پاکستان کو استعمال کر کے ایک بار پھر بھارت کو اہمیت دی گئی

صدر مشرف کے دور کا آغاز امریکہ سے کشیدہ تعلقات کے ساتھ ہوا، ملک میں دہشت گردی تیزی سے بڑھی

عالمی تعلقات کے تناظر میں پاک بھارت کشیدگی اور مسئلہ کشمیر باہمی کشمکش کی تاریخ پر مبنی سلسلہ

(قسط نمبر 14)

پاکستان اور امریکہ تعلقات کا ہنی مون پریڈ 1980 سے 1987-88 تک رہا بلکہ 1988 میں ہی جب امریکہ اپنے مفادات حاصل کر چکا تھا، سوویت یونین کے بکھر رہا تھا اور کیمونزم دنیا سے رخصت ہو رہا تھا تو ساتھ ہی نئی عالمی سیاسی ،اقتصادی، معاشی بساط بچھائی جارہی تھی ،جس کے اندیشوں کو پاکستان کے سیاسی عسکری دانشوروں نے محسو س کر لیا تھا۔

کارگل کے معرکے پر عملدرآمد دونوں شعبوں میں اتفاقِ رائے ہی سے ترتیب پا یا تھا ،مگر جب بھارت کی چیخ و پکار پر امریکہ نے دباؤ ڈالا تو 4 جولائی 1999 کو ہی صدر کلنٹن نے نواز شریف سے یہ فیصلہ کروا لیا تھا کہ کارگل سے فوج واپس بلائی جائے گی۔

جنرل پرویز مشرف نے اقتدار حاصل کیا تو امریکہ اور پا کستان کے تعلقات کافی حد تک کشید ہ رہے اور اسی دور میں جب صدر بل کلنٹن نے 20 مار چ تا25 مارچ 2000 بھارت ،بنگلہ دیش اور پا کستان کا دورہ کیا تو وہ پانچ روزہ دورے میں تقریباً چار دن انہوں نے بھارت میں قیام کیا اور واضح انداز میں بھارت کو زیادہ اہمیت دی اور پھر چند گھنٹے بنگلہ دیش اور پا کستان میں گذارے مگر نائن الیون کے فوراً بعد جب پہلے امریکہ اور برطانیہ اور پھر امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں کارو ئیاں شروع کیں تو امریکہ پاکستان تعلقات ایک بار پھر بہت اچھے دکھائی دئیے۔

یہاں پاکستان میں کراچی کی بندر گاہ سے امریکی فوج اور نیٹو افواج کے لیے جو اسلحہ ،اور دیگر سامان آتا ہے وہ تمام پاکستان ہی کی شاہراہوں سے ہو تا ہوا افغانستان جا تا ہے۔ اُس دور میں پاکستان نے القاعد ہ کے خلاف کاروائیاں شروع کیں، جو اباً 2001 ہی سے پا کستان میں بھی دشت گردی کی کاروائیاں شروع ہو گئیں۔2001 میں دہشت گردی کے دو بڑے واقعات میں20 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہو ئے۔ 2006 میں دہشت گردی کے صورتحال نہایت خطر ناک ہو نا شروع ہو گئی۔ اس سال ملک میں دہشت گردی کے 657 واقعات ہو ئے جن میں سے 41 واقعات فرقہ وارنہ نو عیت کے تھے۔

اِن واقعات میں 907 افراد جاں بحق اور1543 زخمی ہو ئے۔ اسی دوران خود صدر جنرل پرویز مشرف پر دو قاتلانہ حملے ہو ئے۔ بل کلنٹن کے دورے کے ٹھیک چھ سال بعد امریکہ صدر جارج ڈبلیو بش نے ،افغانستان ،بھارت اور پاکستان کا چھ روزہ دورہ کیا۔ وہ یکم مارچ کو کابل پہنچے، نئے امریکی سفارت خانے کا افتتاح کیا، افغانستان میں امریکی فو جیو ں سے خطاب کیا۔

اسی روز وہ بھارت پہنچے جہاں وہ 3 مار چ تک رہے، امریکہ بھارت سول نیوکلیئر ایگریمنٹ پر دستخط کئے۔ ابھی وہ بھارت سے پاکستان کے دورے پر روانہ نہیں ہو ئے تھے کہ کراچی میں 2 مارچ کو امریکی کو نصلیٹ پر خود کش کار بم دھماکے میں ایک امریکی سفارتی اہلکار سمیت چار افراد جاںبحق ہو گئے۔

جب دوسرے دن 3 مارچ کو امریکی صدر اسلام آباد پہنچے تو صدر پر ویز مشروف سمیت تمام حکومتی عہدیداران نفسیاتی دباوء کا شکار تھے۔ دو امریکی صدور کے دوروں کے درمیان ان چھ بر سوں میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا اور بہت کچھ تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا۔

