جدہ مکہ اور مدینہ کا روحانی سفر پانچواں اور آخری حصہ
عرب یہودیوں کا قبرستان بھی ادھر ہی ہے، اگرچہ یہاں کوئی کتبہ یا کسی قسم کی کوئی اور ایسی علامت نہیں پائی جاتی۔
اپنے خیمے اکھاڑ لیے وہ واپس روانہ ہو رہے تھے اگلی صبح میدان خالی تھا، اس جنگ میں مسلمانوں کا کوئی جانی نقصان نہ ہوا اور مخالفین کے صرف 30 آدمی مارے گئے۔ مسلمانوں کی دفاعی پالیسی مکمل طور پر کامیاب رہی جب کہ کفار اور یہودی کوئی بھی مقصد حاصل نہ کرسکے اورکھلی شکست سے دوچار ہوئے بغیر جنگ کے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
خسرو فدک: خیبر مدینہ کے نواح میں واقع ایک خوبصورت نخلستان ہے جو مدینہ سے 160 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں مکہ سے شام جانے والی شاہراہ خیبر پر ایک بستی (آبادی) تھی، خیبر کے لفظی معنی ہیں قلعہ اس علاقے کو خیبرکا نام اس لیے دیا گیا تھا کہ یہاں کئی قلعے سلسلے وار تعمیر کیے گئے تھے یہ قلعے تعداد میں چھ یا شاید سات تھے۔ یہ نخلستان علاقہ وار قدرتی طور پر تین حصوں میں تقسیم تھا۔ تینوں حصوں کی حدود کا تعین جغرافیائی خدوخال کرتے تھے۔
یہ صحرا کہیں زلزلے سے بننے والی دراڑیں اور کہیں دلدلی علاقہ ان تینوں حصوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتا تھا۔ ہر حصے میں قلعوں کے علاوہ رہائشی مکانات ، گودام، اصطبل بھی واقع ہوگئے تھے۔ ہر قلعہ ایک الگ یہودی خاندان کی ملکیت تھا۔ قلعوں کے اردگرد کھیت اورکھجور کے باغات تھے۔ ان قلعوں کی دفاعی اہمیت کے پیش نظر اونچی چٹانوں پر تعمیر کیا گیا تھا۔
عرب یہودیوں کا قبرستان بھی ادھر ہی ہے، اگرچہ یہاں کوئی کتبہ یا کسی قسم کی کوئی اور ایسی علامت نہیں پائی جاتی، جس سے اس جگہ کے قبرستان ہونے کا ثبوت مل سکے، لیکن یہ جگہ جب سے یہودیوں کا قبرستان کہلاتی ہے۔یہودیوں نے اگرچہ مسلمانوں کے ساتھ امن و تعاون کا معاہدہ کرلیا تھا لیکن وہ اکثر مسلمانوں کے خلاف سازش کرتے رہتے تھے۔ اس وقت بنو قینقہ اور بنو نادر کے اکثر یہودی خیبر کے علاقے میں آباد ہوگئے تھے۔ بنو نادر نے قریش مکہ اور ان کے اتحادی بنو قبائل کا کھلے بندوں ساتھ دیا اور انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسا یا اور مالی مدد بھی کی۔ بنو قریزہ نے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں سے ان کا بدلہ لیں گے۔ وہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری میں لگ گئے۔
وہ قریش کے ساتھ جنگی معاہدہ کرنے کا بھی ارادہ کر رہے تھے۔ نبی پاکؐ ان تمام معاملات سے باخبر تھے اسی دوران قریش مکہ اور مسلمانوں کے درمیان صلح ''حدیبیہ'' معاہدہ طے پا گیا اور یہودیوں کے قریش کے ساتھ معاہدے کے امکانات ختم ہوگئے۔ اب یہودی سیاسی طور پر تنہا رہ گئے، مسلمانوں کے لیے یہودیوں پر حملہ کرنے کا یہ بہترین وقت تھا۔ چنانچہ معاہدہ طے کرکے مدینہ واپس پہنچتے ہی نبیؐ نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ خیبر پر حملہ کر دیا۔ جب جنگ ناگزیر ہوگئی یہودیوں کو محسوس ہوا کہ ہم تنہا نہیں لڑ سکتے تو انھوں نے ایک قریبی نخلستان میں بلک میں آباد یہودیوں کو اپنا ہم نوا بنانے کا فیصلہ کیا۔
