پاکستان کہانی

جب سے وزیراعظم میاں نواز شریف نے امریکا کا دورہ کیا ہے تنقید کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے، ان کے...


Shehla Aijaz November 03, 2013
[email protected]

جب سے وزیراعظم میاں نواز شریف نے امریکا کا دورہ کیا ہے تنقید کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے، ان کے اٹھنے بیٹھنے، انداز و اطوار، گفتگو، کھانا، پینا سب اسی سلسلے میں شامل گفتگو ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ انھیں سینہ ٹھونک کر اوباما کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے تھا تو کسی کو ان کے سر جھکانے پر اعتراض ہے کسی کے خیال میں ان کے کندھے ذرا جھکے سے تھے، سب کی رائے اپنی اپنی ہے، ممکن ہے کہ ناقدین کا تجربہ جو سالوں پر محیط ہے اندازہ لگانے میں درست بھی بیٹھتاہو لیکن کبھی کبھی سارے اندازے بھی غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔ اسکیمیں چوپٹ ہوجاتی ہیں، کیونکہ کہانی کو لکھنے والا بظاہر امریکا، برطانیہ، فرانس یا جرمنی ہو اصل تو وہ ہوتاہے جو اس کہانی کے رد عمل میں ظاہر ہوتاہے کبھی مثبت تو کبھی منفی، کبھی مخالفتوں کا دور طول پکڑلیتاہے تو کبھی نشانہ ایسے ٹھیک بیٹھتا ہے کہ نفع ہی نفع اور یہ ساری کرامت تو اس اعلیٰ ذات کے پاس ہیں جس پر ہمارا یقین ہی دراصل ہماری انسانیت کی بھی دلیل ہے اور وہ انسانیت ہمیں سازشیں بننے، مہرے چلنے اور ترپ چال چلنے کا سبق نہیں دیتی اس کا تعلق من کی سچائی سے ہوتاہے اور اگر دل میں ہی کھوٹ ہو تو پھر ساری ریاضتیں ساری محنتوں پر پانی پھر جاتاہے۔

ن لیگ کی حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پہلے ایک شور وغوغا اٹھا تھا اور بہت سے لوگوں اور بیرون ملک بھی بڑے بڑے لوگوں کے درمیان کسی اور جانب اشارے ہورہے تھے لیکن قرعہ فال نواز شریف کے نام نکلا پھر شور اٹھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، دوبارہ دوبارہ کی گردان اٹھی، ووٹوں کی دوبارہ گنتی بھی ہوئی اور بہت سے نام بھی ادھر ادھر سرکے لیکن حکومت اپنی جگہ قائم ہے یہ ایک ایسی حکومت ہے جو ویسے تو خاصی مضبوط نظر آرہی ہے اور اس کے اراکین کی خواہشات بھی اپنے ملک کے لیے بہت مثبت نظر آتی ہیں لیکن پھر بھی توانائی کے شعبے اور امن وامان کی صورت حال کی خرابی لوگوں کو پھر سے باتیں بنانے پر مجبور کررہی ہے۔ بیرونی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو لوگ اس حکومت کے رجحانات سے پہلے ہی فائق تھے، شاید اس لیے کہ اس سے ملک کی ترقی کا خواب پورا ہوسکتا تھا۔ اس سے پہلے بھی لوگوں کی نظروں میں میاں صاحب کھٹکتے تھے کیونکہ وہ پاکستان کو صنعت کاری کی جانب لارہے تھے، زرعی ملک تو پاکستان پہلے ہی تھا لیکن ایک نئے باب کو ترقی کی جانب رخ دے کر بڑھانے سے بہت سے بیرونی صنعت کاروں کے لیے یہ بڑا گھاٹے کا سودا تھا، خدا خدا کرکے ان کے جانے کے بعد بات بنی تھی لیکن پھر سے اس حکومت کے آنے کے بعد انھیں کھل کر کام کرنے کے مواقعے دے کر بات پھر سے بگاڑنے سے ایک اور بلا وجہ کا نقصان اپنے اوپر طاری کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔

میاں صاحب کے دورہ امریکا سے فی الحال تو کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آرہا لیکن ڈرون حملوں کے حوالے سے اس بندوق کے زنگ زدہ تالے کے کھلنے کے چانس خاصے روشن ہوچکے ہیں، گو امریکا نے تو نمک ملا رکھا تھا اس لیے ڈرون کے حوالے سے سوال پر سوال کرنا اس کا حق بنتاہے، کیونکہ کہانی لکھتے لکھتے صفحات ادھر ادھر ہوگئے تھے، ذرا ادھر بھی تو غور کریں کس قدر ٹینشن، کس قدر دبائو، ہر طرف سے بڑھتا ہی جارہاہے ماضی میں جو احمقانہ غلطیاں ہوچکی ہیں اسے اوباما حکومت نمٹاتے نمٹاتے بھی اب تھک چکی ہے، ایک کے بعد ایک وار ہے کہ چلے ہی جارہے ہیں اب دنیا کا ٹھیکیدار بننا بھی تو آسان نہیں ہے، اب نتیجتاً خود بھی آئی ایم ایف کے قرضوں تک جا پہنچے ہیں، اوپر سے جاسوسی کے تاروں کے جال نے بھی ناک میں دم کررکھاہے اور جاسوسی بھی اپنے ہی بہن بھائیوں کی وہ بھی اس حد تک کہ کان کے لگے فون تک جا پہنچے اور یہ بھانڈا بھی ان کے اپنے ہی آدمی نے پھوڑا، اب جرمنی کی چانسلر انجیلا ایڈورڈسوڈن کو دعائیں دے یا اوباما کو بد دعائیں اب بچت اپنے ہی بہن بھائیوں سے ذرا مشکل ہی ہے ، ذرا غور کریں جب اپنوں سے یہ سلوک ہو سکتاہے تو پھر ہم جیسے جن کے بارے میں بھائے نہ پھر بھی تیرے بناء رہا جائے ناں جیسے کلمات ابھرتے رہتے ہیں کس گنتی میں آتے ہیں۔ گو ڈیوڈ کیمرون نے میڈیا کو بھی شرافت سے دھمکی تو دے ڈالی ہے کہ امریکی قومی سلامتی ایجنسی کے سابق ملازم ایڈورڈ سوڈن کی دی ہوئی خفیہ معلومات یا چھاپنے والے کے خلاف کارروائی کی جائے گی تو کوئی کیمرون صاحب سے پوچھے کہ کیا آپ اس تاکا جھانکی سے مبرا تھے یا ... خیر ہمیں اس سے کیا...!

اب کو اکب کچھ بھی ہوں اور کچھ بھی نظر آئیں لیکن ہم سب کی بیٹی ملالہ بیٹی نے بھی ڈرون حملوں کو روکنے کا مطالبہ کردیاہے۔ خدا گواہ ہے ابھی تک ان کی کتاب کا ایک حصہ بھی نہیں پڑھا پر ابھی تک سیانے لوگوں سے جو کچھ اس کتاب کے بارے میں سنا تو یہی سمجھ میں آیا کہ ملالہ کچھ زیادہ ہی ذہین ہے اور اب پروگرام تبدیل ہورہاہے یعنی پہلے ڈرون حملے علت تھے تو اب اس علت کو دور کرنے کا طے ہورہاہے، خدا کرے ایسا ہی ہو۔ ملالہ بھی یہی کہہ رہی ہے، ویسی بچی اتنا غلط بھی نہیں کہتی۔ ارادے بھی خیر سے ان کے خاصے نیک ہیں، بلاول بھٹو کے تو اپنے خاندان میں اتنے لوگ یہاں تک کہ ان کی اپنی والدہ تک کو خون میں نہلادیا گیا لیکن ملالہ نے ان سے کئی قدم آگے بڑھ کر وزیراعظم بننے کا خواب پوری قوم کو دکھادیا اب دیکھیے پاکستان کی کہانی میں آگے کیا کیا لکھا ہے۔

خدا جانے... بس ایک گولی پہ ایک کرسی...! میاں صاحب ایڈ کے بجائے ٹریڈ پر زور دیتے رہے لیکن اگر اس کا مطلب یہ لیاجائے کہ فوری طورپر پاکستان سے امریکا تجارت کرے گا تو یہ اتنا آسان بھی نہیں سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب خود صنعت کار ہیں، لہٰذا وہ تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیںگے لیکن اگر حالات بھی سازگار ہوں تو یہ تجارت فروغ پاسکتی ہے لیکن یہاں سازگار حالات کے خواب دیکھتے دیکھتے کئی سال گزرچکے ہیں کراچی ایک مقتل بن چکا ہے کسی سیانے نے خوب کہا کہ ''خدا کی پناہ لیاری ایک علاقہ ہے پورا بلوچستان تو نہیں جس کے وسیع وعریض رقبے کی چیکنگ آسان نہ ہو، لیکن وہاں تو گھن کے ساتھ گیہوں پس رہا ہے اور کتنے ہی معصوم ہیں کہ اپنی برسوں کی رہائش گاہ کو اس اندرونی جنگ کے سبب چھوڑ کر جاچکے ہیں کہ اس طرح ایک تاریخی علاقہ گینگ وار کے لیے میدان جنگ بن چکا ہے، چیکنگ تو ہو رہی ہے لیکن کچھ اس طرح سے کہ بابو! ایک بار جو میرے ہتھے چڑھ گیا پھر بندوں کے کندھوں پر ہی لوٹتا ہے، اب کیا کیا مثالیں دیں کہ یہاں سب ہی سمجھ دار ہیں۔

مسائل کا انبار ہے، شکایتوں کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے سوال پہ سوال اٹھاہی چلا جاتاہے کیا اندر کیا باہر تنقید کی انگلیاں تھکتی نہیں... حالات اگر قابو سے باہر ہونے لگے تو تھک کر منہ چھپاکر کسی کو نے میں جانے کا کوئی کہے بھی تو سننا نہیں چاہیے بلکہ اپنے اعصاب پر قابو پائے، مسائل کو روئی کے گالوں کی طرح پیٹتے ذرا ہمت اور ثابت قدمی سے بڑھتے جایئے کہ اس میں سب کی بھلائی مضمر ہے، ذرا غور سے دیکھیے اپنوں کے چہروں پر بھی نقاب ہوتے ہیں اور کبھی غیر بھی دوست بن کر اپنوں سے آگے بڑھ کر حق ادا کر جاتے ہیں، کیانی صاحب جانے والے ہیں، چیف جسٹس بھی اس لائن کے مسافر بن چکے ہیں، ہمیں ان دونوں جیسے مضبوط اعصاب کے مالک ذہین افراد کی ضرورت ہے جو ہمارے ملک کا بہت سا بوجھ سمیٹ لینے کا اہل ہو جس کی ایک لبیک پر لوگ دیوانہ وار دوڑے چلے آئیں کہ ایسے محب وطن افراد تو کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ آج بھی اتنا وقت گزر جانے کے بعد بہت سے ادارے بغیر کسی سرپرست کے کام کررہے ہیں بیوروکریسی کی وہ کونسی جماعت ہے جس کا انتظار ہورہاہے، کراچی شہر کی ہی مثال لیں ایک ڈی ایس پی کی نوکری پر کتنے چہرے بدلے آخر اتنی اتھل پتھل کیوں... اہلیت، قابلیت، معیار پرکھنے،دوستی نبھانے کے چکر ہیں، کہیں پاکستان کی کہانی کا پورا مسودہ کسی اور کے ہاتھ نہ منتقل ہوجائے (خدا نہ کرے) کون آپ کے ساتھ کیا کرتاہے، کر رہاہے نہ دیکھیے آپ نے کیا کرنا ہے یہ دیکھیے، کیونکہ آپ کے عمل سے ہی پاکستان کی عزت میں اضافہ ہوسکتاہے... تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر...!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں