ایک ماہ کے بعد پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا
نومبر میں 319 ملین ڈالر کا کرنٹ اکا=نٹ خسارہ ریکارڈ کیا گیا، اسٹیٹ بینک
KARACHI:
حکومت سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی جب کہ ایک ماہ کے بعد پھر تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر میں کرنٹ اکائونٹ بیلنس 70 ملین ڈالر سرپلس تھا مگر حکومت اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہی اور نومبر میں جاری کھاتے کا توازن بگڑ کر 319 ملین ڈالر کے تجارتی خسارے میں تبدیل ہوگیا۔
واضح رہے کہ اکتوبر میں 4 سال کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سرپلس رہا تھا۔ نومبر میں کرنٹ اکائونٹ خسارے کی بنیادی وجہ تارکین وطن کی ترسیلات زر میں کمی اور سکڑتا ہوا برآمداتی حجم ہے۔ تاہم بہ طور مجموعی رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ ( جولائی تا نومبر) کے عرصے میں گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کی نسبت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73 فیصد کمی آئی ہے۔ اس عرصے کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.82 ارب ڈالر رہا جو گذشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 6.73 ارب ڈالر تھا۔
بی ایم اے کیپیٹل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سعد ہاشمی نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نومبر میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ مارکیٹ کی توقعات کے مطابق ہے۔ مالی سال 2019-20 کے لیے آئی ایم ایف نے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 6.5 ارب ڈالر رہنے کی پیش گوئی کررکھی ہے۔ اس تناظر میں اب تک کرنٹ اکائونٹ خسارہ رینج ہی میں ہے۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے ریسرچ ہیڈ سمیع اﷲ طارق نے کہا کہ اکتوبر میں کرنٹ اکائونٹ بیلنس سرپلس غیرپائیدار تھا کیوں کہ ہماری درآمدات، برآمدا ت سے دگنی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ اکتوبر کے سرپلس اور نومبر کے محدود خسارے کا رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران مجموعی کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کے رجحان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ پانچ ماہ کے دوران خسارے میں 73فیصد کی اہم کمی کی وجہ اشیاء و سامان کی درآمدات میں 21 فیصد کی نمایاں کمی اور اسی عرصے کے دوران برآمدات میں ہونے والی 5 فیصد بڑھوتری ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق 5 ماہ کے دوران درآمدات کم ہوکر 18.31 ارب ڈالر کی سطح پر آگئیں جب کہ برآمدات 10.30 ارب ڈالر تک بڑھ گئیں۔ تاہم اس مدت کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر کا حجم تقریباً یکساں 9.29 ارب ڈالر رہا۔
سمیع اﷲ طارق کے مطابق 5 ماہ کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.82 ارب ڈالر رہنے سے توقع ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام پر مجموعی خسارہ 5 ارب ڈالر سے کم رہے گا۔ آئی ایم ایف کی 6.5 ارب ڈالر کی پیشگوئی کے تناظر میں یہ بڑی کامیابی ہوگی۔
حکومت سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی جب کہ ایک ماہ کے بعد پھر تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر میں کرنٹ اکائونٹ بیلنس 70 ملین ڈالر سرپلس تھا مگر حکومت اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہی اور نومبر میں جاری کھاتے کا توازن بگڑ کر 319 ملین ڈالر کے تجارتی خسارے میں تبدیل ہوگیا۔
واضح رہے کہ اکتوبر میں 4 سال کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سرپلس رہا تھا۔ نومبر میں کرنٹ اکائونٹ خسارے کی بنیادی وجہ تارکین وطن کی ترسیلات زر میں کمی اور سکڑتا ہوا برآمداتی حجم ہے۔ تاہم بہ طور مجموعی رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ ( جولائی تا نومبر) کے عرصے میں گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کی نسبت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73 فیصد کمی آئی ہے۔ اس عرصے کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.82 ارب ڈالر رہا جو گذشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 6.73 ارب ڈالر تھا۔
بی ایم اے کیپیٹل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سعد ہاشمی نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نومبر میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ مارکیٹ کی توقعات کے مطابق ہے۔ مالی سال 2019-20 کے لیے آئی ایم ایف نے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 6.5 ارب ڈالر رہنے کی پیش گوئی کررکھی ہے۔ اس تناظر میں اب تک کرنٹ اکائونٹ خسارہ رینج ہی میں ہے۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے ریسرچ ہیڈ سمیع اﷲ طارق نے کہا کہ اکتوبر میں کرنٹ اکائونٹ بیلنس سرپلس غیرپائیدار تھا کیوں کہ ہماری درآمدات، برآمدا ت سے دگنی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ اکتوبر کے سرپلس اور نومبر کے محدود خسارے کا رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران مجموعی کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کے رجحان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ پانچ ماہ کے دوران خسارے میں 73فیصد کی اہم کمی کی وجہ اشیاء و سامان کی درآمدات میں 21 فیصد کی نمایاں کمی اور اسی عرصے کے دوران برآمدات میں ہونے والی 5 فیصد بڑھوتری ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق 5 ماہ کے دوران درآمدات کم ہوکر 18.31 ارب ڈالر کی سطح پر آگئیں جب کہ برآمدات 10.30 ارب ڈالر تک بڑھ گئیں۔ تاہم اس مدت کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر کا حجم تقریباً یکساں 9.29 ارب ڈالر رہا۔
سمیع اﷲ طارق کے مطابق 5 ماہ کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.82 ارب ڈالر رہنے سے توقع ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام پر مجموعی خسارہ 5 ارب ڈالر سے کم رہے گا۔ آئی ایم ایف کی 6.5 ارب ڈالر کی پیشگوئی کے تناظر میں یہ بڑی کامیابی ہوگی۔