جنگ جو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1373 کے تحت شروع ہو ئی تھی اب دنیا کے لیے ایک نئی طرز کی جنگ تھی جس میں اب نہ تو محاذ جنگ پربڑی تعداد میں فوجیں آمنے سامنے تھیں، نہ ہی سرحدیں تھی اور نہ کسی کو یہ معلوم پڑتا تھا کہ کون کس کو ، کس کے لیے قتل کر ہا ہے۔ پھر یہ جنگ دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات پر مشتمل تھی۔ مذہبی طور پر ایک عجیب ابہام تھا۔ مسلمان ہی مسلمان کے مقابل تھے اور انہیں مدد غیر مسلموں کی حاصل تھی۔ صدر پر ویز مشرف جو عوامی سطح پر کارگل کے ہیرو تھے اب شہرت کے لحاظ سے زیرو ہو رہے تھے۔

اگرچہ اُنہوں نے اِن چھ برسوں میں ملکی معیشت کو مستحکم کر دیا تھا ،مگر اب دہشت گردی کے بڑھتے ہو ئے واقعات سے ملک میں سرمایہ کاری اور صنعت و تجارت کے فروغ کے اعتبار سے ماحول آلودہ ہوتا جا رہا تھا۔ دوسری جانب اگرچہ امریکی صدر کی آمد سے ایک روز پہلے امریکی کونصلیٹ جنرل کی عمارت پر حملہ اور ایک امریکی کا جاںبحق ہو جانا بھی پاکستا ن کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا مگر اس سے بڑی پریشانی بھارت کے ساتھ امریکہ کا ایٹمی معاہد ہ تھا۔ امریکی صدر کے دورے سے پانچ مہینے قبل 8 اکتوبر 2005 کو آزادکشمیر اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں تاریخ کا ہولناک اور تباہ کن زلزلہ آیا تھا اس زلزلے میں چالیس ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں ہزاروں کلومیٹر سڑکیں ،پل، ہزاروں مکانات سرکاری عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں اور تقریباً ایک لاکھ افراد جاںبحق ہو ئے تھے۔

اس موقع پر سب سے زیادہ مالی اور تکنیکی امداد فراہم کر نے والے ملکوں میں امریکہ اور سعودی عرب شامل تھے۔ اسلام آباد میں صدر جارج ڈبیلو بش کے اعزار میں منعقد کی گئی تقریب میں صدرپرویز مشرف نے امریکی صدر کے کا پُر جوش خیر مقدم کیا۔ تعریفی جملوں کی ادائیگی کے بعد امریکہ کی جانب سے زلزلے کے موقع پر امداد اورتعاون کا شکریہ ادا کیا اور کراچی میں امریکی کونصلیٹ کے دفتر پر دہشت گردی کے حملے اور ایک امریکی کے جاںبحق ہو نے پر افسوس کا اظہار کیا۔

اس کے بعد صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی تقریر میں صدر پرویز مشرف کی تعریف کرتے ہو ئے کہا انہوں نے اپنے عوام کے حق میں دہشت گری کے خلا ف جنگ میں حصہ لینے کا دلیرانہ فیصلہ کیا امریکی عوامی اس پراُنہیں خراج تحسین پیش کر تے ہیں۔ صدرجارج ڈبلیو بش نے کہا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کے حامی ہیں۔ انہوں نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کہا کہ 2000-2001 گذر گیا اب پاکستان اور بھارت کے پاس تاریخی موقع ہے کہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے کوشش کریں۔

پر ویز مشرف نے اقتدار میں آتے ہی آگرہ مذاکرات میں کشمیر سمیت تمام مسائل پر گفتگو کا آغاز کیا تھا مگر بدقسمتی سے مذاکرات کو آگے بڑھانے کا اعلانیہ آگر ہ میں ہوتے ہوتے رہ گیاتھا۔ اگر چہ صدر جارج ڈبلیوبش اور صدر مشرف کی تقاریر بہت اچھی تھیں لیکن یہی وہ موڑ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے پھر فرنٹ لائن کا ملک بن جا نے کے باوجود پاکستان نظر انداز ہوا تھا اور امریکہ نے بھارت کے ساتھ نیوکلیئر اگریمنٹ پر دستخط کر دیئے تھے جب کہ دوسری جانب پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا۔

اب صدر پر ویز مشرف کو امریکہ کی جانب سے ملک میں 2007 کے عام انتخابات کرانے پر اِن کی حوصلہ افزائی کے ساتھ یہ اشار ہ بھی دیدیا گیا تھا کہ جمہوریت کی بحالی ملک میں ضروری ہے۔ دوسری جانب صدر جارج ڈبلیو بش کے دورے کے صرف دو مہینے دس دن بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی چیرپرسن بینظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے صدر 'جودونوں ملک سے باہر تھے' لندن میں اِن کے درمیان میثاقِ جمہورت کے نام سے معاہد طے پا یا۔

اس معاہد سے قبل ایک اجلاس میں پیپلزپارٹی کے رہنما سابق ڈائر یکٹر ایف آئی اے ،رحمان ملک کے گھر پر پی پی پی اور مسلم لیگ کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا جس میں نوازشریف کے ساتھ شہباز شریف ،اقبال ظفر جھگڑا ،چوہدری نثار علی خان،اور غوث علی شاہ نے اور پی پی پی کی بینظیر بھٹو کے ساتھ مخدوم امین فہیم،رضا ربانی،سید خور شید شاہ،اعتزازاحسن اور راجہ پر ویز اشرف نے مذاکرات میں حصہ لیا۔ میثاق جمہوریت کی اہم ایک شق میں ایک ایسا کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی جو1996 کے بعد سے فوج کی طرف سے جمہوری حکومتوں کو ہٹانے اورکارگل جیسے واقعات کی تحقیقات کرئے گا اور اس سے متعلق ذمہ داری کا تعین کرئے گا۔ اس میثاقِ جمہوریت میں 1973 کے آئین کو اس شکل میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیاجس شکل میں اسے صدر جنرل پر ویز مشرف نے 11 اکتوبر1999 کو معطل کیا تھا۔

میثاق جمہوریت میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ یہ دونوں بڑی جماعتیں آنیدہ کسی فوجی حکومت میں شامل نہیں ہو نگی اور نہ ہی حکومت میں آنے کے بعد منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کی حما یت طلب کر یں گی۔ اگر چہ جولائی 2007 میں ہی جب نواز لیگ کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں میں صدر کی وردی کے معاملے پر استفعٰی دینے کی بات پر اختلا فات سامنے آئے تو پیپلز پارٹی کو نظر انداز کر کے نواز شریف نے اے ڈی ایم بنالی۔ یوں ملک کی دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان ہو نے والا معاہد ہ صفر ہوگیا۔ مگر جب 14 مئی 2006 کو لندن میںبینظیر بھٹو اورنواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر دئیے تھے تو یہ پرویز مشرف کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا تھا۔

اب پاکستان میں صورتحالِ سماجی، سیاسی اوردفاعی ، لحاظ سے شدید بحرانی ہو رہی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان الجھا ہوا تھا جوروز بروز شدت اختیار کررہی تھی جس کے نتیجے میں عوام میں مایوسی اور خوف تھا۔ یہ نئی طرز کی جنگ تھی جس میںآزاد میڈیا کا بھی اہم کردار تھا اور پر ویز مشرف ہی کے دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز آئے انہی کے دور میں مو بائل فون اور انٹرنٹ کی سہو لتوں تک عام آدمی کی رسائی ہو ئی تھی۔

اب سرحدوں کی بجائے شہروں میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے تحت یہ جنگ پاکستان کومتواتر نقصان پہنچا رہی تھی۔ دوسری جانب نوازشر یف اور بینظیر دنوں ہی پرویز مشرف کے خلاف اپنے اختلافات پسِ پشت ڈال کر کم از کم وقتی طور پر ایک ہو گئے تھے اور بینظیر بھٹو نے الیکشن میں حصہ لینے اور پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

صدر جنرل پرویز مشرف جن پر دو سے زیادہ مرتبہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی جانب سے قاتلانہ حملے ہو چکے تھے ،انہوں نے بینظیر بھٹو سے کہا کہ وہ اِس وقت وطن واپس نہ آئیں کیونکہ اُن کی جان کو خطرہ ہے مگر انہوں نے اِس انتباہ کو نظر انداز کر دیا اسی طرح بعض اطلاعات کے مطابق انہوں نے سیکو رٹی یقین دہا نی برطانیہ او ر امریکہ سے بھی چاہی مگر وہاں سے بھی یقین دہانی نہ ہو سکی مگر پھر بھی بینظیر بھٹو اپنے فیصلے پر قائم تھیں۔ اس کی ایک فوری اور بنیاد ی وجہ یہ بھی تھی کہ میثاق جمہوریت کے بعد پاکستان میں حالات پر ویزمشرف کے خلاف ہوتے جارہے تھے۔

میثاقِ جمہوریت کے دس ماہ بعد ہی 9 مارچ 2007 کوپرویز مشرف نے سپریم کور ٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو غیر فعال کرد یا جس پر وکلا سمیت شدید عوامی رد عمل سامنے آیا۔ بدلتی ہو ئی فضا میںپیپلز پارٹی کے الیکشن میں جیتنے کے امکانات روشن تھے۔ اکتوبر 2007 میں بینظیر بھٹو پا کستان واپس آگئیں۔ ی

ہاں آتے ہی کچھ دن بعد 18 اکتوبرکارساز کراچی میں اُن کے بڑے جلوس پر دہشت گرد حملہ ہوا جس میں 180 افراد جاںبحق اور 500 کے قریب زخمی ہو ئے۔ اگر چہ وہ اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہیں لیکن دھماکوں کی وجہ سے اُن کے کانوں سے خون رسنا شروع ہوگیااور یہ زخم اُن کی موت تک منہدم نہیں ہو ئے تھے۔

بینظیر بھٹو پر یہ خطرناک ترین قاتلانہ حملہ تھا اور توقع کی جارہی تھی کہ اب بینظیر بھٹو اپنی عوامی رابطہ مہم محدود کردیں گی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کارساز کراچی کے واقعے کے دو ماہ نو دن بعد ہی وہ راولپنڈی کے لیاقت پارک میں جلسہ عام سے خطاب کے بعد جب واپس ہو رہی تھیں تو قاتلانہ حملے میں جاںبحق ہو گئیں جس کے نتیجے میںملک بھر پُر تشدد ہنگامے پھوٹ پڑے۔ موقع پربینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زردای نے پاکستان کھپے ،پا کستان زندہ باد کا نعرہ لگا یا جس کی وجہ سے عام انتخابات کا انعقاد یقینی ہوا اور پا کستان کو استحکام حاصل ہوا۔

لیکن دہشت گردی کے واقعات میں تیز ی سے اضافہ ہو رہا تھا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ اب افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو چکی تھی اور تجزیہ نگار اِن اندیشوں میں مبتلا تھے کہ کہیں پا کستان کی صورتحال عراق جیسی نہ ہو جائے۔2007 میں پاکستان میں دہشت گردی کے 1515 واقعات ہو ئے جن میں 3448 افراد جاں بحق اور 5353 زخمی ہوئے۔

2007 سے پاکستان پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا تھا۔ بھارت امریکہ تعلقات جو صدر جارج ڈبلیو بش کے دورے کے موقع پر پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہوگئے تھے اب بھارت اِن تعلقات کے ساتھ پاکستان پر بھاری پڑ رہاتھا۔ پر ویز مشرف نے چین پاکستان تعاون سے گوادر سی پورٹ پروجیکٹ شروع کیا تھا بھارت کو گوارا نہ تھا۔ یوں اُس نے پاکستان پر ایک خفیہ ھنگ مسلط کر رکھی تھی۔ پاکستان کو اپنے شہروں میں دہشت گردی کی صورت میں ایک ایسی جنگ کا سامنا تھا جس میں دشمن اَن دیکھا تھا۔


اِن حملوں میں بہت سے حملے فرقہ وارانہ بنیادوںہونے کی وجہ سے قومی اتحاد اور یکجہتی کو نقصان پہنچا یا جا رہا تھا۔ میڈیا کی آزادی کے نام پر بیرونی نشریاتی ادارے اس فتھ جنریشن وار میں عوامی سطح پر بے یقینی اور خوف کی فضاء بنا رہے تھے۔

2008 میں عام انتخابات کروائے گئے۔ اِ ن انتخابات میں ٹرن آوٹ 44.10 فیصد رہا پاکستان پیپلز پارٹی نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے10666548 ووٹ یعنی 30.79 ووٹ حاصل کئے اور قومی اسمبلی میں اس کی 91 جنرل 23 خواتین اور 4 اقلیتی نشستوں کے ساتھ 341 کے ایوان میں کل 118 نشستیں حاصل کر لیں۔ الیکشن میں اگر چہ کل ووٹوںکے لحاظ سے مسلم لیگ ق کے ووٹ مسلم لیگ ن کے ووٹوں سے زیادہ تھے یعنی ق لیگ نے 8007218 ووٹ حاصل کئے جو 23.12% تھے ان کو قومی اسمبلی کی 38 جنرل 10 خواتین اور 2 اقلیتی نشستوں کے ساتھ کل 50 نشستیں ملیں۔ جب کہ مسلم لیگ ن کے کل ووٹ 6805324 تھے جو ق لیگ کے مقابلے میں کم تھے مگر اِن کی نشستیںزیادہ تھیں۔ مسلم لیگ ن نے69 جنرل 17 خوتین اور3 اقلیتی نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں کل 89 نشستیں حاصل کیں۔

ایم کیو ایم نے 7.43% ووٹوں کے ساتھ19 جنرل5 خواتین اور ایک اقلیتی نشست کے ساتھ کل 25 نشستیں حاصل کیں اور متحدہ مجلس عمل 2.21 فیصدووٹوں کے ساتھ7 جنرل ایک خواتین نشست کے ساتھ قومی اسمبلی کی کل 8 نشستیں حاصل کر سکی۔ اگرچہ پیپلز پاٹی نے قومی اسمبلی کی مناسب نشستیں حاصل کیں اور سندھ میں اپنی صوبائی حکومت کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں دوسری پارٹیوں کے ساتھ حکومت میں رہی مگر پنجاب میں پی پی پی دوسرے نمبر پر رہی۔

