کامیابی کی دستک
اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ قدرت مستقل مزاج اور محنتی انسان پر ضرور مہربان ہوتی ہے...
اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ قدرت مستقل مزاج اور محنتی انسان پر ضرور مہربان ہوتی ہے۔جہد مسلسل کی بدولت بہت سے لوگوں نے اپنے بلند و بالا خوابوں کو حقیقت کردکھایا ہے۔ کسی صاحب خرد و دانش کا مشہور قول ہے ''کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے یا نہیں۔ جب تمہارا ذہن اس کام کے کرنے کا فیصلہ دے دے تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرچکو۔ اس بات سے نہ گھبرائو کہ راستے میں مشکلات آئیں گی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کرکے آگے بڑھتے چلے جائو۔ انشاء اللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔''
دنیا میں ہر کوئی ترقی وکامیابی کا خواہاں ہے۔ ہر انسان کی زندگی اسی مقصد کے گرد چکر کاٹتی نظر آتی ہے۔ لیکن بہت ہی کم لوگ صحیح معنوں میں اپنے اس مقصد کو حاصل کرپاتے ہیں۔کچھ لوگ اپنے مقصد کو پانے کا دم تو بھرتے ہیں لیکن راستے میں ہی ان کے ارادے دم توڑ جاتے ہیں۔جب کہ بہت سے لوگ کھلی آنکھوں سے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان کی تعبیر بھی پالیتے ہیں۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں۔انٹر نیٹ کی دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن ''گوگل'' کے شریک بانی ''لیری پیچ'' نے ایک بار ''یونیورسٹی آف مشی گن'' کے طالب علموں کو لیکچر دیتے ہوئے کہا ''میں سمجھتا ہوں کہ خواب جتنے بڑے ہوں ان کو حقیقت بنانا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ آپ کو یہ بات بڑی عجیب لگے گی۔ لیکن آپ اس بات پر غور کریں کہ بہت کم ایسے جنونی ہوں گے جو بڑے خواب دیکھتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو کم لوگوں سے مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میں ان سب کو ان کے نام سے جانتا ہوں۔ بہترین لوگ بڑے بڑے چیلنجوںپر کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چمٹے رہتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔ گوگل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔'' ممتاز امریکی سینیٹر ''میٹی ہنٹر'' ایک بار ''مون مائوتھ کالج'' کے اسٹوڈنٹس کو بتا رہی تھی '' وہ جو کچھ بننا چاہتے ہیں، بن سکتے ہیں، کامیابی آپ کی منتظر ہے۔ اس لیے دلیری سے کام لیں اور اپنی پسند اور رجحانات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ہم جو کچھ بننا چاہتے ہیں، بن سکتے ہیں یہ مت سوچیں کہ اب وقت گزر چکا ہے۔ زندگی پچھتاوئوں کا نام نہیں۔ اپنے لیے کوئی ایسا کام منتخب کریں جو آپ دلچسپی اور یکسوئی سے کرسکیں اور اس میں اس وقت تک جُتے رہیں جب تک کامیاب نہیں ہوجاتے ۔ دولت، عزت ہر چیز خودبخود ملنے لگے گی۔اس بارے میں سوچتے رہنے میں اپنا وقت ضایع نہ کریں کہ میں یہ کرنا چاہتا ہوں یا ایسا شخص بننا چاہتا ہوں، ہمت سے کام لیں جو بننا چاہتے ہیں وہی بنیں۔ اپنا وقت صرف خواب دیکھتے رہنے میں ضایع نہ کریں بلکہ خواب کی تکمیل کا منصوبہ بھی بنائیں۔ ''