یہودیوں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے اتنی تیاری کافی ہے۔ مسلمانوں کی فوج مئی 628عیسوی میں خیبر پر حملے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئی۔ سپاہیوں کی تعداد 1400 سے 1800 تک بتائی جاتی ہے۔ خبیر کے دفاع کے لیے یہودیوں کی فوج میں دس ہزار سپاہی تھے یہ مسلمان فوج کے مقابلے میں بڑی تعداد تھی۔ اس مختصر تعداد کا مسلمانوں نے بڑے مختلف انداز میں بیڑا اٹھایا۔ رسول اللہؐ کے حکم سے تمام مسلمان سپاہی نہایت سکون وخاموشی کے ساتھ صرف تین دن میں خیبرکے علاقے میں داخل ہوگئے اور یہودیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
ایک خونریز لڑائی کے بعد جو ایک قلعے کے سامنے ہوئی یہودیوں نے مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لڑائی کے دوران زیادہ تر ساری فوجوں کے سپاہیوں نے ایک دوسرے پر تیروں کی بارش کردی۔ جنگ کے دوران ایک موقعہ ایسا بھی آیا کہ مسلمان ایک بھرپور یلغار کرکے قلعے میں داخل ہوسکتے تھے۔ ایسے میں یہودیوں نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کو اس علاقے میں اپنے ساز و سامان اور خزانوں کے ساتھ ایک دوسرے قلعے میں منتقل کردیا تاکہ مکمل اور بھرپور مزاحمت کی جاسکے۔ مسلمانوں نے اشک میں واقع قلعے باآسانی فتح کرلیے۔
اب اہم ترین قلعہ العروس باقی رہ گیا تھا۔ یہ نہایت اہم قلعہ تھا جس کی حفاظت کے لیے یہودیوں نے نہایت سخت انتظامات کر رکھے تھے۔ اس قلعے کا محاصرہ 13 سے 19 روز جاری رہا۔ مسلمانوں نے اس قلعے میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اچانک نبی پاکؐ نے حضرت علیؓ کو پکارا۔ نبی پاکؐ کے بلانے پر آگے بڑھے رسول اللہؐ نے پرچم ان کے حوالہ کیا اور حضرت علیؓ دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے چل پڑے۔ حضرت علیؓ نے قلعہ العروس کی طرف رخ کیا۔ ی
ہودی سردار مرحب کے سر پر تلوار کا ایسا زوردار وار کیا کہ اس کے آہنی خول کو کاٹتی ہوئی تلوار سر میں دھنس کر جبڑوں تک اتر گئی۔ انفرادی مقابلے میں فتح کے بعد عام جنگ کا آغاز ہوا، حضرت علیؓ ہر قدم قلعے کی طرف بڑھ رہے تھے یہودیوں کا بہترین جنگجو اور سردار مرحب مارا گیا۔ یہودی سپاہیوں نے بھاگ کر قلعہ میں پناہ لی اور دروازے بند کر دیے۔ حضرت علیؓ نے قلعے کے دروازے کو ڈھال بنا لیا۔ جب یہودیوں کی مزاحمت ختم ہوگئی اور مسلمانوں کے قلعے میں داخل ہونے کا وقت آیا تو حضرت علیؓ نے وہی دروازہ نیچے گرادیا یوں قلعہ اور زمین کے درمیان ایک پل سا بن گیا۔
مسلمان باآسانی قلعے میں داخل ہوگئے۔ یہ دروازہ اس قدر وزنی تھا کہ 8 آدمی اس دروازے کو اس کی چوکھٹ سے لگایا کرتے تھے اسی دروازے سے مسلمان تیزی سے بھاگتے ہوئے قلعے میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر خصوصی طور پر حضرت علیؓ نے بہادری کے تاریخی جوہر دکھائے بڑی تعداد میں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بالآخر یہودیوں کی مزاحمت دم توڑ گئی اور انھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ خیبر فتح ہوچکا تھا۔
اطراف مدینہ: مدینہ کے نواح میں مقدس مقامات تاریخی مقامات موجود ہیں۔ مسجد عمامہ یہاں حضورؐ نے بارش کے لیے ایک دفعہ نماز استسقا ادا کی تھی۔ مسجد ابو بکرؓ اس مقام پر واقع ہے جہاں ابو بکرؓ کا رہائشی مکان تھا۔ مسجد علیؓ یہاں کا اہم مقام ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ حضرت علیؓ یہاں رہتے تھے۔ نبیؐ کے انتقال کے بعد حضرت علیؓ اس مسجد میں جمعہ کی نماز کی امامت کیا کرتے تھے۔
مسجد بلال مسجد نبوی سے ملحق کھجوروں کی منڈی کے قریب واقع ہے۔ مسجد قبلہ تین اسی مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے قبلہ کے بارے میں حکم ہوا تھا۔ 15 رجب 2ھ کو رسولؐ یہاں ظہر کی نماز ادا کر رہے تھے جب حضرت جبرئیلؑ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ اے نبیؐ اپنا رخ مسجد الحرام سے کعبہ کی طرف موڑ لیجیے۔ اسی وجہ سے اس مسجد کو مسجد قبلہ تین کہتے ہیں۔ یعنی دو قبلے والی مسجد۔
مسجد قبع کے کم و بیش ایک کلو میٹر فاصلے پر ایک کنواں جس کے متعلق نبیؐ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وفات کے بعد آپؐ کو اس کے مبارک پانی سے غسل دیا جائے۔ حضرت علیؓ نے اس وعدے کی تعمیل کی۔ اسی کنوئیں سے پانی نکال کر آپؐ کی میت کو تدفین سے قبل آخری غسل دیا تھا۔
ایک کنوئیں کے آثار میں بتایا جاتا ہے کہ یہ وہ کنواں ہے جس سے نبیؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پانی نکالا کرتے تھے۔ یہ کنواں حضرت سلمان فارسی کو آزادی کے طور پر ان کے یہودی مالک کو دیا گیا تھا۔ اس کے عقب میں بیت الحزن واقع ہے۔ امام زین العابدینؓ نے اسی مکان میں قیام فرمایا تھا۔ ایک سرنگ نما گہرا راستہ کہا جاتا ہے اس کی مٹی جنگ سے لوٹتے ہوئے نبیؐ نے شدید زخمیوں کے زخم پر لگائی تھی۔
ترکی میوزیم: (ترکی عجائب گھر) ترک جب برسر اقتدار تھے تو انھوں نے یہ تاریخی عجائب گھر بنایا اس میں قرآن پاک کے نادر نمونے، سنگ پرکندہ آیات ، مدینہ کی پرانی تصاویر ، حضرت بی بی فاطمہؓ کی آٹا پیسنے کی وہ چکی جس سے بی بی فاطمہؓ آٹا پیستی تھیں۔ اس کے علاوہ قدیمی، نادر تاریخی اشیا موجود ہیں۔ اس عجائب گھر کے بائیں جانب ایک ترک مسجد ہے یہ بھی ترکیوں نے بنائی تھی۔ اس مسجد میں باقاعدہ پانچوں وقت امام نماز پڑھاتے ہیں مسجد اس قدر بھر جاتی ہے جس میں گنجائش نہیں مسجد سے باہر تک لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔
تاریخ مدینہ کے گلی کوچوں میں بکھری پڑی ہے۔ نواح میں بہت سے تاریخی مقامات و مساجد ہیں جب کہ بہت سارے مقامات کو توڑ کر مساجد تعمیر کر دی گئی ہیں۔