حکومت سازی کے بعد 18 اگست 2008 میں صدر پر ویز مشرف کے رخصت ہونے کے بعد آصف علی زرداری صدر مملکت منتخب ہو ئے میاں محمد نواز شریف ملک میں واپس آگئے۔ آصف زرداری نے 22 مارچ2009 کو مسلم لیگ ن کے دباؤ پر وکلا کی تحریک کے مطالبات کے مطابق افتخار محمد چوہدری کو بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ بحال کر دیا۔

جو دسمبر 2013 کو ریٹائر ہوئے۔ اِن کے دور میںعدلیہ بہت متحرک رہی۔ یہ ایک عجیب موڑ تھا کہ جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ پہلے اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار کا حصو ل چا ہا کرتی تھیں اب عالمی سطح انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کرنے لگیں۔ اگر چہ یہ رابطے کُھل کر حکومتی سطح پر اعلانیہ نہیں تھے، مگردر پردہ کوششیں ہو ئیں۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس طرح کی کوششیں زیادہ ہو ئیں۔ دوسری جانب دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے حالات بہت بحرانی ہو نے لگے۔ 2008 میں پا کستان دہشت گردی کے 2148 واقعات ہو ئے جن میں2267 افراد جاںبحق اور 4558 زخمی ہوئے۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات بہت ہی خطرناک نوعیت کے تھے۔

اس سال کے آخر میں پاکستا ن پر بھارت امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کا دباؤ اس وقت بہت بڑھ گیا جب 26 نومبر 2008 سے29 نومبر2008 بھارت کے شہر ممبئی کے تاج محل پیلس ہو ٹل میںدس دہشت گردوں نے وہاں قیام پذیر سینکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا اور اہم افراد کو قتل کیا۔ اس واقعے میں خو د کش حملوں فائرنگ کی وجہ سے 166 افراد جاںبحق ہوئے 9 دہشت گرد ہلاک ہو ئے اور ایک کو گرفتار کر لیا گیا۔ بھارت نے الزام عائد کیا کہ یہ دہشت گردی پا کستان میں موجو د تنظیم لشکرِ طیبہ کی جانب سے پلان کی گئی تھی۔

باوجود اس کے کہ 18 فروری2007 کو دہلی سے لاہور آنے والی سمجھوتہ ایکپریس ٹرین میںآتشزدگی بم دھماکے بھارتی علاقے میں ہندو انتہا پسندوں نے کئے تھے ، مگر ہماری سفارتی کمزوری کہ ہم اِس واقعہ کو اُس کی شدت ساتھ دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکے تو دوسری جانب دنیا کی بے حسی بھی قابلِ دید تھی کہ ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی وجہ سے امریکہ سمیت دیگر ممالک کا دباؤ پاکستان پر بڑھ گیا۔ بد قسمتی سے پارلیمنٹ اور حکو متی اراکین اس کا موثر جواب نہ دے سکے بلکہ بعض حلقوں نے خود اپنا امیج خراب کیا۔

وہ صورتحال جو صدر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں عدم توازن کا شکار ہو رہی تھی اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک جانب امریکہ اور نیٹو افواج کو افغانستان میں شدید مسائل کا سامنا تھا اور یہ وہاں امن بحال کر نے میں ناکام ہو رہی تھیں تو اِس کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالاجا رہا تھا۔ ایک بات جو پاکستان کے سامنے واضح ہوگئی تھی وہ یہ تھی کہ بھارت جس کے ہاں 2006 میں غربت کی شرح 70% سے80% تھی وہ بڑی تیزی سے صنعتی ،اقتصادی ترقی کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی دفاعی شعبے میں وہ دنیا میں اسلحہ کا بڑا خریدار بن گیا تھا۔

یہاں 2002 سے2006 تک اقتصادی اور مالیاتی شعبے میں جو استحکام آیا تھا وہ بہت تیزی کیساتھ انحطاط کا شکار تھا ،اندورنی انتشار اور امن وامان کی صورت خراب ہو نے کی وجوہات کی بنیاد پر پا کستان ،یران تعلقات اگرچہ بظاہر خراب نہیں تھے مگر اب دونوں جانب سے وسوسوں اندیشوں اور کچھ امکانات پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر مبصرین کے بعض چونکا دینے والے تجزیے سامنے آنے لگے تھے۔ 2009 میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں 3021 افراد جاںبحق ہو ئے ،2010 میں دہشت گردی کے 127 بڑے واقعات میں 1815 افراد جاںبحق ہوئے۔2011 میں دہشت گردی کے 70 واقعات میں641 جاںبحق اور 169 زخمی ہوئے۔2012 میں دہشت گردی کے 203 واقعات میں 978 جاںبحق اور1123 زخمی ہوئے۔

2013 پیپلز پارٹی کی حکومت کا آخری سال تھا اور اس سال انتخا بات بھی ہو ئے اور دہشت گردی کے 92 واقعات میں887 جاںبحق اور 1529 زخمی ہو ئے ۔2006 میں پاکستان کو یہ واضح انداز میں معلوم ہو گیا تھا کہ عالمی بے رحم سیاست جس کے تحت سرد جنگ ہی کے زمانے میں بڑی قوتیں اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھ کرہی ترقی پذ یر ملکوں سے اپنے تعلقات استوار کرتی تھیں اب سابق سویت یونین کے بکھر جانے اور دنیا سے اشتراکی نظام کے خاتمے کے بعد یک قطبی نظام ، گلو بل ولیج کی اصطلاح اور نیو ورلڈ آڈرکے ساتھ خطے میں حیلے بہانوں سے پاکستان کی مخالفت اور بھارت کی حمایت کرر ہی ہیں تاکہ بھارت خطے میں چین کا مقابلہ کرئے۔ 'ففتھ جنریشن وار فیئرز' کے معاملات سمجھنا پاکستان بھارت بنگلہ دیش اورافغانستان جیسے ممالک کے عوام کے لیے بہت ہی پیچیدہ ،گنجلک اور ابہام زدہ ہے۔

اس لئے عوامی سطح پر اس حوالے سے شعور کی شدید کمی ہے۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہی بھارت ،پاکستان ، بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعات کی بنیاد پر کشیدگی پیدا کر دی گئی تھی اور اس کشیدگی سے خصوصاً پا ک ،بھارت کشیدہ تعلقات کی بنیاد پر بڑی قوتوں نے اپنے مفادات حاصل کئے۔ امریکہ 1990 کے بعد سے اور پھر خصوصاً نائن الیون کے بعد سے پورے خطے میں بھارت کو بنیادی کردار دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ سرد جنگ کے دور میں 'جب پا ک امریکہ تعلقا ت اپنے عروج پر تھے ، خصوصاً 1951 سے 1971 دسمبر تک' تب بھی امریکہ بھارت کو غیر کیمونسٹ ملک کے طور پر پاکستان کے برابر بلکہ بعض موقعوں پر پاکستان سے زیادہ اہمیت دیا کرتا تھا۔

نائین الیون کے بعد 2006 تک پاکستان نے افغان پاکستان سرحد کے ثقافتی ،تہذیبی،مذہبی ،قومی لسانی اجتماعی سماجی مزاج کی پرواہ نہ کرتے ہو ئے امریکہ اور نیٹو افواج کا ساتھ دیا۔ یہاں اس کی ایک بنیادی وجہ مکمل جمہوری حکومت کا نہ ہونا بھی تھا۔ صدر جنرل پرویز مشرف 2007 تک تو صدر جنرل ضیا الحق کی طرح باوردی صدر رہے ،اور آئین میں ترمیم کروانے کے بعد فوجی اور سویلین دونوں اختیارت استعمال کر تے رہے اور جب عدلیہ کی جانب سے اس میں رکاوٹ ہوئی تو بھی اُنہوں نے طاقت کو اپنا یا ،یوں جب 2008 کے انتخابات کے بعد نواز شریف کی واپسی بھی ہو گئی تو یہ صورتحال جنرل پرویز مشرف کے ر خصت ہونے کے بعد خصوصاً دہشت گردی کے خلاف جنگ یا ففتھ جنریشن وار افیئر کے لحاظ سے عجیب سی ہوگئی۔

میڈیا جسے آزادی اور ترقی صدر پر ویز مشرف کے دور میں ملی تھی اب خود اپنے وضح کردہ ضابطہِ اخلا ق سے بھی انحراف کرنے لگا تھا۔ 2001 صورت یہ تھی کہ پاکستان ایک طرف تو عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی قرارداد 1373 کے تحت اور امریکی دباؤ کی وجہ سے امریکہ اور نٹیو افواج کو لاجسٹک سپورٹ دے رہا تھا اور انٹیجنس میں بھی شراکت داری تھی تو دوسری جانب اسی کے ردعمل میں دہشت گردی کے واقعات ملک بھر میں روزبروز شدت اختیار کرنے لگے جو 2009 اور 2010 تک اپنی انتہا کو پہنچے۔

براؤن یو نیورسٹی انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل اینڈ پبلک افیئر کی ایک ریسرچ کے مطابق 2000 سے2010 تک8832فوجی ،نیم فوج اور پولیس اہلکار اور 23372 سویلین دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں جاںبحق ہو ئے۔ اب یہ ہونے لگا کہ امریکی حکام کبھی پا کستان کے تعاون کے بارے میں مثبت بیانات دیتے اور کبھی اپنی ناکامی کا سار ملبہ الزامات کی صور ت پا کستان پر ڈال دیتے یا پھر افغان حکومت کی جانب سے ایسے الزامات عائد کئے جاتے۔ اس سے شہ پا کر بھارت کا انداز بھی جارحانہ ہوا اور وہاں سے بھی دھمکیاں آنے لگیں کہ بھارت بھی اپنے دفاع میں امریکہ کی طرح حفظِ ماتقدم میں کاروائی کر سکتا ہے اور ساتھ ہی افغانستان سے تعلقات کو بڑھاتے ہو ئے پاکستان میں مداخلت کرنے لگا۔

جارج ڈبلیو بش اپنے مدت صدارت ختم ہو نے سے 36 دن پہلے دو روزہ دورے پر 15 دسمبر 2008 کو وہ افغانستان آئے۔ صدر بش جونیئر کے اقتدار میں آنے کے تقریباً آٹھ مہینے بعد ہی نائن الیون کاسانحہ ہوا تھا اور انہوں نے اُس پر نہایت شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے دہشت گردوں کے خلا ف صلیبی جنگ تک قرار دے دیا تھا۔

اب وہ سات سالہ جنگ کے نتائج دیکھ کر رخصت ہو رہے تھے۔ جب نائن الیون کے فوراً بعد امریکی فوج نے افغانستان میں تباہ کن بمباری کی اور اس کے کچھ عرصے بعد زمینی فوج افغانستان میں داخل ہو ئی تو اُس وقت صدر بش نے اعلان کیا تھا کہ وہ جنگ سے تباہ ہو نے والے افغانستان کی دوبارہ تعمیرکریں گے مگرصدر بش نے اپنے دور کے اختتام تک صرف 38 ارب ڈالر دیئے جو جنگ کے مزید جاری رہنے اور دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے فائدہ مند ثابت نہ ہو سکے۔ 2008 میں جب صدر بش نے افغانستان کا الودعی دورہ کیا تواس سال 39 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات تھے یعنی بش کے دور میں کل فوجی اخرجا ت 188 ارب تھے۔ یاد رہے کہ عراق پر حملہ خطرناک کیمیکلز رکھنے اور دنیا میں دہشت گردی کے اندیشے کا جھوٹا پراپیگنڈہ کرکے کیا گیا تھا۔

یہ جنگ عراق کی مکمل تباہی کے ساتھ ایک مہینہ 21 دن میں ختم ہو گئی۔ افغانستان کے مقابلے میں عراق ایک خوشحال دولت مند اور فوجی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط ملک تھا جس کی فوجی قوت کو پورے خطے میں اہم تصور کیا جا تا تھا جبکہ افغانستان میں 1979 سے سویت یونین کی مداخلت کے بعد حکومتی کنٹرول ختم ہو نے لگا اور 1989 سے یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا پھر طالبان حکومت اگرچہ بر سرِاقتدار آئی مگر اسے بھی پاکستا ن اور سعودی عرب کے علاوہ کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا تھا ،یہاں یہ ذکر اس لیے ضروری ہے کہ کہا جا تا ہے کہ جب امریکہ 2003 میں عراق پر حملہ کر رہا تھا تو یقینی تباہی اور بر بادی کے پیش نظر عراق کی فوجی قیادت نے پیشکش کی تھی کہ صدام حسین کی حوالگی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں میں تعاون کے لئے تیار ہیں مگر اس کے باوجود انتہائی سختی سے کاروائی ہو ئی۔ امریکی اتحادی فوج کے صرف 238 کے مقابلے میں اس ایک ماہ اکیس دن کی جنگ میں تین لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ کے قریب عراقی جاںبحق ہو ئے اور تلاشِ بسیار کے باوجود یہاں سے کو ئی کیمیکلز ہتھیار نہیں ملے۔

اس بہانے مشرق وسطیٰ میں عراق کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا اور پھر یہاں سے ہی بد امنی اور جنگ کے شعلے دوسرے عرب اور ہمسایہ ملکوں میں پھیلنے لگے حالانکہ اگر امریکہ اور برطانیہ عراقی فوج سے ہتھیار ڈلوا لیتے تو یہی فوج یہاں امن اور استحکام لے آتی اور امریکہ اور بر طانیہ کی معاون ثابت ہو تی۔

مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے یہی تیر ا لاکھ فوج بکھر کر باغی اور گوریلا لڑاکا گروپوں میں تبدیل ہو گئی جس سے عراق اور علاقے کے دیگر ملکوں میں جب خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو ئی تو پھر یہاں بھی امریکی یا نیٹو افواج کے رکھنے کا جواز پیدا ہو گیا۔ یوں یہ بات بالکل درست ثابت ہو جاتی ہے کہ ہر ملک کی فوج ہو تی ہے، جو ملک کے دفاع اور امن وامان کی ضامن ہو تی ہے اور اگر خدانخواستہ کسی ملک کی اپنی فوج نہ رہے توپھر کسی دوسرے ملک کی فوج اُس ملک میں آجاتی ہے،آج افغانستان ،عراق ،شام ، لیبا جیسے ملکوں میں دوسرے ملکوں کی فوجیں ہیں اور اَن ملکوں میں کسی نہ کسی سطح کی خانہ جنگی جا ری ہے۔

پاکستان میں صدر جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر1999 کو اقتدار میں آئے تھے اور 18 اگست2008 جارج بش سے پانچ ماہ قبل صدر کے عہدے سے سبکدوش ہو ئے۔٭ ،اس دوارن یعنی 2001 سے2008 تک پوری دنیا جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے متحد ہو ئی تھی کسی قدر کنفوژن میں مبتلا تھی کیونکہ دنیا کے یہی ممالک تھے یہی قومیں اور قوتیں تھیں مگر جنگ شہر وں میں بدلتے گروہوں کی شکلوں میں بظاہر فرقہ وارنہ ،مذہبی ،لیسانی،قومی، تعصابات کی بنیادوں پر دہشت گردی روپ دھارے ملکوں ملکوں پھیلتی جارہی تھی اور اس کے خلاف امریکہ برطانیہ ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک جد ید ترین اسلحہ سے لیس ہو کر اکثرعراق ، افغانستان اور بعد میں شام اور لیبیا کی طرح کاروائیاں کرتے ہیں اور پھر بد قسمتی سے ایسے ملکوں میں امن بھی قائم نہیں ہو تا اور مستقل خانہ جنگی کی سی صورت رہتی ہے ،پاکستان کے بارے میں بھی 2001 سے یہی کہا جارہا تھا کہ یہ ملک بھی ایسی ہی بد امنی اور خانہ جنگی کا شکا رہو جائے گا اور اس کے لیے بھارت اورچند اور ملکوں کی جانب سے پر وپگنڈہ جاری تھا۔

2008 سے 2013 تک پا کستا ن پیپلز پارٹی کی حکو مت تھی اس دور میں فوج اس جنگ کی صورتحال سے واقف ہو چکی تھی اور اپنے بچاؤ کے لیے سخت جد وجہد میں مصروف تھی ،اور غالباً دشمن قوتیں اس لحاظ سے خود بھی محتا ط تھیں کہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں پا کستان ایک ایٹمی قوت ہے پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں پاکستان کو اقتصادی معاشی اور کسی قدر سیاسی بحرانوں کا سامنا کر نا پڑا یہ نائن الیو ن کے بعد شروع ہونے والی عالمی سطح کی جنگ کا پا کستان کے لحاظ سے دوسرا اور اہم مر حلہ جو دو حصوں میں تھا۔

جس کا پہلا حصہ پی پی پی کی پانچ سالہ حکومت تھی جس میں ملک میں دہشت گردی کے بڑے واقعات ہو ئے،افغانستان میں انتخا بات کے بعد حکومت تو قائم ہو ئی مگر استحکا م نہیں آ سکا اور حکومت پر افغانستان حکومت ،امریکہ اور بھارت کی جانب سے مسلسل دباؤ رہا اس دوران بعض موقعوں پر فوج اور حکومت کے درمیان کچھ مسائل پر اختلافِ رائے بھی پیپلز پارٹی اور حزبِ اختلاف کی مسلم لیگ ن کی سیکنڈ لائن لیڈروشپ کی جانب سے آیا،ملک میں امن وامن کے لیے اخراجات میں اضا فہ ہو ا لیکن یہ کامیابی رہی کہ ملک میں فرقہ واریت اور نسلی و قومی بنیادوںپر خانہ جنگی کی سازشوں کو ناکام بنا دیا گیا مگر عالمی طور پر خارجہ پا لیسی کے اعتبار سے

پاکستان کو زیادہ کامیابیاں حاصل نہ ہو سکیں،پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستوں کے لیے ڈالے گئے کل 433884041 ووٹوں میں سے 14874104 ووٹ یعنی کل ڈالے گئے ووٹوں کا 32.77% لیکر قومی اسمبلی کی126 جنرل نشستیں حاصل کیں پی پی پی نے 6911218 یعنی15.23% ووٹ لیکر33 جنرل نشستیں حاصل کیں جب کہ تحریک ِ انصاف نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے پیپلز پارٹی سے زیادہ یعنی 7679954 یعنی16.92% ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 28 نشستیں حاصل کیں ایم کیو ایم 2456153

یعنی 5.41% ووٹ لے کر 19 نشستیں حاصل کیں اور جمعیت علما اسلام نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 3.22% ووٹ یعنی کل 1461371 ووٹ لیکر قومی اسمبلی کی 11 نشستیں حاصل کیںاور5 جون 2013 کو نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہو ئے اس وقت ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے نواز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہو نے کے صرف 25 دن بعد جب وہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیو د کیمرون سے سیکورٹی کے مسائل پر لندن میں بات چیت کر رہے تھے تو پا کستان میں دہشت گردی کے ایک وقعہ میں 52 افراد جانجق اور 100 کے قریب زخمی ہو ئے ( جاری ہے )
Load Next Story