امریکا نے جو کہا کر دکھایا
بالآخر امریکیوں نے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں مار ڈالا۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔
بالآخر امریکیوں نے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں مار ڈالا۔ یہ تو ہونا ہی تھا، اس میں کوئی عجیب بات نہیں ۔کچھ عرصہ پہلے افغانستان کے صوبہ خوست میں سی آئی اے کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا گیا تھا جس میں اہم افراد مارے گئے تھے۔اس وقت ایسی اطلاعات آئی تھیں کہ اس حملہ میں خودکش عرب نژاد امریکی حملہ آور کو حکیم اللہ کی تائید اور مدد حاصل تھی۔امریکا اس وقت سے اس کے تعاقب میں تھے۔انھوں نے اس سے پہلے حکیم اﷲ محسود پر تین مرتبہ ڈرون حملے کیے جن میں وہ بچ گئے تھے۔امریکا نے اس کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر مقرر کررکھی تھی۔حکومت پاکستان نے بھی اس پر پانچ کروڑ روپے کا انعام رکھا تھا۔ آخر کار جمعہ کو ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود مارا گیا۔ پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ امریکا نے حکیم اللہ کو مار کر پاکستان کی مدد کی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ حکیم اللہ محسود کا کارخاص اور رازدار لطیف اللہ محسود جسے امریکیوں نے پکڑ لیا تھا، انکشاف کیا کہ وہ افغانستان اس لیے آیا تھا کہ وہ افغان انٹیلی جنس سے مل کر پاکستانی فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے تاکہ پاکستان پر طالبان کے قبضے کی راہ ہموار ہو سکے کیونکہ اس قبضے کی راہ میں واحد رکاوٹ پاک فوج ہی ہے۔
طالبان حکیم اللہ کی قیادت میں پاک فوج اور پاکستان کے دفاع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ایسے سانحات تو بے شمار ہیں لیکن اس میں اہم ترین جی ایچ کیو ہیڈکوارٹر پر حملہ تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان یا ان سے ہمدردی رکھنے والی کسی تنظیم نے یہ حملے کر کے پاکستان کی خدمت کی یا پاکستان کے دشمنوں کا آلہ کار ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ ان تمام حملوں میں دہشت گردوں کو ان لوگوں کی حمایت حاصل تھی جو ان اداروں کے اندر موجود تھے جنھوں نے ہر طرح کی انفارمیشن اور امداد مہیا کر کے ان حملوں کو کامیاب بنایا۔ اس وقت پاکستان کا اصل مسئلہ دہشت گردوں سے بڑھ کر ان کے حمایتی ہیں جو میڈیا' مذہبی اور سیاسی پارٹیوں سمیت ہرجگہ موجود ہیں۔ وہ عسکریت پسندوں کا اصل چہرہ بے نقاب نہیں ہونے دے رہے۔ اس طرح ایک طرف وہ پاکستانی عوام کو کنفیوژ کر رہے ہیں تو دوسری طرف سادہ لوح پاکستانی عوام کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کر رہے ہیں تاکہ ان کے خلاف فوجی آپریشن نہ ہو سکے۔
عوام کی اکثریت پاور گیم کی نزاکتوں سے لاعلم ہوتی ہے۔ دہشت گردی کی تاریخ بہت طویل ہے، اسلامی تاریخ میں بھی ایسے گروہ ملتے ہیں جھنوں نے قتل وغارت کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی۔وہ معمولی مذہبی اختلاف پر دوسرے مسلمانوں کو قتل کرتے تھے۔ پاکستان میں عسکریت پسند جو ''کارنامے'' انجام دے رہے ہیں، اس کا آخری نتیجہ خدانخواستہ پاکستان ٹوٹنے کی شکل میں نکلے گا۔ جس دن طالبان کا پاکستان پر قبضہ یقینی ہو گیا،پاکستان ناقابل بیان مشکلات میں پھنس جائے گا بالکل ایسے ہی جیسے افغانستان پھنسا ہوا ہے۔ بہانہ تو ایٹم بموں کا ہی ہو گا لیکن اصل مقصد خطے کی ری برتھ ہو گا۔ مسلمانوں کے خلاف یہ سازش طالبان کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچائی جا رہی ہے۔ جس میں طالبان شعوری یا لاشعوری طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ مذہب کا ہتھیار اب گلوبل سامراج امریکا کی ضرورت نہیں رہی جس کے لیے طالبان، القاعدہ اور دوسری تنظیموں کو تخلیق کیا گیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ اگلے سال انسان کی نقل آ جائے گی۔ ڈرون طیارے اس کی معمولی مثال ہیں جس کے ذریعے امریکا نے ہزاروں میل دور بیٹھ کر صرف انگلی کی معمولی جنبش سے اپنے ہدف حکیم اللہ کو چیونٹی کی طرح مسل کر رکھ دیا۔ یہ قدیم اور جدید نظریات کی جنگ ہے جس میں قدیم نظریات کی شکست یقینی ہے کیونکہ جدید نظریات کے ہاتھ میں سائنس و ٹیکنالوجی کا ہتھیار ہے۔
طالبان کی کامیابی دیکھیں کہ اب پاکستانی ریاست ان سے مذاکرات پر مجبور ہے۔ عسکریت پسند شہری علاقوں میں خودکش دھماکے کر کے چالیس ہزار نہتے اور بے گناہ بے قصور پاکستانیوں کو قتل کر چکے ہیں۔ طالبان کے حمایتیوں نے ان مقتول پاکستانیوں کے لواحقین سے ہمدردی نہیں کی۔ انتہا پسندوں نے جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستانی عوام ذہنی طور پر فوجی آپریشن کے لیے تیار ہو رہی ہے تو ان کے سیاسی حمایتی مذاکرات کے نام پر ان کو بچانے کے لیے میدان میں آ گئے۔ القاعدہ کے ایمن الزواہری نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہمیں پاکستان میں ایک ایسے علاقے کی ضرورت ہے جہاں ہم اپنی حکومت قائم کر سکیں۔ اب طالبان کی شرط دیکھیں کہ پاک فوج فاٹا کا علاقہ خالی کر کے وہاں سے نکل جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ طالبان اور ان کے حمایتیوں کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار نہیں تو انھیں پاکستان سے کیا محبت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو تو وہ ہی بچائے گا جس نے اسے بنایا ہو۔مذاکرات کی آڑ میں وہ اور ان کے حمایتی فوجی آپریشن کو روک کر 14ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ افغان اور پاکستانی طالبان مل کر پاکستان پر قبضہ کر سکیں... رہے نام اللہ کا
حکومت اور طالبان مذاکرات کا مستقبل کیا ہے، اس کا پتہ 8' 9 نومبر سے 17 نومبر کے درمیان چلے گا۔
جنرل پرویز مشرف کا مستقبل کیا ہے، اس کا بھی پتہ نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں چلے گا۔
سیل فون: 0346-4527997
طالبان حکیم اللہ کی قیادت میں پاک فوج اور پاکستان کے دفاع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ایسے سانحات تو بے شمار ہیں لیکن اس میں اہم ترین جی ایچ کیو ہیڈکوارٹر پر حملہ تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان یا ان سے ہمدردی رکھنے والی کسی تنظیم نے یہ حملے کر کے پاکستان کی خدمت کی یا پاکستان کے دشمنوں کا آلہ کار ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ ان تمام حملوں میں دہشت گردوں کو ان لوگوں کی حمایت حاصل تھی جو ان اداروں کے اندر موجود تھے جنھوں نے ہر طرح کی انفارمیشن اور امداد مہیا کر کے ان حملوں کو کامیاب بنایا۔ اس وقت پاکستان کا اصل مسئلہ دہشت گردوں سے بڑھ کر ان کے حمایتی ہیں جو میڈیا' مذہبی اور سیاسی پارٹیوں سمیت ہرجگہ موجود ہیں۔ وہ عسکریت پسندوں کا اصل چہرہ بے نقاب نہیں ہونے دے رہے۔ اس طرح ایک طرف وہ پاکستانی عوام کو کنفیوژ کر رہے ہیں تو دوسری طرف سادہ لوح پاکستانی عوام کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کر رہے ہیں تاکہ ان کے خلاف فوجی آپریشن نہ ہو سکے۔
عوام کی اکثریت پاور گیم کی نزاکتوں سے لاعلم ہوتی ہے۔ دہشت گردی کی تاریخ بہت طویل ہے، اسلامی تاریخ میں بھی ایسے گروہ ملتے ہیں جھنوں نے قتل وغارت کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی۔وہ معمولی مذہبی اختلاف پر دوسرے مسلمانوں کو قتل کرتے تھے۔ پاکستان میں عسکریت پسند جو ''کارنامے'' انجام دے رہے ہیں، اس کا آخری نتیجہ خدانخواستہ پاکستان ٹوٹنے کی شکل میں نکلے گا۔ جس دن طالبان کا پاکستان پر قبضہ یقینی ہو گیا،پاکستان ناقابل بیان مشکلات میں پھنس جائے گا بالکل ایسے ہی جیسے افغانستان پھنسا ہوا ہے۔ بہانہ تو ایٹم بموں کا ہی ہو گا لیکن اصل مقصد خطے کی ری برتھ ہو گا۔ مسلمانوں کے خلاف یہ سازش طالبان کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچائی جا رہی ہے۔ جس میں طالبان شعوری یا لاشعوری طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ مذہب کا ہتھیار اب گلوبل سامراج امریکا کی ضرورت نہیں رہی جس کے لیے طالبان، القاعدہ اور دوسری تنظیموں کو تخلیق کیا گیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ اگلے سال انسان کی نقل آ جائے گی۔ ڈرون طیارے اس کی معمولی مثال ہیں جس کے ذریعے امریکا نے ہزاروں میل دور بیٹھ کر صرف انگلی کی معمولی جنبش سے اپنے ہدف حکیم اللہ کو چیونٹی کی طرح مسل کر رکھ دیا۔ یہ قدیم اور جدید نظریات کی جنگ ہے جس میں قدیم نظریات کی شکست یقینی ہے کیونکہ جدید نظریات کے ہاتھ میں سائنس و ٹیکنالوجی کا ہتھیار ہے۔
طالبان کی کامیابی دیکھیں کہ اب پاکستانی ریاست ان سے مذاکرات پر مجبور ہے۔ عسکریت پسند شہری علاقوں میں خودکش دھماکے کر کے چالیس ہزار نہتے اور بے گناہ بے قصور پاکستانیوں کو قتل کر چکے ہیں۔ طالبان کے حمایتیوں نے ان مقتول پاکستانیوں کے لواحقین سے ہمدردی نہیں کی۔ انتہا پسندوں نے جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستانی عوام ذہنی طور پر فوجی آپریشن کے لیے تیار ہو رہی ہے تو ان کے سیاسی حمایتی مذاکرات کے نام پر ان کو بچانے کے لیے میدان میں آ گئے۔ القاعدہ کے ایمن الزواہری نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہمیں پاکستان میں ایک ایسے علاقے کی ضرورت ہے جہاں ہم اپنی حکومت قائم کر سکیں۔ اب طالبان کی شرط دیکھیں کہ پاک فوج فاٹا کا علاقہ خالی کر کے وہاں سے نکل جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ طالبان اور ان کے حمایتیوں کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار نہیں تو انھیں پاکستان سے کیا محبت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو تو وہ ہی بچائے گا جس نے اسے بنایا ہو۔مذاکرات کی آڑ میں وہ اور ان کے حمایتی فوجی آپریشن کو روک کر 14ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ افغان اور پاکستانی طالبان مل کر پاکستان پر قبضہ کر سکیں... رہے نام اللہ کا
حکومت اور طالبان مذاکرات کا مستقبل کیا ہے، اس کا پتہ 8' 9 نومبر سے 17 نومبر کے درمیان چلے گا۔
جنرل پرویز مشرف کا مستقبل کیا ہے، اس کا بھی پتہ نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں چلے گا۔
سیل فون: 0346-4527997