حکیم اللہ محسود کی موت اور ہماری سیاست
غیر ملکی قوت کا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہماری سر حدوں کے اندر بمباری کرنا ہر اس اصول کی نفی۔۔۔
www.facebook.com/syedtalathussain.official
حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد سیاسی جماعتوں کی طرف سے جو رد عمل آیا، اس میں تین عناصر نمایاں ہیں ۔ غصے کا، حیرانی اور پریشانی کا اور تیسرا سیاست کا ۔ غصے اور احتجاج کا عنصر اس طور سے قدرتی ہے کہ ڈرون حملے پاکستان میں بہت غیر مقبول ہیں۔ پچھلے برسوں میں 400 کے قریب ڈرون حملوں نے ہماری خود مختاری کی اینٹ سے ا ینٹ بجا دی ہے۔ ایک خاص طبقے کے سوا جو امریکا کے سامنے ہر وقت اور ہر معاملے پر سجدہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں، ہر کوئی اس پر متفق ہے کہ غیر ملکی قوت کا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہماری سر حدوں کے اندر بمباری کرنا ہر اس اصول کی نفی کرتا ہے جو کسی ریاست کے وجود کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
ان سیاسی جماعتوں کی حد تک جو طاقت میں رہیں یہ شق یقیناً بجا ہے کہ احتجاج اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے بند کمرے میں امریکا کے مختلف اداروں کے ساتھ مختلف اوقات میں جو معاملات طے کیے تھے ڈرون حملے اسی پیرائے میں ہو رہے ہیں ۔ نوا ز لیگ یہ کہہ سکتی ہے کہ اندر خانے طے ہونے والے ان تمام معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ماضی میں ہونے والے غیر رسمی معاہدے یا خاموشی سے اجازت دینے کی اس تمام کارروائی کا ریکارڈ سامنے نہ لا کر موجودہ حکومت نے عملًا اسی پالیسی کو دوام دیا ہے جو پچھلی حکومتوں نے اپنائی ۔ پاکستان کے عسکری اور انٹیلی جنس ادارے بھی اس معاملے پر واضح موقف اختیار کرنے کے باوجود اس تصور کو دور نہیں کر پائے کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی نے کسی طرح سے ڈرون حملوں کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مگر ظاہراً سب اس آسمانی آفت کو پاکستان پر مسلط کرنے کے خلاف ہیں ۔
دوسرا عنصر حیرانی اور پریشانی کا ہے۔ مجھے اس میں تصنع اور بناوٹ غالب نظر آتی ہے ۔ یہ کہنا کہ اس حملے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے بارے میں امریکا کی پالیسی کیا ہے خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے ۔ سر کجھاتے ہوئے تمام سیاست دانوں سے معذرت کے ساتھ ،حکیم اللہ محسود کو مارنے والا ڈرون حملہ پہلا دوسرا ، تیسرا یا بیسواں نہیں تھا ،400 کے قریب اسی قسم کے حملے ہماری سر زمیں پر ہوچکے ہیں جس میں اکا دکا نہیں بیسیوں القاعدہ کے اہم اراکین اور تحریک طالبان پاکستان کو چلانے والے مارے جا چکے ہیں ۔ ان حملوں میں بڑی تعداد میں عام شہری بھی مارے گئے جن کے محلوں میں یا گھروں میں ان لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی یا خاندانوں کے سر براہوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے اپنے دفاتر قائم کیے ہوئے تھے کبھی کبھار علم احتجاج بلند کرنے کے علاوہ ان حیران زدہ سیاسی جماعتوں نے ان سیکڑوں حملوں پر نہ تو کوئی پالیسی مرتب کی اور نہ ہی عمومی قومی احتجاج کو پالیسی میں تبدیل کیا ۔ خیبرپختونخوا کی حکومت پچھلے چند ماہ میں طاقت میں موجود ہونے کے باوجود بہت سے ڈرون حملے ہضم کر گئی ۔حکیم اللہ محسود کی موت سے پہلے جتنے بھی ڈرون حملے ہوئے ان پر احتجاجی بیانات کیسوا کوئی اور احتجاج کا موثر طریقہ نہیں اپنایا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے اس سے بھی زیادہ فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور امریکا کے ساتھ بغلگیر ہو کر کابل اور کشمیر جیسے اہم ترین قومی معاملات پر ہمنوائی اور مدح سرائی کی پالیسی جاری رکھی ۔جے یو آئی نے بھی یہی عادت اپنائی اور خود کو امریکا کے ساتھ مثبت انداز میں جوڑنے کی کاوشیں شدو مد سے کرتی رہی پی پی ، ایم کیو ایم یا اے این پی کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں، ان کے تعلقات شادی کے ان جوڑوں کی طرح ہیں جن کے اکٹھا رہنے کا فیصلہ آسمانوں پر بہت عرصہ پہلے ہو چکا تھا مگر اب یہ تمام جماعتیں ایسے بلبلا اٹھی ہیں کہ جیسے پہلی مرتبہ ان کو اس ملک کی بے عزتی اور امریکا کی سازشوں کی اطلاح ملی ہے ۔ بظاہر حیران بھی ایسے دیکھائی دے رہے ہیں کہ جیسے ان کے سامنے پہلی مرتبہ فضا سے آگ اگلتے ہوئے جہاز وزیرستان کے بازاروں میں اپنی جنگ کو جارے رکھنے کے شواہد چھوڑ گئے ہوں ۔ بنیادی نقطہ یا سوال یہ ہے کہ جمعے کے ڈرون حملے سے پہلے ہونیوالے ڈرون حملوں کو ہضم کرنیوالی جماعتیں یکدم بد ہضمی کا شکار کیوں نظر آتی ہیں۔ اگر گزشتہ بمباری پر پالیسی بنانے والوں نے ہاتھ پائوں نہیں مارے تو اب سخت ترین کارروائی کرنے کا اہتمام کیوں کیا جا رہا ہے؟کیا یہ سب کچھ احتجاج، غصہ حیرانی اور پریشانی مصنوعی ہے۔
یہ مصنوعی کم اور سیاسی زیادہ ہے ۔ سیاسی جماعتیں اخلاقیات یا اصولوں کی درسگاہیں نہیں ہوتی نہ ان کو چلانے والے وہ جید بزرگ شخصیات ہوتی ہیں جو اصولوں کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کو ہمیشہ تیار رہتی ہیں ۔ سیاسی جماعتیں یا عوام کی قیادت ہر کام سیاسی زاویے سے ہی کرتی ہیں ۔ سیاسی مفادات ہر دوسرے مفاد پر حاوی ہوتا ہے ۔ حکیم اللہ محسود کی موت پر پاکستان مسلم لیگ ن کے احتجاج کو پاکستان کی سیاست سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ۔ نواز لیگ کی حکومت بات چیت کے عمل کے حوالے سے شدید تنقید کا شکار تھی ۔ ہلکی پھلکی سنجیدگی کے اظہار کے پیچھے یہ خاموش اتفاق رائے تھا کہ آخر میں طاقت کے ذریعے ہی ریاست کے اختیار کو بحال کرنا پڑے گا۔ مگر چونکہ پاکستان تحریک انصاف نے طالبان کے ساتھ بات چیت کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ لہٰذا اس مقبول ہوتے ہوئے نقطہ نظر کے دبائو میں ن لیگ کو امن مذاکرات کی راگنی الاپنے کی مجبوری نے آن لیا تھا ۔ مگر اس وقتی راحت نے کبھی نہ کبھی ختم ہو جانا تھا اور ن لیگ نے بات چیت کے اس عمل کی ناکامی اور اس کے بعد آپریشن کے فیصلے کی ذمے داری اٹھانی تھی ۔
امریکی ڈرون حملے نے ان کی یہ مشکل آسان کر دی ہے۔ اب بات چیت کے عمل کی ناکامی نہ نیت کا فطور سمجھی جائے گی اور نہ اس نا تمام کوشش کا نتیجہ یہ کہ خانہ پوری کے لیے کر رہی تھی ۔ حکیم اللہ محسود کی موت پر اب ن لیگ جی بھر کے امن مذاکرات کو پہنچنے والے دھچکے پر ماتم کر رہی ہے ۔ ثابت یہ کیا جا رہا ہے کہ اگر یہ حملہ نہ ہوتا تو مذاکرات کامیاب ہو جاتے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی سیاست سمجھنا نسبتاً آسان ہے ۔ سڑکوں پر احتجاج عمران خان کے اس موقف کی مزید پزیرائی میں تبدیل ہو گا جس کو وہ ہر قیمت پر اپنائے رکھنے پر مصر ہیں ۔ وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے لیے یہ حملہ مزید فائدے کا باعث ہے۔ عوام اور خواص سب کی توجہ اب ان کی غیر موثر اور مسائل سے دوچار حکومت کی کارکردگی پر نہیں ہو گی ۔ ہر کوئی یہی واہ واہ کر رہا ہو گا کہ جوانمردوں نے نیٹو سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کر کے کیا عظیم قومی خدمت کی ہے۔ اگر اس تمام دھما چوکڑی میں خیبر پختونخوا کی حکومت وفاقی حکومت کے ہاتھوں گورنر راج کے ذریعے ختم ہو جاتی ہے تو سو بسم اللہ ۔ عمران خان ویسے ہی نئے الیکشن کی بات کر رہے ہیں۔
اگر قومی پیمانے پر سیاسی احتجاج کا یہ نادر موقع ملتا ہے تو اعتراض کرنے والے بے وقوف ہی ہوں گے ۔ جمیت علمائے اسلام ، پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اپنائے گئے نقطہ نظر سے زیادہ سخت پالیسی اپنانے کی استطاعت نہیں رکھتی۔مگر وہ بات چیت کے عمل کو ہر حال میں جاری رکھنے کا مطالبہ کرتی رہے گی ۔چونکہ پچھلے چند ہفتوں میں مولانا فضل الرحمن نے جس طرح مذاکرات کے پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی جماعت کی سیاسی مرکزیت میں اضافہ کیا ہے اس کے بعد مذاکراتی میز کا ٹوٹ جانا ان کے نیچے سے سیاسی کرسی کو کھسکا سکتا ہے ۔ حکیم اللہ محسود کی موت کا یہ سیاسی پہلو دوسرے تمام پہلوئوں سے کئی زیادہ اہم ہے ۔ نہ احتجاج ہے نہ پریشانی صرف سیاست ہے ۔ یہ سیاست اس ملک کے اندرونی استحکام پر کیا اثر ڈالے گی اس کے متعلق سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قومی سوچ کی روح حکیم اللہ محسود کے مارے جانے سے بہت پہلے پرواز کر گئی تھی پاکستان سیاست کا نہ ختم ہونے والا اکھاڑہ ہے جہاں پر لنگوٹی کسے پہلوان ہر وقت ایک دوسرے کو اڑنگی لگانے کی تاک میں رہتے ہیں ، اس اکھاڑے میں ایک اور دنگل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ہاں اس دوران امریکی ڈرون حملے کرتے رہیں گے اور طالبان بھائی اپنی کارروائیاں حسب معمول جاری رکھیں گے ۔