سرمایہ داری کا متبادل

اکثر قارئین یہ سوال کرتے ہیں کہ سرمایہ داری اگر انحطاط پذیری کا شکار ہے تو پھر اس کا متبادل کیا ہوگا؟ ہر...


Zuber Rehman November 03, 2013
[email protected]

لاہور: اکثر قارئین یہ سوال کرتے ہیں کہ سرمایہ داری اگر انحطاط پذیری کا شکار ہے تو پھر اس کا متبادل کیا ہوگا؟ ہر چند کہ اس پر میرے کئی مضامین اور کالم چھپ چکے ہیں شاید ان کی نظروں سے نہیں گزرے۔ پھر بھی ایک بار اور اس پر قلم اٹھانے کو اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ معروف سماجی سائنسدان روسو نے کہا کہ ''چلو اس جنگل ویرانے میں واپس چلیں جہاں امن و سکون اور محبت کے پھول کھلتے ہوں۔'' ایک اور معروف سماجی سائنسدان کارل مارکس نے روسو کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہم ضرور ایسے سماج میں واپس جائیں گے جہاں امن و سکون ہو مگر دور جدید یعنی عصر حاضرکے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جائیں گے۔''

عصر حاضر کا سائنسدان باکونین کہتا ہے کہ ''اسٹیٹ لیس سوسائٹی ہی عوام کے مسائل کا حتمی اور مکمل حل ہے'' دور وحشت میں جب حضرت انسان ننگ دھڑنگ ہوتا تھا اور آبی وسائل، درختوں سے حاصل کردہ پھلوں، پھولوں، جڑوں اور جانوروں کے شکار پر گزارا کرتا تھا تو سب مل کر شکار کرتے تھے اور مل کر بانٹ لیتے تھے۔کوئی ارب پتی تھا اور نہ کوئی گداگر۔ ایک غول میں اگر 100 آدمی ہوتے تو شکارکرنے سب نہیں جاتے تھے بلکہ 5/6 افراد جاتے اور شکار کرکے جب لاتے تو حاصل شدہ گوشت، مچھلی، پھل یا جڑیں سب میں ضرورت کے لحاظ سے بانٹ دیتے تھے۔ ہندوستان میں تو یکساں بانٹنے والے کو بھاگ وان کہتے تھے۔ بھاگ کا مطلب تقسیم یا حصہ اور وان کا مطلب والا۔ یعنی تقسیم کرنے والا۔ امیر امیر تر، غریب غریب ترہوگیا اور ہوتا جارہا ہے۔ زیادہ عرصے کی بات نہیں پانچ ہزار سال قبل پیرو، موئن جو دڑو، ہڑپہ اور نال میں کمیون نظام یعنی امداد باہمی کا نظام رائج تھا۔ اور تین سو سال قبل جھوک کے صوفی عنایت اللہ شاہ فقیر اور ان کے رفقا کو قتل کرکے امداد باہمی کے نظام کو بھی ختم کردیا گیا۔

1878 میں پیرس کمیون قائم ہوا جہاں 90 دن کی قائم امداد باہمی کے معاشرے میں کوئی بھوکا مرا، گداگری کی، بے روزگار رہا، خودکشی کی، چوری کی اور نہ قتل۔ محنت کش شہری اور کارکنان نے یہ ثابت کردیا کہ ایسا ممکن ہے۔ پھر 1917 کے بالشوک انقلاب کے بعد سوویت یونین میں چند سالوں میں ایسا معاشرہ قائم ہوا کہ بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری، گداگری، عصمت فروشی اور جہالت ناپید ہوگئی، اسپین کی عوامی جنگ میں ایک موچی ایک جنرل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا، ایک ساتھ بیٹھ کر ٹیچر اور چپراسی کھانا کھاتے تھے۔ پروفیسر، دھوبی اور بھنگی ایک ٹیبل پر بیٹھ کر چائے پیتے تھے۔ اگر دور قدیم سے دور جدید تک یہ سب کچھ ممکن ہے تو آج کیوں نہیں؟ مستقبل کی خوشحال زندگی پر بات کرنا ایک خواب لگتا ہے۔

مگر ایسا خواب دیکھے بغیر ہم مستقبل کی جانب روانہ بھی نہیں ہوسکتے۔ اگر خواب دیکھنا چھوڑ دیں تو انسان ایک مجسمہ بن کے رہ جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ ہلہ بول فوج کی کامیابی اور باقاعدہ فوج کی شکست ہوئی ہے۔ فرانس کے لوئس 16 ، روس کا زار شاہی، چین کی باقاعدہ فوج، کیوبا کی باستیتا، اسپین کے جنرل فرانکو، ہندوستان، زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں برطانوی فوج، ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا، عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کو ہلہ بول فوج نے شکست فاش دی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مل، فیکٹری اور کارخانے کیسے چلیں گے۔ کسی مل، فیکٹری میں ایم ڈی اور جی ایم نہ ہو تو مل چلے گی مگر مزدور نہ ہو تو مل بند ہوجائے گی۔ مزدور اگر مل چلا سکتے ہیں تو اس کی پیداوار کو گوڈاؤن میں ڈم بھی مزدور ہی کرتے ہیں اور ترسیلات بھی۔ لہٰذا مزدور عبوری کمیٹیاں بناکر صنعتوں کو چلا اور بڑھا سکتے ہیں۔

اس کی مثال 1968-69 میں مزدوروں نے عملاً قبضہ کرکے دکھا دیا۔ پھر 1972-73 میں لانڈھی، کورنگی اور سائٹ کراچی کے علاقوں میں مزدوروں نے ملوں پہ قبضہ کر رکھا تھا اور پیداوار پہلے سے زیادہ دے رہے تھے۔ فرق یہ ہے کہ پیداوار کا آدھا مال سرمایہ دار ہڑپ کرجاتا ہے اور جب مزدور چلائے گا تو سارا مال عوام میں تقسیم ہوگا۔ انتظام کے لیے 1/2 فیصد قدر زاید بچایا جاسکتا ہے۔ اب آئیے زرعی پیداوار کی جانب۔ ابھی تو 5 فیصد لوگوں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمینیں ہیں جب کہ دوسری جانب 25 فیصد کے پاس 2/4 ایکڑ سے لے کر 40/50 ایکڑ زمینیں ہیں اور باقی 70 فیصد بے زمین کسان ہیں۔ اب اگر کھیتوں کی پگ ڈنڈیاں ختم کردیں اور پیداوار کے بعد شروع میں زمین کے اعتبار سے غلہ بانٹ دیں اور آگے چل کر ضرورت کے مطابق اجناس تمام لوگوں میں تقسیم کردیا جائے تو کوئی بھوکا مرے گا اور نہ کوئی ارب پتی بنے گا اور نہ برطانیہ میں کوٹھیاں بنائے گا۔ اگر ضرورت سے زیادہ پیداوار کسی گاؤں میں ہو تو وہ زائد پیداوار پڑوسی ضرورت مند گاؤں کو دے دے گا۔ یہ کام گاؤں کی عبوری کسان کمیٹی انجام دے گی۔ اس سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی یلغار سے بھی نجات ملے گی اور جراثیم کش ادویات سے بھی۔

دیسی کھاد کے استعمال سے بیماریاں خاص کر کینسر اور ہیپاٹائٹس کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ کرنسی نوٹس ختم ہونے سے بیرونی ملک سے تجارت کیسے ہوگی اور ملک کے اندر لین دین کیسے ہوگا؟ دور وحشت میں انسانوں کے ایسے غول ملے ہیں جو اجناس کا تبادلہ کرتے تھے اور یہ کام آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایران کو بینگن کی ضرورت ہے تو ہم بینگن دے کر آلو لے سکتے ہیں۔ ملک کے اندر جب ضروریات زندگی جنس کی شکل میں مہیا کی جائیں گی تو پھر کرنسی نوٹس کی کیوں ضرورت باقی رہے گی۔ جب سوشلسٹ بلاک قائم تھا اس وقت ڈالر سے کوئی تجارت نہیں ہوتی تھی بلکہ باٹار کے نظام سے کاروبار ہوتا تھا۔ ماؤزے تنگ کے چین سے، سوویت یونین سے یا مشرقی یورپ سے جب پاکستان تجارت کرتا تھا تو ڈالر کے بجائے اجناس کا تبادلہ کرتا تھا۔ آپ کہیں گے کہ اسٹاک ایکسچینج، بینک اور نوٹس چھاپنے کی پرنٹنگ پریس یہ سب کیسے چلیں گے۔ یہ دراصل جوا خانے ہیں۔ ان کی ضرورت نہیں۔ اب بات آتی ہے تعلیم کی۔ جارج اسٹیفن سن، ایڈیسن، آرکیڈیز اور نیوٹن وغیرہ نے کہاں سے پی ایچ ڈی کیا تھا؟ انھوں نے خود کار مطالعے اور تجربے سے سیکھا۔ دور جدید کے عالمی دانشور ٹیڈ گرانٹ جن کا انتقال 2006 میں ہوا، دوسری جماعت تک پڑھا تھا۔ مگر انھوں نے کارل مارکس سے زیادہ تحریریں کیں۔ جب لوگ خوشحال ہوں گے، بے گھری، لاعلاجی، بھوک، افلاس اور قتل ہونے کی فکر نہ ہوگی تو اپنے خوشگوار لمحات میں دوسروں کو خود تعلیم دیں گے۔

کم ازکم ہر شخص ایک شخص کو علم سے ضرور آشنا کرسکتا ہے۔ باقی تو یونیورسٹیاں، تحقیقی ادارے، لیبارٹریاں اور لائبریریاں ضرور قائم رہیں گی جو عوام کے مفاد میں ہوں۔ مگر اس کا انتظام عبوری کمیٹیاں کریں گی۔ یہ کمیٹیاں مہینوں سے زیادہ کی نہیں ہوں گی۔ آپ کہیں گے کہ اگر آپس میں لڑ پڑیں تو صلح صفائی کیسے ہوگی؟ اس کے لیے دیہات یا شہر کے ہر محلے، گلی اور گاؤں میں ایک فوری صلح کمیٹی بنائی جائے گی اور فیصلے کے بعد اسے ختم کردیا جائے گا۔ خواتین جوکہ 50 فیصد کی آبادی ہے اسے تخلیقی کام میں لانے کے لیے دھوبی گھاٹ اور باورچی خانے سے آزادی دلائی جائے گی۔ ہر محلہ اور گلیوں میں ایک اجتماعی دھوبی گھاٹ اور باورچی خانہ ہوگا۔ اس میں کام کرنے والوں کی ضروریات زندگی شہری خود پوری کریں گے۔ کھانا ایک ہی جگہ کھایا جائے گا اور دھلے ہوئے کپڑے بھی ایک ہی جگہ سے مل جایا کریں گے۔ ٹریفک کو چونکہ کنٹرول کیا جائے گا اس لیے اس کی ایک مرکزی اور مستقل تنظیم ہوگی اور کنٹرول ہوگا۔ تفریح، ڈرامہ اور موسیقی ہر محلے، ہر گاؤں کے لوگ خود ترتیب دیں گے۔ تجارتی مقاصد کے لیے انٹرٹینمنٹ پر پابندی ہوگی۔ فلم ضرور بنے گی مگر اس کی تجارت نہیں ہوگی۔ ہر محلے گاؤں اور علاقہ اپنی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے آزاد ہوگا۔

دیہاتوں میں اجتماعی چراگاہیں قائم کی جائیں گی جس کی رکھوالی ایک عبوری کمیٹی کرے گی۔ ان کے رکھوالوں کو گاؤں کے کارکنان خود ان کی ضروریات زندگی پوری کریں گے۔ اس طرح سے عوام عمل کرتے اور سیکھتے جائیں گے۔ بنابنایا فارمولا کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لوگ اپنے عمل اور تجربوں سے دنیا کو جنت نظیر میں بدل دیں گے۔ آخر کار ملکوں اور قوموں کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی۔ اگر آسٹریلیا ایک براعظم ہے اور یہاں کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم ہے تو ہندوستان یا چین سے عوام کو یہاں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اگر کینیڈا میں جگہ زیادہ اور لوگ کم ہیں تو برازیل اور نائیجریا سے یہاں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اگر انڈونیشیا اور پاکستان کی آبادی زیادہ ہے تو انھیں عرب امارات، سعودی عرب، کویت اور دبئی میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ساری دنیا اور اس کے وسائل سارے لوگوں کے ہیں۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں