سستے چینی جوتوں اور چپلوں سے موچی کا کام ٹھپ ہونے لگا

سستے چینی جوتوں اور چپلوں کے خریدار ان کے پھٹنے پر مرمت کے بجائے انہیں پھینکنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

لیاقت آباد میں موچی چپل کی مرمت کرنے میں مصروف ہیں(فوٹو ایکسپریس)

شہر میں چینی سستے جوتوں اور چپلوں کی بڑی تعداد میں درآمد سے '' موچی '' کا قدیمی پیشہ اہمیت کھوتا جا رہا ہے اور اس پیشے سے وابستہ سیکڑوں افراد اس کام کو خیرباد کہنے پر مجبور ہیں۔

جبکہ اس ہنر سے وابستہ افراد کی نئی نسل اس کام کو چھوڑ کر مختلف کاموں سے وابستہ ہوگئی ہے اور سیکڑوں نوجوان بیرون ملک جا کر محنت مزدوری کا کام کررہے ہیں،سروے کے دوران لیاقت آباد میں موجود1965ء سے موچی کے کام سے وابستہ شیر زمین اور اس کے بیٹے عطا اللہ نے گفتگو میں بتایا کہ موچی کا ہنر تین حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ جوتوں یا چپلوں کی مرمت کرنا، دوسرا حصہ جوتوں یا سینڈل کی پالش کرنا اور تیسرا حصہ اسکول یا سفری بیگ اور تعویذ پوش (کور) بنانا شامل ہے، موچی کے پاس مختلف اوزار ہوتے ہیں ان میں سندان ، سوئی کنڈی ( سلائی کا آلہ) ، جمبور پلاس، قینچی ، ہتھوڑی ، رمبی ( چمڑا کاٹنے والا آلہ) ، سمبا ( سوراخ کا آلہ، دھاگہ، جوتے پالش کرنے والے برش اور پالش کی ڈبیاں شامل ہیں یہ تمام اوزار لی مارکیٹ چمڑا گلی سے ہول سیل ریٹ پر ملتے ہیں۔

تاہم مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے اس اوزاروں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ایک موچی روزانہ 12 گھنٹے کام کرتا ہے اور موچی صبح 8 بجے اپنی عارضی دکان پر آجاتا ہے اور رات 8 یا 9 بجے تک مسلسل جوتوں کی مرمت اور پالش میں مصروف رہتا ہے، انھوں نے بتایا کہ جب میں 1965 میں کراچی آیا تو اس وقت شہر کے حالات پرامن تھے اور یہاں ہر طرف امن کی فضا تھی،کراچی میں 10برس قبل 8 ہزار سے موچی تھے، موچی کا 80 فیصد کام پٹھان اور20 فیصد سرائیکی کرتے ہیں،اس کام سے وابستہ80 فیصد افراد کا تعلق پختونخوا کے قبائلی علاقوں خصوصاً باجوڑ سے ہے۔




2003 کے بعد سے شہر میں امن وامان کی مخدوش صورت حال اور چین سے سستے جوتوں اور چپلوں کی درآمد سے موچی کا قدیمی ہنر افادیت کھو رہا ہے کیونکہ سستے چینی جوتے اور چپلیں خریدنے والے جوتے یا چپلوں کے پھٹنے پر مرمت نہیں کراتے بلکہ پھینک دیتے ہیں جس سے موچیوں کے دھندے پر برا اثر پڑ رہا ہے سیکڑوں افراد نے آبائی پیشے کو خیرباد کہہ دیا ہے۔

بدامنی پر موچی کے پیشے سے وابستہ 60 فیصد افراد اندرون ملک منتقل ہوگئے ہیں اور ان میں سے بیشتر افراد نے اس پیشے کو چھوڑ کر دوسرے پیشوں کو اپنا لیا ہے،کراچی اب موچی کے پیشے سے وابستہ افراد کی تعداد 4000 ہوگی، اس پیشے میں کوئی فرد شاگرد نہیں بنتا بلکہ یہ ہنر نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، موچی کا کام کرنیوالے افراد کی نئی نسل اب اس پیشے کو چھوڑ کر محنت مزدوری سے وابستہ ہورہی ہے،موچی کاکام کرنے والے افراد کی نئی نسل میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے اور کئی افراد کے بچے پڑھ لکھ کر اچھی ملازمتوں پر کام کررہے ہیں،کراچی میں لوڈشیڈنگ نے بھی کام کو شدید متاثر کیا ہے سر شام بجلی چلے جانے سے ہمارا کام متاثر ہوتا ہے لیکن چارچنگ لائٹوں سے استفادہ کرکے رات 8 بجے تک اپنا کام کرتے ہیں۔
Load Next Story