غیرت کے نام پر قتل
خواتین کو ہر دور میں مختلف معاشرتی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ عزت یا غیرت کے نام پر قتل ان میں ایک...
خواتین کو ہر دور میں مختلف معاشرتی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ عزت یا غیرت کے نام پر قتل ان میں ایک عمومی مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں خواتین اپنے رشتے داروں اور اہل خانہ کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ بغیر روک ٹوک کے بدستور جاری ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات وہ ناقابل قبول تعلقات ہیں جنھیں ان کے خاندان کے افراد بالخصوص ان کے گھر والے بے عزتی میں شمارکرتے ہیں۔ عام طور پر عزت کے نام پر ہونے والے قتل میں عزت والی کوئی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ بے گناہ قتل ہوتے ہیں۔ جس کے بارے میں سورۃ النساء کی آیت 93 میں واضح فرمایا گیا ہے کہ ''اور جو کوئی کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ کی لعنت ہے۔ ان کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔''
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں پانچ ہزار خواتین عزت کے نام پر اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات زیادہ تر مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور شمالی افریقہ جیسے روایتی و قبائلی معاشروں میں پیش آتے ہیں۔
ترک اور عرب خاندانوں میں روایت ہے کہ بچپن ہی سے بہنوں کی سرپرستی کے لیے ان کے بھائیوں کو مقرر کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بہنیں کہیں بھی جائیں یا تو ان کے بھائی اپنی بہنوں کے ہمراہ ہوں یا پھر بہنیں بھائیوں کی اجازت سے گھر سے باہر جاسکتی ہیں۔ اس معاشرے میں ان روایات کی بدولت بھائیوں کو یہ تربیت ملتی ہے کہ وہ بہنوں کو خاندانی روایات کے انحراف پر قتل کرسکتے ہیں۔ ان ہی روایات کی بھینٹ برلن میں ایک جوان ترک خاتون خیرمن ہاتن بھی چڑھی۔ اسے سرعام سڑک پر گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ وہ اپنے خاوند سے طلاق لے کر بیٹے کے ہمراہ برلن میں اکیلی رہتی تھی۔ وہ ایک مقامی پولی ٹیکنیک میں زیر تعلیم بھی تھی اور گھریلو ضروریات کی وجہ سے اسے گھر سے باہر جانا پڑتا تھا۔ ہاتن عام جرمن خواتین کی طرح زندگی بسر کرتی اور حجاب کے استعمال کے بغیر رہتی تھی جسے اس کے خاندان والے برداشت نہ کرسکے اور موت کی وادیوں میں بھیج دیا۔
وطن عزیز پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بہت عام ہیں اور حکومت کی تعزیرات کی موجودگی کے باوجود ان میں کمی نہیں دیکھی گئی۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر کیے جانے والے قتل کو مختلف صوبوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ کے باسی اسے کاروکاری کہتے ہیں۔ پنجاب میں کالا کالی، خیبر پختونخوا میں طور طورا جب کہ صوبہ بلوچستان میں یہ سیاہ کاری کے نام سے منسوب ہے۔ عام طور پر جب بھی غیرت کے نام پر قتل کی بات کی جاتی ہے تو ذہنوں میں شادی کے بغیر جنسی تعلقات کا تصور آتا ہے۔ کاروکاری بھی اسی زمرے میں آتی ہے اور یہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کا سندھ میں قدیم دستور ہے۔ اسے بدکاری یا زناکاری کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق کاروکاری کے مقدمات عام مقدمات سے مختلف ہوتے ہیں لہٰذا انھیں الگ انداز سے نمٹایا جاتا ہے۔ کاروکاری دراصل ایک منظم منصوبے سے کی جاتی ہے۔ جس میں اکثر مرد اپنے دیرینہ جھگڑے مٹانے، زمین و زر کے حصول، قرض سے گلو خلاصی، ناپسندیدہ بیوی سے چھٹکارہ حاصل کرکے دوسری شادی کرنے سمیت بے شمار مقاصد کے حصول کی خاطر عورتوں پر کسی دوسرے مرد سے تعلقات کا الزام عائد کرکے کاروکاری قرار دے کر قتل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں لڑکی کی من پسند اور غیر خاندان میں شادی کرنا بھی کاروکاری میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ سو کے قریب خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔
قومی اسمبلی میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں سال 2013 کے پہلے سات ماہ کے دوران 2 سو پچاس سے زائد افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ سال 2012 میں غیرت کے نام پر 391 افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے جن میں 2 سو سے زائد خواتین ہیں۔ سب سے کم تعداد صوبہ بلوچستان کی ہے جہاں جنوری سے اب تک 13 افراد جب کہ 2012 میں یہ تعداد 37 تھی۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی ان واقعات کے رونما ہونے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ہریانہ، پنجاب اور اتر پردیش میں سالانہ نو سو سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ انڈیا کی سپریم کورٹ نے بھی عزت و غیرت کے نام پر قتل کی روایت کو شرمناک اور بربریت پر مبنی وحشیانہ عمل سے تعبیر کیا ہے۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں قوانین بنائے گئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور بالخصوص تحریک نسواں نے اس کے تدارک کے لیے کوششیں کیں لیکن خاندانی اور قبائلی روایات کا مقابلہ نہ کرسکیں اور اب تک انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اب بھی جب کہ دور جدید میں تقاضے مختلف ہوگئے ہیں لیکن برادریوں اور قبیلوں سے باہر شادی کرنے پر سخت اور اذیت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ سماجی ماہرین کا ان اقدامات پر کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل دراصل ایک طرح کا صنفی امتیاز ہے جو خواتین کے خلاف تشدد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی قانون کبھی بھی عورتوں کے قتل کو اس وقت تک نہیں روک سکتا جب تک معاشرے میں اس امتیاز کی نفی نہیں کی جاتی اور عورت کو نچلے درجے کے شہری سے نجات نہیں مل جاتی۔ یہ جرم خاندان اپنی غیرت کی حفاظت کے لیے خواتین کے قتل کی صورت میں ہوتے رہیں گے۔ ضروری ہے کہ قبائلی دور کی اس قدیم اور قبیح رسم کو ختم کرنے کے لیے لوگوں میں شعوری آگاہی پیدا کی جائے تاکہ معاشرے میں تبدیلی پیدا ہو۔ غیرت کے نام پر قتل میں کمی لانے کے لیے قوانین مرتب کیے جائیں اور ان پر عمل درآمد کرکے درج مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عدالتوں سے مثالی سزاؤں کو یقینی بنایا جائے تو ممکن ہے کہ اس کا انسداد ہوسکے۔