شیطان اور راستے کے جگنو 1

انسانی ذہن بھی کیا عجب شے ہے۔ انسانی رویے، ایک حیرت کدہ ہیں۔ انسانی رویوں کو سمجھنا مشکل کیا بلکہ۔۔۔


راؤ منظر حیات November 03, 2013
[email protected]

انسانی ذہن بھی کیا عجب شے ہے۔ انسانی رویے، ایک حیرت کدہ ہیں۔ انسانی رویوں کو سمجھنا مشکل کیا بلکہ کسی حد تک نا ممکن ہے۔ انسانی رویہ اگر بلندی کی طرف سفر کرتا ہے تو اپنی ذات کی مکمل نفی کر جاتا ہے۔ دوسروں کے لیے اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے۔ بن مانگے بِک جاتا ہے۔ اور دوسری طرف اگر تنزلی کی پاتال میں چلا جائے تو شیطان بھی طفل مکتب نظر آتا ہے۔

ایک طالبعلم کی حیثیت سے مجھے یقین کامل ہے کہ انسان کی اصل اوقات اور ظَرف کا اُس وقت پتہ چلتا ہے، جب اسے دوسرے انسانوں پر کسی حد تک قادر کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سرکاری نوکری میں تو بالکل عام ہے کہ ایک ذرا سی بہتر پوسٹنگ جو ایک یا ڈیڑھ برس سے ہرگز زیادہ نہیں ہوتی، رویہ کو، اس حد تک تبدیل کر دیتی ہے کہ کئی بار گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ تو کوئی اور ہی شخص ہے اور آپ تو اس کو بالکل نہیں جانتے۔ یہ سرکاری اہلکار عام لوگوں سے کیا کرتے ہیں، وہ ایک شرمناک حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہاں ایک اور چیز، یہی چھوٹے چھوٹے فرعون جب اپنے سے بڑے دربار میں جاتے ہیں تو یہ خوشامدی مسخرے نظر آتے ہیں۔ میں چند ایسے سرکاری اہلکاروں کو بھی جانتا ہوں جو عمرے کی ادائیگی کے لیے خلق خدا سے رشوت اور کئی بار اِحرام مانگتے ہیں۔ اور عمرہ جیسے مقدس فرض ادا کرنے کے بعد لوگوں سے مبارک باد وصول کرتے ہیں جس میں ہر طرح کی ڈالیاں / تحائف ہوتے ہیں۔

الیاس اشعر برطانیہ میں سیلفرڈ کا رہائشی تھا۔ 84 سال کا بزرگ انسان۔ سفید داڑھی سے اس کی بزرگی اور سنجیدہ شخصیت میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ الیاس اب ایک برطانوی شہری تھا۔ نوکری ختم ہونے کے بعد وہ برطانوی حکومت سے پنشن وصول کر رہا تھا۔ طلعت اشعر اس کی عمر رسیدہ اہلیہ تھی جو 68 برس کی تھی۔ ان کی بیٹی فائزہ بھی والد کے ساتھ رہتی تھی اور وہ بھی 46 برس کی تھی۔ یہ لوگ پاکستان آتے جاتے رہتے تھے۔ کیونکہ اِن کے اکثر عزیز و اقارب پاکستان میں رہتے تھے۔ 2000 میں یہ میاں بیوی پاکستان آئے۔ واپسی پر''سش'' نام کی ایک نو سالہ بچی کو اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے۔ اشعر کا گھر کروم ویل روڈ پر واقع تھا اور خاصہ کشادہ اور قیمتی تھا۔ اس میں پانچ بیڈ رومز تھے۔ برطانیہ کے اعتبار سے یہ واقعی ایک بہت بڑا گھر تھا۔پاکستان میں ''سش'' کے والدین فوت ہو چکے تھے۔ اشعر اور اس کی اہلیہ نے ''سش'' کے لواحقین کو یقین دلایا تھا کہ وہ بالکل ان کی اپنی بیٹی کی طرح ہے۔ مزید وہ اسے پڑھا لکھا کر برطانیہ میں کام دلوا دیں گے اور اس کی زندگی پاکستان سے بہت بہتر ہو جائے گی۔ بچی گونگی اور بہری تھی۔ پیدا ہونے سے لے کر اب تک وہ سننے اور بولنے کی قوت سے مکمل محروم تھی۔

اشعر نے اس بچی کا پاسپورٹ پاکستان سے بنوایا اور معمولی سے پیسے ادا کر کے اس کی عمر 20 سال لکھوا دی۔ اس معصوم بچی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ برطانیہ جا کر اُس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ اشعر نے اُس بچی کا ویزہ لگوایا اور 2000 میں وہ اپنی اہلیہ سمیت، پاکستان سے واپسی پر اس بچی کو برطانیہ لے آیا۔ ائر پورٹ پر مکمل جھوٹ بول کر یہ لوگ اس بچی کو اپنے گھر لے آئے۔ ان کے گھر میں ایک تہہ خانہ تھا۔ نو سال کی بچی کو برطانیہ آتے ہی سب سے پہلا تحفہ یہ ملا کہ اُس کو اِس تہہ خانہ میں بند کر دیا گیا۔ اس زیر زمین کمرے کو جانے والی سیڑھیاں کئی دہائیوں سے مرمت نہیں کروائی گئیں تھیں اور بہت خستہ حال تھیں۔ تہہ خانہ میں شدید سردی رہتی تھی اور اس میں انسان تو بڑی دور کی بات، جانور بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ کمرہ آئندہ دس برس کے لیے ''سش'' کا جیل نما بیڈ روم تھا۔ ''سش'' کو معذور بچوں کے ا سکول میں بھی داخل نہ کرایا گیا۔ اس کو اس کے قانونی حق، یعنی تعلیم سے محروم کر دیا گیا۔ برطانیہ کے قانون کے مطابق بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کی بجائے اس کو ایک کنیز میں تبدیل کر دیا گیا۔ طلعت سارا دن اس معصوم سے جانوروں کی طرح کام لیتی تھی۔ نو سال کی بچی تمام گھر والوں کے لیے کھانا بناتی تھی۔ پورے گھر کو صاف کرتی تھی۔

کپڑ ے دھوتی تھی۔ کار کو صاف کرتی تھی۔ اور گھر کے باہر والی گلی کے کچھ حصہ کو بھی پانی سے دھوتی رہتی تھی۔ طلعت نے اس بے زبان بچی کو جانور بنا کر رکھ دیا تھا۔ اس کو گھر کا بچا کچھا کھانا صرف اس لیے دیا جاتا تھا کہ وہ زندہ رہے۔ وہ گونگی اور بہری بچی کئی کئی مہینے کپڑے تبدیل نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس کو لندن کے موسم کے لحاظ سے کپڑے نہیں دیے جاتے تھے۔

اشعر کمال مکاری سے، اس بے زبان بچی کے نام پر حکومت سے مراعات حاصل کرتا رہا۔ مختلف بینکوں میں اکائونٹ کھلوائے گئے۔ طلعت اور اشعر نے برطانوی سوشل سیکیورٹی نظام سے ناجائز فائدہ اٹھا کر حکومت سے تیس ہزار برطانوی پائونڈ تقریباََ 45 لاکھ پاکستانی روپیہ، اس معصوم بچی کی اچھی پرورش کے لیے وصول کر لیے۔ یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔84 سالہ اشعر نے برطانیہ لاتے ہی اُس گونگی بے زبان بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف نو سال تھی۔ میں اس سے زیادہ اس پر کچھ لکھنا نہیں چاہتا۔ یہ عمل دس سال تک جاری رہا۔2009 میں اتفاقیہ ایک سرکاری محکمہ کے کچھ لوگ، اشعر کے گھر گئے تو وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ گزشتہ دس برس سے اس گھر میں ایک بچی کو جو اَب ایک مکمل بالغ لڑکی بن چکی ہے، جانور کی طرح مجبوری میں زبردستی رکھا جا رہا ہے۔ اس محکمہ کے لوگوں نے ''سش'' کو اس قید سے آزاد کروایا۔

اِلیاس اشعر اور اس کے خاندان کے متعلق تحقیقات شروع کر دی گئیں۔ الیاس اشعر اور اس کے خاندان نے اپنے اوپر ہر الزام کو ماننے سے مکمل انکار کر دیا مگر برطانوی انصاف اور قانون کے سامنے وہ مکمل بے بس تھے۔ پولیس نے حکومتی خرچہ پر ''سش'' کو اشاروں کی زبان سکھائی۔ اب اس کی عمر بیس برس تھی۔ اس نے بہت جلدی یہ زبان سیکھ لی۔ اس نے پولیس کو تمام حالات بتائے۔ اپنے ساتھ کیے گئے تمام مظالم اشاروں کی زبان میں درج کروائے۔ اس نے اشاروں سے بتایا کہ اشعر ایک بہت بُرا انسان ہے۔ پولیس چیف میری ٹول نے اپنے بیان میں کہا، کہ اس نے برطانیہ میں کسی انسان کی معذوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا اس سے بڑھ کر گھنائونا جرم نہیں دیکھا۔ اس نے اشعر کو شیطان قرار دیا اور کہا کہ برطانیہ میں جانوروں سے بھی ایسا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔

برطانیہ کے نظام عدل میں جیوری بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ جیوری عام لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ جیوری نے یہ مقدمہ بہت غور سے سنا۔ جب وہ سزا تجویز کر رہے تھے تو جیوری کے دو ممبران اس بے گناہ اور بے زبان لڑکی کی مصیبت بیان کرتے ہوئے زار و قطار رونے لگے۔ جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جیوری کے تمام ممبران اس المناک واقعہ سے ذہنی طور پر اس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ یہ دس برس تک کسی بھی عدالت میں جیوری کی کاروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ اشعر کو 13 سال قید سنائی گئی اور اس کی بیوی طلعت کو 5 سال قید ہوئی۔ اس کی بیٹی کو ایک برس کے لیے سماجی کام کرنے کا حکم سنایا گیا۔

جج پیسٹر لیکن نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تمام عدالتی کارروائی کے دوران اشعر اور اس کے خاندان کے چہروں پر کوئی احساس ندامت نہیں تھا۔ ان کے چہرے پر کوئی پشیمانی کا سایہ تک نہیں تھا۔ جج کو یہاں تک کہنا پڑا، کہ "میں نے آپ لوگوں سے زیادہ بے ایمان، سفاک اور ظالم لوگ نہیں دیکھے "آج اس پاکستانی لڑکی کو بہترین تعلیم دلوائی جا رہی ہے اور اس کی مکمل کفالت ہو رہی ہے۔ ایک طرف انسان کا یہ رویہ ہے کہ اسے قانون کی زبان میں شیطان کہا جا رہا ہے۔ مگر سکہ کی دوسری طرف ایک اور حقیقت بھی ہے جو میں آپ کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں