موجودہ صورتحال میں ہوش مندی کا مظاہرہ کیا جائے
ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کے بعد...
ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں حکومتی سطح پر پریشان کن صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ادھر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ ہفتہ کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو علاقے میں امن کوششوں کا قتل قرار دیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ ہفتے کی شام 6 بجے طالبان سے مذاکراتی عمل کے آغاز کا اعلان کرنا تھا، ان کی دعا ہے کہ یہ دھچکا وقتی ہو۔ ڈرون حملے سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے معاملہ پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ دو سے تین روز میں کابینہ کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں امریکا سے تعلقات اور تعاون کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا ۔ وزیر داخلہ نے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے حکومتی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سات ہفتوں کی شبانہ روز محنت کے بعد دو روز قبل ان کا طالبان سے باضابطہ رابطہ ہوا تھا جس کے تحت جید علماء کے تین رکنی وفد نے ہفتہ کے روز امن کا پیغام پہنچانے ڈانڈے درپہ خیل جانا تھا اور اس کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو بھی علم تھا لیکن اس حملے سے ان مقاصد کو شدید نقصان پہنچا۔
اگلے روز امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج کیا گیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ چاہے صوبائی حکومت چلی جائے' نیٹو سپلائی بند کرا دیں گے اور اسمبلیوں میں قراردادیں لائیں گے۔ وہ امریکا کے خلاف مسلسل سخت زبان استعمال کررہے ہیں۔پاکستان کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے ڈرون حملے کو مذاکرات سبوتاژ کرنے اور پاکستان میں امن و امان برباد کرنے کی خوفناک سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی پاکستان نے طالبان سے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کی کوشش کی امریکا نے ڈرون حملے کر کے حالات خراب کیے۔ اس مطالبے پر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو سپلائی روکنے سے ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے، جب سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد نیٹو سپلائی بند کی گئی تو تب بھی ڈرون حملے نہیں رکے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو حکومتی سطح پر وفاقی وزیر داخلہ امریکا کے بارے میں سخت لب ولہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے خاصے نرم لہجے میں لیکن منطقی گفتگو کی ہے۔تاہم حکومت نے امریکا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا ہے۔
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی سیاست میں ردعمل پیدا ہونا یقینی تھا کیونکہ ان قوتوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پس پردہ اپنا کردار ادا کررہی تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان میں خودکش حملے پروان چڑھانے کی منظم سازش ہے۔اس استدلال میں کسی حد تک وزن موجود ہے کیونکہ ممکن ہے کہ طالبان اپنا شدید ردعمل دیں ۔موجودہ صورتحال میں اب پاک امریکا تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور پاکستانی حکومت موجودہ بحران سے کیسے نمٹتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن حکومت نے طالبان کے ساتھ ہر صورت امن مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پیدا ہونے والی پریشان کن صورت حال پر مشاورت کے لیے لندن میں وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں امن کوششیں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس حملے سے مذاکراتی عمل میں رخنہ تو پڑا ہے اور طالبان نے بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے مگر حکومت ہر صورت طالبان سے مذاکرات کرنے کی حامی ہے۔ حکومت کا یہ طرز عمل مثبت ہے۔ اگر امریکا نے حکیم اللہ محسود کو ہلاک کر کے پاکستان میں امن تباہ کرنے کی کوئی سازش کی ہے تو اسے ناکام بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں متحد ہو کر حکومت کا ساتھ دیں اورہر اس کوشش کو ناکام بنا دیں جس کی قیمت امن کی قربانی کی صورت میں دینی پڑے۔
بہرحال اس وقت صورت حال خاصی غیرواضح اور پیچیدہ ہے۔ طالبان ابھی تک اپنے سربراہ کا تقرر نہیں کر سکے۔ مختلف ذرائع سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے اندر بھی تقسیم موجود ہے۔ خان سعید سجنا بظاہر مضبوط امیدوار ہیں لیکن ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ فضل اللہ بھی طالبان کی سربراہی چاہتا ہے۔ حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد طالبان کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اس کا پتہ اس وقت ہی چلے گا جب ان کے سربراہ کا فیصلہ ہو جائے گا۔ طالبان جنگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا امن کے لیے پاکستان کی حکومت کے ساتھ بات چیت کی راہ اپناتے ہیں، ان فیصلوں سے طالبان کی فہم وفراست اور دوراندیشی کا اندازہ ہو جائے گا۔ پاکستان کی حکومت تو اب بھی طالبان سے مذاکرات چاہتی ہے۔ بہتر یہ یہی ہے کہ طالبان بھی یہی راہ اختیار کریں۔ طالبان کو پاکستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ڈرون حملوں کو ایشو نہیں بنانا چاہیے طالبان کو وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ اگر وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کر کے امن کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں تو ڈرون کا مسئلہ خودبخود حل ہو جائے گا۔ ادھر ملک کی سیاسی قیادت اور حکومتی وزراء کو چاہیے کہ وہ سوچ سمجھ کر بیانات جاری کریں۔ جذباتیت سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستان نے امریکا سے جنگ نہیں کرنی ہے۔ پاکستان امریکا سے امداد بھی لے رہا ہے، اس لیے وفاقی حکومت اور خیبرپختون خوا حکومت کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کرتے ہوئے قوم کو درپیش مسائل کی سنگینی کا ادراک کر کے اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