آج ''سام سنگ'' کا شمار دنیا کی ٹاپ ٹین کمپنیز میں ہوتاہے۔ اس کمپنی کی آمدنی جنوبی کوریا کے1082 بلین ڈالر کےGDPکے 17فیصد کے برابر ہے۔ اس کی متعدد پروڈکٹ مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ اس کمپنی کا بانی ''لی پائی اینگ چل'' ایک غریب اورکنگلا انسان تھا۔ بچپن میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس نے تعلیم چھوڑی اور چاولوں کا کاروبار شروع کردیا، اس کام میں ''لی'' کو ناکامی ہوئی۔ اس کے بعد اس نے باربرداری کا کام شروع کیا اس میں بھی ناکام ہوگیا لیکن ''لی'' نے ہمت نہ ہاری، اس نے تیسرا کاروبار شروع کردیا۔ وہ ترقی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مزید محنت شروع کی، وہ مستقل مزاجی سے محنت کرتا رہا یہاں تک کہ کامیاب ہوگیا۔اس کا کہنا تھا کہ مجھے اس کامیابی کے لیے طویل عرصہ جدوجہد کرنا پڑی ہے، ترقی کرنا میرا خواب تھا جو میں نے پورا کیا ہے۔ اسی طرح''کے ایف سی'' ریسٹورنٹ کا معاملہ ہے۔ آج کے ایف سی ریسٹورنٹ دنیا میں میکڈونلڈ کے بعد فاسٹ فوڈ کی دوسری بڑی چین ہے۔''کے ایف سی'' کے 120ممالک میں بیس ہزار کے قریب ریسٹورینٹس ہیں۔
جن کی سالانہ آمدنی اٹھارہ بلین ڈالر تک ہے۔'' کے ایف سی'' کا بانی ''کرنل سینڈرز'' چار سال کی عمر میں اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوگیا تھا۔ کچھ بڑا ہوا تو گھر کی ساری ذمے داری کرنل سینڈرز پر آن پڑی۔ اس نے گھر کا خرچہ چلانے کے لیے ''کنٹکی ٹائون'' میں ایک دکان کھول لی۔ اس نے کچھ ہی عرصے میں ترقی کرتے ہوئے ''sandars court oamp cafe'' کے نام سے کچھ بڑا ریسٹورینٹ بنالیا۔ کام کچھ چلا ہی تھا کہ اس کے ریسٹورینٹ میں آگ لگ گئی اور سارا ریسٹورینٹ جل کرراکھ ہوگیا۔ ''کرنل سینڈرز'' نے ہمت نہ ہاری اور کام دوبارہ شروع کردیا۔ محنت سے اس کا کام اچھا خاصا چل گیا لیکن 1955میں ایک بار پھر ''کرنل'' کا سارا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے کام کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے اس نے دن رات ایک کردیا۔وہ آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ''کے ایف سی'' آج دنیا کی دوسری بڑی فاسٹ فوڈ چین ہے۔
''کے ایف سی'' کے بانی ''کرنل سینڈرز'' نے ناممکن کا لفظ ہی اپنی ڈکشنری سے نکال دیا تھا۔مائیکروسافٹ کمپنی کا چیف ایگزیکٹو اسٹیوبالمر نے ایک بار یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے طالب علموں کو پْرعزم بننے کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا: ''شوق ہی کافی نہیں، پْرعزم ہونا بھی ضروری ہے۔ رغبت یا لگائو، کسی کام کے بارے میں بہت زیادہ پْرجوش ہونے کی اہلیت ہے۔ ارادے کا پکا ہونا، اس کام سے جڑے رہنے کی اہلیت ہے۔ اگر آپ آج تک شروع کی جانے والی کمپنیوں پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا ان میں سے زیادہ تر ناکام ہوجاتی ہیں۔ اگر آپ ان کمپنیوں کو دیکھیں جو کامیاب ہوئیں جیسے مائیکروسافٹ، ایپل، گوگل، فیس بک، ان کمپنیوں پر بھی مشکل وقت آیا۔ معاملہ ایساہی ہے کہ آپ کو تھوڑی سی کامیابی ملتی ہے پھر آپ کے سامنے رکاوٹیں آ جاتی ہیں۔ آپ کسی نئے آئیڈیے، نئی ایجاد کو متعارف کرتے ہیں اور ابتدا میں وہ کام نہیں ہوتا۔ آپ اس کے بارے میں کتنے پْرعزم، پْرامید اور کس حد تک ڈٹے ہوئے ہیں، یہ چیز آپ کی کامیابی کا تعین کرتی ہے۔''
دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق اورکارنامے یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور محنت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان مسلسل محنت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ صحیح طریقے پر محنت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ مستقل محنت کے ذریعے ہی بڑے بڑے علمائے کرام، سائنسدان، سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد اور قلمکار و ادیب اس مقامِ خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انھیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔آج کا انسان زمین و آسمان، کوہسار و صحرا اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ محنت، مستقل مزاجی اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔ مستقل محنت کے سامنے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ لغزش پیدا کرسکتے ہیں، نہ ہی دشت و صحرا آج تک اس کا راستہ روک سکے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے بلند و بالا زینے تک پہنچے وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔
(نوٹ۔گزشتہ کالم میں جنگ احد کی جگہ جنگ بدرسہوا لکھا گیا ۔ادارہ معذرت خواہ ہے ۔)
دنیا میں ہر کوئی ترقی وکامیابی کا خواہاں ہے۔ ہر انسان کی زندگی اسی مقصد کے گرد چکر کاٹتی نظر آتی ہے۔ لیکن بہت ہی کم لوگ صحیح معنوں میں اپنے اس مقصد کو حاصل کرپاتے ہیں۔کچھ لوگ اپنے مقصد کو پانے کا دم تو بھرتے ہیں لیکن راستے میں ہی ان کے ارادے دم توڑ جاتے ہیں۔جب کہ بہت سے لوگ کھلی آنکھوں سے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان کی تعبیر بھی پالیتے ہیں۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں۔انٹر نیٹ کی دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن ''گوگل'' کے شریک بانی ''لیری پیچ'' نے ایک بار ''یونیورسٹی آف مشی گن'' کے طالب علموں کو لیکچر دیتے ہوئے کہا ''میں سمجھتا ہوں کہ خواب جتنے بڑے ہوں ان کو حقیقت بنانا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ آپ کو یہ بات بڑی عجیب لگے گی۔ لیکن آپ اس بات پر غور کریں کہ بہت کم ایسے جنونی ہوں گے جو بڑے خواب دیکھتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو کم لوگوں سے مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میں ان سب کو ان کے نام سے جانتا ہوں۔ بہترین لوگ بڑے بڑے چیلنجوںپر کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چمٹے رہتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔ گوگل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔'' ممتاز امریکی سینیٹر ''میٹی ہنٹر'' ایک بار ''مون مائوتھ کالج'' کے اسٹوڈنٹس کو بتا رہی تھی '' وہ جو کچھ بننا چاہتے ہیں، بن سکتے ہیں، کامیابی آپ کی منتظر ہے۔ اس لیے دلیری سے کام لیں اور اپنی پسند اور رجحانات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ہم جو کچھ بننا چاہتے ہیں، بن سکتے ہیں یہ مت سوچیں کہ اب وقت گزر چکا ہے۔ زندگی پچھتاوئوں کا نام نہیں۔ اپنے لیے کوئی ایسا کام منتخب کریں جو آپ دلچسپی اور یکسوئی سے کرسکیں اور اس میں اس وقت تک جُتے رہیں جب تک کامیاب نہیں ہوجاتے ۔ دولت، عزت ہر چیز خودبخود ملنے لگے گی۔اس بارے میں سوچتے رہنے میں اپنا وقت ضایع نہ کریں کہ میں یہ کرنا چاہتا ہوں یا ایسا شخص بننا چاہتا ہوں، ہمت سے کام لیں جو بننا چاہتے ہیں وہی بنیں۔ اپنا وقت صرف خواب دیکھتے رہنے میں ضایع نہ کریں بلکہ خواب کی تکمیل کا منصوبہ بھی بنائیں۔ ''
آج ''سام سنگ'' کا شمار دنیا کی ٹاپ ٹین کمپنیز میں ہوتاہے۔ اس کمپنی کی آمدنی جنوبی کوریا کے1082 بلین ڈالر کےGDPکے 17فیصد کے برابر ہے۔ اس کی متعدد پروڈکٹ مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ اس کمپنی کا بانی ''لی پائی اینگ چل'' ایک غریب اورکنگلا انسان تھا۔ بچپن میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس نے تعلیم چھوڑی اور چاولوں کا کاروبار شروع کردیا، اس کام میں ''لی'' کو ناکامی ہوئی۔ اس کے بعد اس نے باربرداری کا کام شروع کیا اس میں بھی ناکام ہوگیا لیکن ''لی'' نے ہمت نہ ہاری، اس نے تیسرا کاروبار شروع کردیا۔ وہ ترقی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مزید محنت شروع کی، وہ مستقل مزاجی سے محنت کرتا رہا یہاں تک کہ کامیاب ہوگیا۔اس کا کہنا تھا کہ مجھے اس کامیابی کے لیے طویل عرصہ جدوجہد کرنا پڑی ہے، ترقی کرنا میرا خواب تھا جو میں نے پورا کیا ہے۔ اسی طرح''کے ایف سی'' ریسٹورنٹ کا معاملہ ہے۔ آج کے ایف سی ریسٹورنٹ دنیا میں میکڈونلڈ کے بعد فاسٹ فوڈ کی دوسری بڑی چین ہے۔''کے ایف سی'' کے 120ممالک میں بیس ہزار کے قریب ریسٹورینٹس ہیں۔
جن کی سالانہ آمدنی اٹھارہ بلین ڈالر تک ہے۔'' کے ایف سی'' کا بانی ''کرنل سینڈرز'' چار سال کی عمر میں اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوگیا تھا۔ کچھ بڑا ہوا تو گھر کی ساری ذمے داری کرنل سینڈرز پر آن پڑی۔ اس نے گھر کا خرچہ چلانے کے لیے ''کنٹکی ٹائون'' میں ایک دکان کھول لی۔ اس نے کچھ ہی عرصے میں ترقی کرتے ہوئے ''sandars court oamp cafe'' کے نام سے کچھ بڑا ریسٹورینٹ بنالیا۔ کام کچھ چلا ہی تھا کہ اس کے ریسٹورینٹ میں آگ لگ گئی اور سارا ریسٹورینٹ جل کرراکھ ہوگیا۔ ''کرنل سینڈرز'' نے ہمت نہ ہاری اور کام دوبارہ شروع کردیا۔ محنت سے اس کا کام اچھا خاصا چل گیا لیکن 1955میں ایک بار پھر ''کرنل'' کا سارا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے کام کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے اس نے دن رات ایک کردیا۔وہ آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ''کے ایف سی'' آج دنیا کی دوسری بڑی فاسٹ فوڈ چین ہے۔
''کے ایف سی'' کے بانی ''کرنل سینڈرز'' نے ناممکن کا لفظ ہی اپنی ڈکشنری سے نکال دیا تھا۔مائیکروسافٹ کمپنی کا چیف ایگزیکٹو اسٹیوبالمر نے ایک بار یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے طالب علموں کو پْرعزم بننے کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا: ''شوق ہی کافی نہیں، پْرعزم ہونا بھی ضروری ہے۔ رغبت یا لگائو، کسی کام کے بارے میں بہت زیادہ پْرجوش ہونے کی اہلیت ہے۔ ارادے کا پکا ہونا، اس کام سے جڑے رہنے کی اہلیت ہے۔ اگر آپ آج تک شروع کی جانے والی کمپنیوں پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا ان میں سے زیادہ تر ناکام ہوجاتی ہیں۔ اگر آپ ان کمپنیوں کو دیکھیں جو کامیاب ہوئیں جیسے مائیکروسافٹ، ایپل، گوگل، فیس بک، ان کمپنیوں پر بھی مشکل وقت آیا۔ معاملہ ایساہی ہے کہ آپ کو تھوڑی سی کامیابی ملتی ہے پھر آپ کے سامنے رکاوٹیں آ جاتی ہیں۔ آپ کسی نئے آئیڈیے، نئی ایجاد کو متعارف کرتے ہیں اور ابتدا میں وہ کام نہیں ہوتا۔ آپ اس کے بارے میں کتنے پْرعزم، پْرامید اور کس حد تک ڈٹے ہوئے ہیں، یہ چیز آپ کی کامیابی کا تعین کرتی ہے۔''
دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق اورکارنامے یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور محنت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان مسلسل محنت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ صحیح طریقے پر محنت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ مستقل محنت کے ذریعے ہی بڑے بڑے علمائے کرام، سائنسدان، سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد اور قلمکار و ادیب اس مقامِ خاص تک پہنچے جہاں آج ہم انھیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔آج کا انسان زمین و آسمان، کوہسار و صحرا اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ محنت، مستقل مزاجی اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔ مستقل محنت کے سامنے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ لغزش پیدا کرسکتے ہیں، نہ ہی دشت و صحرا آج تک اس کا راستہ روک سکے ہیں۔ تمام افراد جو کامیابی کے بلند و بالا زینے تک پہنچے وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔
(نوٹ۔گزشتہ کالم میں جنگ احد کی جگہ جنگ بدرسہوا لکھا گیا ۔ادارہ معذرت خواہ ہے ۔)