنڈ تعمیر کر لیے گئے لیکن ان کا مطلوبہ حد تک استعمال نہیں ہوسکا، رپورٹ کے مطابق پارکنگ پلازہ کے منتظمین اور ٹریفک پولیس کے درمیان رابطے کے فقدان اور آس پاس واقع غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔
دریں اثناء ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام نے حال ہی میں چیف سیکریٹری سندھ کو دی گئی بریفنگ میں سفارش کی تھی کہ حکومت سندھ اولڈ ایریا میں پارکنگ کی زیادہ جگہوں کا بندوبست کرے اور صدر اور دیگر علاقوں میں واقع تمام رہائشی اور تجارتی عمارتوں میں گاڑیوں کی سہولت موجود ہونے کو یقینی بنائے،شہر کے کئی کاروباری علاقوں کی سڑکوں پرچارجڈپارکنگ مافیا قابض ہے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں اولڈ ایریا سب سے زیادہ متاثر ہے جو صدر سے ٹاور اور آس پاس کے علاقوں پر مشتمل ہے،یہ علاقے کراچی کے ضلع جنوبی میں واقع ہیں، ان علاقوں میں ٹریفک کے زیادہ مسائل ہونے کی بڑی وجہ روزانہ سب سے زیادہ گاڑیوں کی آمد و رفت کا ہونا اور پارکنگ کی جگہیں نہ ہونا ہے۔
کراچی کا اولڈ ایریا شہر کے کاروباری اور مصروف ترین علاقوں پر مشتمل ہے، جن میںمیکلوڈ روڈ کی شکل میں ایک بڑا تجارتی علاقہ واقع ہے جہاں اسٹیٹ بینک سمیت تمام سرکاری اور نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے صدر دفاتر موجود ہیں۔
اسی طرح اولڈ ایریا میں پاکستان کی سب سے بڑی اناج منڈی، ٹمبر مارکیٹ اور دیگر تجارتی مراکز واقع ہیں ان میں فریئر روڈ اور ایم اے جناح روڈ پر واقع ہول سیل کے مارکیٹ، جامع کلاتھ ، لائٹ ہاؤس، بولٹن مارکیٹ، ہومیو پیتھک دوائیوں کی مارکیٹ، پیپر مارکیٹ، پلاسٹک مارکیٹ، گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس کی سب سے بڑی مارکیٹ اور بوتل گلی شامل ہیں، اسی اولڈ ایریا میں حکومت سندھ اور وفاقی حکومت دفاتر، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور سٹی کورٹس واقع ہیں۔
اسی طرح پاسپورٹ آفس اور نادرا کے دفاتر بھی یہاں واقع ہیں، اسی ایریا میں کئی تعلیمی ادارے اور ان کے سٹی کئمپس واقع ہیں جن میں ڈاؤ یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی، سندھ مدرسہ الاسلام یونیورسٹی، ایس ایم سائنس کالج، ایس ایم لا کالج، این جے وی اسکول، ماما پارسی اسکول، سینٹ پیٹرک اسکول، سینٹ پالز اسکول، آرمی پبلک اسکول اور دیگر شامل ہیں، اسی ایریا میں شہر کا مصروف ترین اسپتال سول اسپتال، ٹراما سینٹر، برنس سینٹر اور دیگر ادارے واقع ہیں، اسی ایریا میں شہر کا مشہور فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ اور صدر کا کاروباری و تجارتی علاقہ واقع ہیں، اسی علاقے میں پورے ملک کو جانے والی گاڑیوں کے دفاتر بھی واقع ہیں، اسی بنا پر اولڈ ایریا شہر کا مصروف ترین تجارتی ، کاروباری ، تعلیمی و تفریحی مقام رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روزانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس علاقے کا رخ کرتے ہیں، جن میں طلبہ، کاروباری حضرات، وفاقی اور حکومت سندھ سے وابستہ سرکاری ملازم، وکیل، جج، ڈاکٹر، مریض، نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ملازمین، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین اور عام لوگ شامل ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ روزانہ صبح کے وقت ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر اولڈ ایریا کی طرف آتا ہے یا شہر کے کونے کونے سے گاڑیاں صدر اور ٹاور کی جانب جاتی دکھائی دیتی ہیں۔
روزانہ لاکھوں کی تعداد میں آنے والے یہ لوگ کاروں، موٹر سائیکلوں، وینوں، بسوں اور دیگر گاڑیوں میں سوار ہوکر آتے ہیں، جبکہ اولڈ ایریا میں رہنے والے مکینوں کی تعداد الگ ہے، لیکن ان سب کی گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے اولڈ ایریا میں کوئی مناسب انتظام نہیں ہے، یہاں واقع بینکوں اور تجارتی اداروں کے پاس اپنی عمارتوں میں گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام ہے، اسی طرح بعض رہائشی عمارتوں کے اندر بھی پارکنگ موجود ہے لیکن اکثر عمارتوں میں پارکنگ کی سہولت موجود نہیں ہے۔
اس وجہ سے اکثر لوگ اپنی گاڑیاں روڈ پر پارک کرتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں گاڑیوں کی پارکنگ ایک منافع بخش کاروبار ہے، سرکاری ادارے اور پرائیویٹ لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں، صدر اور دیگر تجارتی مراکز میں ہر روڈ پر ڈبل ڈبل لائنوں میں گاڑیاں پارک کی ہوئی نظر آتی ہیں، جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا ہوتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ اولڈ ایریا کے اکثر راستوں پر روزانہ ٹریفک جام ہونا معمول کی بات ہے، ہر جگہ ٹریفک اہلکار موجود ہوتے ہیں لیکن ٹریفک کے بے انتہا دباؤ کے باعث وہ بے بس نظر آتے ہیں۔
اس سلسلے میں جب ایکسپریس کی جانب سے ایس ایس پی ٹریفک ساؤتھ سعود مگسی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے پارکنگ سے متعلق گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اپنے ضلع میں ٹریفک کی روانی اور ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے ذمے دار ہیں، انھوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اولڈ ایریا میں ٹریفک کا دباؤ زیادہ ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی زیادہ تر نفری صبح اور شام کے اوقات میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد سے زیادہ ٹریفک کی روانی کے لیے کام کرتی ہے۔
واضح رہے کہ صوبائی حکومت اور کے ایم سی سمیت مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے اولڈ ایریا میں پارکنگ کی جگہیں مہیا کرنے پر نہ ہونے کی برابر کام کیا ہے، حکومت سندھ نے عالمی بینک کے تعاون سے کراچی نیبرہوڈ ایمپروومنٹ پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے جس کے تحت دیگر کاموں کے علاوہ سندھ سیکریٹریٹ اور اس سے ملحقہ تعلیمی اداروں کے لیے گاڑیوں کی پارکنگ بھی بنائی جارہی ہے لیکن یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا ہے، اسی طرح سابقہ سٹی ڈسٹرکٹ کراچی نے 2006 میں صدر کے علاقے میں پارکنگ پلازہ کے منصوبے پر کام شروع کیا۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ منصوبے پر 63 کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود یہ منصوبہ تاحال مکمل نہیں کیا جا سکا ہے، رپورٹ کے مطابق اگرچہ پارکنگ پلازہ میں بیسمنٹ اور لوئر گراؤنڈ تعمیر کر لیے گئے لیکن ان کا مطلوبہ حد تک استعمال نہیں ہوسکا، رپورٹ کے مطابق پارکنگ پلازہ کے منتظمین اور ٹریفک پولیس کے درمیان رابطے کے فقدان اور آس پاس واقع غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔
دریں اثناء ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام نے حال ہی میں چیف سیکریٹری سندھ کو دی گئی بریفنگ میں سفارش کی تھی کہ حکومت سندھ اولڈ ایریا میں پارکنگ کی زیادہ جگہوں کا بندوبست کرے اور صدر اور دیگر علاقوں میں واقع تمام رہائشی اور تجارتی عمارتوں میں گاڑیوں کی سہولت موجود ہونے کو یقینی بنائے،شہر کے کئی کاروباری علاقوں کی سڑکوں پرچارجڈپارکنگ مافیا قابض ہے۔