اگلے روز امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج کیا گیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ چاہے صوبائی حکومت چلی جائے' نیٹو سپلائی بند کرا دیں گے اور اسمبلیوں میں قراردادیں لائیں گے۔ وہ امریکا کے خلاف مسلسل سخت زبان استعمال کررہے ہیں۔پاکستان کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے ڈرون حملے کو مذاکرات سبوتاژ کرنے اور پاکستان میں امن و امان برباد کرنے کی خوفناک سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی پاکستان نے طالبان سے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کی کوشش کی امریکا نے ڈرون حملے کر کے حالات خراب کیے۔ اس مطالبے پر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو سپلائی روکنے سے ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے، جب سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد نیٹو سپلائی بند کی گئی تو تب بھی ڈرون حملے نہیں رکے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو حکومتی سطح پر وفاقی وزیر داخلہ امریکا کے بارے میں سخت لب ولہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے خاصے نرم لہجے میں لیکن منطقی گفتگو کی ہے۔تاہم حکومت نے امریکا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا ہے۔
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی سیاست میں ردعمل پیدا ہونا یقینی تھا کیونکہ ان قوتوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پس پردہ اپنا کردار ادا کررہی تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان میں خودکش حملے پروان چڑھانے کی منظم سازش ہے۔اس استدلال میں کسی حد تک وزن موجود ہے کیونکہ ممکن ہے کہ طالبان اپنا شدید ردعمل دیں ۔موجودہ صورتحال میں اب پاک امریکا تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور پاکستانی حکومت موجودہ بحران سے کیسے نمٹتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن حکومت نے طالبان کے ساتھ ہر صورت امن مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پیدا ہونے والی پریشان کن صورت حال پر مشاورت کے لیے لندن میں وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں امن کوششیں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس حملے سے مذاکراتی عمل میں رخنہ تو پڑا ہے اور طالبان نے بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے مگر حکومت ہر صورت طالبان سے مذاکرات کرنے کی حامی ہے۔ حکومت کا یہ طرز عمل مثبت ہے۔ اگر امریکا نے حکیم اللہ محسود کو ہلاک کر کے پاکستان میں امن تباہ کرنے کی کوئی سازش کی ہے تو اسے ناکام بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں متحد ہو کر حکومت کا ساتھ دیں اورہر اس کوشش کو ناکام بنا دیں جس کی قیمت امن کی قربانی کی صورت میں دینی پڑے۔
بہرحال اس وقت صورت حال خاصی غیرواضح اور پیچیدہ ہے۔ طالبان ابھی تک اپنے سربراہ کا تقرر نہیں کر سکے۔ مختلف ذرائع سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے اندر بھی تقسیم موجود ہے۔ خان سعید سجنا بظاہر مضبوط امیدوار ہیں لیکن ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ فضل اللہ بھی طالبان کی سربراہی چاہتا ہے۔ حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد طالبان کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اس کا پتہ اس وقت ہی چلے گا جب ان کے سربراہ کا فیصلہ ہو جائے گا۔ طالبان جنگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا امن کے لیے پاکستان کی حکومت کے ساتھ بات چیت کی راہ اپناتے ہیں، ان فیصلوں سے طالبان کی فہم وفراست اور دوراندیشی کا اندازہ ہو جائے گا۔ پاکستان کی حکومت تو اب بھی طالبان سے مذاکرات چاہتی ہے۔ بہتر یہ یہی ہے کہ طالبان بھی یہی راہ اختیار کریں۔ طالبان کو پاکستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ڈرون حملوں کو ایشو نہیں بنانا چاہیے طالبان کو وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ اگر وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کر کے امن کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں تو ڈرون کا مسئلہ خودبخود حل ہو جائے گا۔ ادھر ملک کی سیاسی قیادت اور حکومتی وزراء کو چاہیے کہ وہ سوچ سمجھ کر بیانات جاری کریں۔ جذباتیت سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستان نے امریکا سے جنگ نہیں کرنی ہے۔ پاکستان امریکا سے امداد بھی لے رہا ہے، اس لیے وفاقی حکومت اور خیبرپختون خوا حکومت کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کرتے ہوئے قوم کو درپیش مسائل کی سنگینی کا ادراک کر کے اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