صلاحیتوں کی ناقدری اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم۔۔۔۔
نوجوانوں میں احساس محرومی کا فروغ لمحہ فکریہ ہے
آج جس سے بھی ملیے اور جس جگہ بھی نظر دوڑائیے، ناکامی یا ناآسودگی کی داستانیں ہی کس و ناکس کی زبان سے سننے کو ملتی ہیں۔
یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کامیابی و ناکامی اور آسودگی زندگی کے معمولات ہیں۔ بہت سے نامور اور مختلف شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے افراد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی ناکامیوں ہی نے انہیں اس مرتبے و مقام پر پہنچایا ہے، جہاں وہ دوسروں کے لیے قابل رشک بن گئے، اگر ناکامیوں سے ان کا واسطہ نہ پڑتا تو شاید وہ اس مقام تک پہنچ نہ پاتے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے تمام مرحلوں سے کامیابی کے ساتھ گزر جائے، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سی خواہشات ناتمام رہ جاتی ہیں۔ بعض افراد خصوصاً نوجوان ایسے موڑ پر ہیجان اور ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ خواہش زیادہ شدید ہو تو پھر اس کی تکمیل کے لیے جدوجہد بھی زیادہ پرجوش انداز میں کی جاتی ہے۔ لیکن ایسے لوگ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس جدوجہد میں جو مزاحمتیں پیش آئیں گی، وہ بھی اتنی ہی شدید ہوں گی۔ چنانچہ اگر ناکامی سے دو چار ہونا پڑے تو ایسی صورت میں جو ہیجان اور فرسٹریشن پیدا ہوگی وہ بھی انتہائی درجہ کا ہوگی۔
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ انسان خواہشات کا مجموعہ ہے۔ اور یہ تسلیم کرنے کے باوجود بھی ترقی یافتہ مغربی معاشرے کی اقدار، خواہشات کی تکمیل و تشکیل کی بنیادوں پر ہی قائم ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فلسفے کے ذریعے عالمی سرمایہ داروں نے اپنے مناسب سرمایہ میں کئی گنا اضافے کے لئے لوگوں کو ان کی خواہشات کا غلام بنا دیا۔ مغربی معاشروں کا حال سب کے سامنے ہے کہ اس سے قبل کہ کسی فرد کی کوئی ایک خواہش پوری ہو دوسری کی طلب پیدا کردی جاتی ہے۔ اور پاکستانی معاشرے کی حالت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دو مختلف انتہائوں میں سفر کر رہا ہے۔ پاکستان کے صرف 2 فیصد افراد کے پاس 85 فیصد وسائل کا کنٹرول ہے۔ غریب و متوسط طبقے کی اکثریت کے لئے عام ضروریات زندگی کا حصول بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں رہا۔ اشرافیہ طبقے کی وسائل پر گرفت روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی بے دریغ تکمیل میں مصروف ہے۔ اس طبقے کو شاید کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی خواہشات دوسرے کی حق تلفی اور بعض اوقات تو ظلم کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بچوں کی اکثریت سکول نہیں جارہی جو گھروں میں والدین کی مدد کررہے ہیں یا بالخصوص لڑکے لیبر فورس کا حصہ بن گئے ہیں۔ جب ابتدائی تعلیم کا یہ حال ہے، تو اعلیٰ پروفیشنل تعلیم غریب اور مڈل کلاس طبقے کے نوجوانوں کے لیے تو شجر ممنوعہ بن چکی ہے کیوں کہ پروفیشنل تعلیم پر تو ان گھرانوں کا قبضہ ہوچکا ہے جو سالانہ کئی لاکھ روپے فیس کی مد میں ادا کرسکتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے کی اکثریت کو اپنی جائز ضروریات کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں بھی شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماہرین نفسیات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جس معاشرے میں ایمانداری، خلوص نیت اور صلاحیتوں کی قدر نہ ہو اور وسائل ایک خاص طبقے کی گرفت سے باہر نہ آسکتے ہوں، تو ایسے معاشرے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں چڑچڑاپن، احساس محرومی، نفرت و عداوت، شدت پسندی اور انتہا پسندی کے رجحانات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ایسے نوجوان جن میں یہ رجحانات مستحکم ہوجاتے ہیں، وہ اپنی راہ میں حائل اشیاء یا افراد پر حملہ کرنے، ان کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لوٹ مار، توڑ پھوڑ، قاتلانہ حملے اور دیگر تشدد آمیز کارروائیاں دراصل اجتماعی ناانصافیوں اور ظلم پر مبنی معاشرتی نظام کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اور مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں ایسے ہی رجحانات بڑی تیزی سے مستحکم ہورہے ہیں اور اس بگڑتی ہوئی صورتحال کا سدھار، ظاہر ہے کہ اشرافیہ کے پاس ہے۔
قرآن مجید میں ناکام اور کامیاب زندگی کا جو موازنہ کیا گیا ہے اس کے تحت اللہ کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی لازمی قرار دی گئی ہے۔ حقوق اللہ میں کوتاہی کو تو اللہ رب العزت غفور الرحیم ہے چاہے تو معاف کرسکتا ہے لیکن حقوق العباد کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ جب تک وہ لوگ معاف نہ کریں جن کے حقوق پامال کیے گئے ہیں اللہ رب العزت ان حق تلفیوں کو معاف نہیں کریں گے۔ اور جس معاشرے میں حقوق العباد قدم قدم پر پامال کیے جارہے ہوں تو ظاہر ہے وہاں غربت، افلاس، جہالت، ظلم اور ناانصافی کا دور دورہ ہوگا۔ جہاں ایک طرف دولت کی فراوانی، اس کی نمود و نمائش اور دوسری جانب احساس محرومی ہو تو لازماً وہاں انتہا پسندی اور بغاوت کو فروغ ملے گا۔ اسلام سمیت ہر مذہب میں بہترین معاشرتی نظام کے قیام کے لئے اتفاق، اخوت، رواداری اور انصاف کے فروغ کی ہدایت کی گئی ہے، کیوں ناانصافی، طاقت اور مال کا عدم توازن کسی بھی معاشرے کو زندہ نہیں رہنے دیتا۔ اور کسی بھی معاشرے کی بہتری یا تباہی میں سب سے اہم کردار نوجوانوں کا ہوتا ہے کیوں حقیقت میں یہی وہ نسل ہے جس نے ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے لیکن معاشرے میں فروغ پانے والا عدم مساوات کا رجحان، اس کی بربادی اور بے راہ روی کا باعث بن رہا ہے۔ لہذا بہترین معاشرے کے قیام اور خصوصاً نوجوان نسل کو غلط منزلوں کی طرف گامزن ہونے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ غربت و افلاس کے خلاف جنگ، وسائل کی مساویانہ تقسیم اور اجتماعی کفالت کے لیے ایسے سسٹم کا قیام عمل میں لایا جائے جو معاشرے کے پسماندہ اور غریب طبقات کو کم از کم بنیادی فکر سے آزاد کرسکے۔
یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کامیابی و ناکامی اور آسودگی زندگی کے معمولات ہیں۔ بہت سے نامور اور مختلف شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے افراد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی ناکامیوں ہی نے انہیں اس مرتبے و مقام پر پہنچایا ہے، جہاں وہ دوسروں کے لیے قابل رشک بن گئے، اگر ناکامیوں سے ان کا واسطہ نہ پڑتا تو شاید وہ اس مقام تک پہنچ نہ پاتے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے تمام مرحلوں سے کامیابی کے ساتھ گزر جائے، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سی خواہشات ناتمام رہ جاتی ہیں۔ بعض افراد خصوصاً نوجوان ایسے موڑ پر ہیجان اور ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ خواہش زیادہ شدید ہو تو پھر اس کی تکمیل کے لیے جدوجہد بھی زیادہ پرجوش انداز میں کی جاتی ہے۔ لیکن ایسے لوگ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس جدوجہد میں جو مزاحمتیں پیش آئیں گی، وہ بھی اتنی ہی شدید ہوں گی۔ چنانچہ اگر ناکامی سے دو چار ہونا پڑے تو ایسی صورت میں جو ہیجان اور فرسٹریشن پیدا ہوگی وہ بھی انتہائی درجہ کا ہوگی۔
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ انسان خواہشات کا مجموعہ ہے۔ اور یہ تسلیم کرنے کے باوجود بھی ترقی یافتہ مغربی معاشرے کی اقدار، خواہشات کی تکمیل و تشکیل کی بنیادوں پر ہی قائم ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فلسفے کے ذریعے عالمی سرمایہ داروں نے اپنے مناسب سرمایہ میں کئی گنا اضافے کے لئے لوگوں کو ان کی خواہشات کا غلام بنا دیا۔ مغربی معاشروں کا حال سب کے سامنے ہے کہ اس سے قبل کہ کسی فرد کی کوئی ایک خواہش پوری ہو دوسری کی طلب پیدا کردی جاتی ہے۔ اور پاکستانی معاشرے کی حالت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دو مختلف انتہائوں میں سفر کر رہا ہے۔ پاکستان کے صرف 2 فیصد افراد کے پاس 85 فیصد وسائل کا کنٹرول ہے۔ غریب و متوسط طبقے کی اکثریت کے لئے عام ضروریات زندگی کا حصول بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں رہا۔ اشرافیہ طبقے کی وسائل پر گرفت روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی بے دریغ تکمیل میں مصروف ہے۔ اس طبقے کو شاید کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی خواہشات دوسرے کی حق تلفی اور بعض اوقات تو ظلم کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بچوں کی اکثریت سکول نہیں جارہی جو گھروں میں والدین کی مدد کررہے ہیں یا بالخصوص لڑکے لیبر فورس کا حصہ بن گئے ہیں۔ جب ابتدائی تعلیم کا یہ حال ہے، تو اعلیٰ پروفیشنل تعلیم غریب اور مڈل کلاس طبقے کے نوجوانوں کے لیے تو شجر ممنوعہ بن چکی ہے کیوں کہ پروفیشنل تعلیم پر تو ان گھرانوں کا قبضہ ہوچکا ہے جو سالانہ کئی لاکھ روپے فیس کی مد میں ادا کرسکتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے کی اکثریت کو اپنی جائز ضروریات کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں بھی شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماہرین نفسیات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جس معاشرے میں ایمانداری، خلوص نیت اور صلاحیتوں کی قدر نہ ہو اور وسائل ایک خاص طبقے کی گرفت سے باہر نہ آسکتے ہوں، تو ایسے معاشرے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں چڑچڑاپن، احساس محرومی، نفرت و عداوت، شدت پسندی اور انتہا پسندی کے رجحانات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ایسے نوجوان جن میں یہ رجحانات مستحکم ہوجاتے ہیں، وہ اپنی راہ میں حائل اشیاء یا افراد پر حملہ کرنے، ان کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لوٹ مار، توڑ پھوڑ، قاتلانہ حملے اور دیگر تشدد آمیز کارروائیاں دراصل اجتماعی ناانصافیوں اور ظلم پر مبنی معاشرتی نظام کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اور مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں ایسے ہی رجحانات بڑی تیزی سے مستحکم ہورہے ہیں اور اس بگڑتی ہوئی صورتحال کا سدھار، ظاہر ہے کہ اشرافیہ کے پاس ہے۔
قرآن مجید میں ناکام اور کامیاب زندگی کا جو موازنہ کیا گیا ہے اس کے تحت اللہ کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی لازمی قرار دی گئی ہے۔ حقوق اللہ میں کوتاہی کو تو اللہ رب العزت غفور الرحیم ہے چاہے تو معاف کرسکتا ہے لیکن حقوق العباد کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ جب تک وہ لوگ معاف نہ کریں جن کے حقوق پامال کیے گئے ہیں اللہ رب العزت ان حق تلفیوں کو معاف نہیں کریں گے۔ اور جس معاشرے میں حقوق العباد قدم قدم پر پامال کیے جارہے ہوں تو ظاہر ہے وہاں غربت، افلاس، جہالت، ظلم اور ناانصافی کا دور دورہ ہوگا۔ جہاں ایک طرف دولت کی فراوانی، اس کی نمود و نمائش اور دوسری جانب احساس محرومی ہو تو لازماً وہاں انتہا پسندی اور بغاوت کو فروغ ملے گا۔ اسلام سمیت ہر مذہب میں بہترین معاشرتی نظام کے قیام کے لئے اتفاق، اخوت، رواداری اور انصاف کے فروغ کی ہدایت کی گئی ہے، کیوں ناانصافی، طاقت اور مال کا عدم توازن کسی بھی معاشرے کو زندہ نہیں رہنے دیتا۔ اور کسی بھی معاشرے کی بہتری یا تباہی میں سب سے اہم کردار نوجوانوں کا ہوتا ہے کیوں حقیقت میں یہی وہ نسل ہے جس نے ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے لیکن معاشرے میں فروغ پانے والا عدم مساوات کا رجحان، اس کی بربادی اور بے راہ روی کا باعث بن رہا ہے۔ لہذا بہترین معاشرے کے قیام اور خصوصاً نوجوان نسل کو غلط منزلوں کی طرف گامزن ہونے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ غربت و افلاس کے خلاف جنگ، وسائل کی مساویانہ تقسیم اور اجتماعی کفالت کے لیے ایسے سسٹم کا قیام عمل میں لایا جائے جو معاشرے کے پسماندہ اور غریب طبقات کو کم از کم بنیادی فکر سے آزاد کرسکے۔