تندرستی ہزار نعمت ہے

اگر انسان صحت مند نہ ہو تو دنیا کی تمام رنگینیاں، دلچسپیاں، گونا گوں نعمتیں بھی ہیچ نظر آتی ہیں۔

یہ خوبصورت بات میں نے اوائل عمری میں ہی اپنی نصابی کتاب میں بطور سبق پڑھی تھی، اور یہ میرے دل پر نقش ہو گئی۔

بلاشبہ رب کی بے پناہ نعمتوں میں صحت و تندرستی ایک بیش بہا نعمت ہے، لیکن وقت بدلا ، قدریں بدلیں اور اب اپنی صحت کو ہزار، ہزار کے نوٹوں سے خریدکر برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یعنی مہنگا کھانا جو اہم ریسٹورنٹس پرکھاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کئی ایسے دل دہلا دینے واقعات پیش آئے ہیں کہ یاد آ جائیں تو دل اداس ہو جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ کلفٹن میں پیش آیا تھا ، جہاں نجی ہوٹل کا زہریلا کھانا کھانے سے دو معصوم بچے جاں بحق ہو گئے تھے۔ دونوں بچے اور ان کی والدہ ایری زونا گرل اور چنکی منکی نامی ہوٹلز میں کھانا کھانے گئے تھے، جاں بحق ہونے والے بچوں میں ڈیڑھ سالہ احمد اور پانچ سالہ محمد شامل تھے۔ ان بچوں کی والدہ کے دکھ و کرب کا احساس کرتی ہوں تو میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے، میں خود ایک ماں ہوں، اس بارے میں سوچتی ہوں تو روح کانپ جاتی ہے۔

حرص اور لالچ کی وجہ سے بہت سے ریسٹورانٹس غیر معیاری کھانا فراہم کرتے ہیں، وقفے وقفے سے ایسی خبریں بھی اخبارات میں چھپتی رہتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ بنیادی ذمے داری تو سندھ فوڈ اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلے کی روک تھام کرے، یقینا وہ کارروائی بھی کرتے ہیں۔ اس پر ایکشن لیتے ہوئے ایسی کھانے پینے کے ریسٹورنٹ کو بند بھی کیا جاتا ہے۔

میری رہائش کلفٹن کے علاقے میں ہے جو کہ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آتا ہے۔ بحیثیت قلمکار اور صحافی میری خواہش تھی کہ میں اس حوالے سے حقائق کا کھوج لگائوں، اور میری یہ جستجو، بریگیڈیئر عابد علی عسکری جو کہ صدر ہیں کلفٹن کنٹومنٹ بورڈ کے ان سے ملاقات کا سبب بنی۔ ان کے گرانقدر خیالات جان کر یہ تاثر میرے ذہن میں پختہ ہوا کہ عابد علی عسکری ایک ایسی پر عزم شخصیت کے مالک ہیں جو اپنے زیر انتظام علاقے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔

دوران گفتگو جب میں نے ان کی توجہ مختلف ریسٹورانٹس کے حوالے سے عوامی شکایات کی طرف دلوائی تو انھوں نے انتہائی نرم مگر پر عزم لہجے میں ان اقدامات سے مجھے آگاہ کیا جو وہ اس ضمن میں کر رہے ہیں۔ بقول بریگیڈیئر عابد علی عسکری ہم نے سب سے پہلے غیر معیاری ریسٹورانٹس مالکان کو دو ماہ کا وقت دیا کہ وہ اپنے اپنے ریستوران کو گندگی سے بچائیں اور خاص طور پر کچن کی صفائی پر توجہ دیں۔

ہمارے ہدایات پر عمل نہ کرنیوالے کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ بھی دیا گیا۔ اسی تناظر میں ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے ریسٹورانٹس میں کام کرنیوالے ویٹرز سمیت دیگر عملے کا طبی معائنہ بھی ضروری قرار دیا گیا کہ آیا وہ کسی ایسے مرض کا شکار تو نہیں جو ریسٹورنٹس یا نجی ہوٹلز پر آ کر کھانا کھانیوالا افراد کو لاحق ہو جائے۔ یہ سن کر مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کی اپروچ کتنی سائنسی اور حقائق پر مبنی ہے۔


میں سمجھتی ہوں کہ ریسٹورنٹس پر کام کرنیوالے عملے کا طبی چیک اپ ریگولر بنیادوں پر ہونا چاہیے اور اس کو پورے کراچی پر بھی عملا نفاذ ہونا چاہیے ، بریگیڈیئر عابد علی عکسری نے اپنی ایک اور کاوش کے بارے میں بھی بتایا کہ کنٹومنٹ بورڈ کلفٹن نے ایک موبائل ایپ بھی بنائی ہے، جو اپنے موبائل میں ڈائون لوڈ کرنے کے بعد باسانی استعمال کی جا سکتی ہے، جس پر عوام اپنی شکایات درج کروا سکتے ہیں، اس کے علاوہ چوبیس گھنٹے ہیلپ لائن 021-111-800-90 پر بھی رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

عابد علی عسکری اور ان کی ٹیم کے ممبران کو میں خراج تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں جو انسانی صحت کے حوالے سے کنٹومنٹ بورڈ کلفٹن کے رہائشیوں کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب لاہور میں ایک رکشے سے مینڈکیں برآمد ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ہلچل مچ گئی تھی اور گمان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ لاہوریوں کو گدھوں کے بعد مینڈکوں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے اور اس سے ملتی جلتی کارروائی کراچی میں ڈالے جانے کے امکانات ہیں، لیکن پھر خیال آیا کہ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ انتظامیہ چوکس ہے۔

دراصل ہمیں اپنی صحت کی کوئی قدر نہیں ہے، جوں ہی یہ ساتھ چھوڑتی ہے فوراً احساس ہوتا ہے کہ یہ دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی۔ میں سوچتی ہوں کہ ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کیوں کرتے ہیں۔ کیا یہ کفران نعمت ہے؟

صحت وہ نعمت عظیم ہے جو اگر چھن جائے تو ہم اپنا پورا سرمایہ بھی خرچ کر کے یہ نعمت واپس نہیں پا سکتے، ہمارا دین ہمیں پاکیزگی اور طہارت کا حکم دیتا ہے اور صفائی کو نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہم دولت کمانے کے چکر میں دوسرے انسانوں کی صحت سے کیوں کھیلتے ہیں؟ اللہ تبارک تعالیٰ سورہ الرحمن میں فرماتے ہیں '' اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے!'' صحت بھی تو پروردگار عالم کی اربوں نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا '' اللہ سے معافی اور صحت کا سوال کرتے رہا کرو کیونکہ ایمان کی نعمت کے بعد تندرستی سے بہترکوئی نعمت نہیں'' فرمان رسول کی اہمیت اور افادیت یہ ہے کہ یہ ہمارے لیے راہ نجات اور اس پر عمل کرنے میں ہمارا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے ایک بار اللہ تعالی سے پوچھا '' یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگے تو کیا مانگے؟'' اللہ تعالی نے فرمایا ''صحت''۔

سیانے درست کہہ گئے ہیں کہ جان ہے تو جہاں ہے، اگر انسان صحت مند نہ ہو تو دنیا کی تمام رنگینیاں ، دلچسپیاں ، گونا گوں نعمتیں بھی ہیچ نظر آتی ہیں۔ دراصل ہم ایک ایسے لائف اسٹائل کوکھانے پینے کے ضمن میں اپنا رہے ہیں کہ ہم دن بدن بیماریوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت جب کہ ہمارے ارد گرد بہت سی جاں لیوا بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ لاکھوں روپیہ علاج پر خرچ ہو رہا ہے ، صحت و تندرستی کے عالم میں انسان کو اس نعمت کی قدر و قیمت کا قطعی احساس نہیں ہوتا، لیکن بیماری ، دکھ اور تکالیف جھیل کر اور پھر خوش قسمتی سے بیماری سے مکمل شفا یابی پا کر اسے اس انمول اور بیش بہا نعمت کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے اور جان ہے تو جہاں ہے۔

کسی بیمار شخص سے ذرا پوچھیں کہ اس کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش کیا ہے تو وہ جواب دے گا ''صحت۔'' اسی صحت و تندرستی کے حصول کے لیے ہم کس قدر کوششیں کرتے ہیں۔ حقیقت میں صحت اللہ تعالی کا بہت بڑا تحفہ ہے۔ قدرت نے انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے جتنی منصوبہ بندی کی، اتنی شاید پوری کائنات کو بنانے کے لیے بھی نہ کی ہو۔ میں سوچتی ہوں کہ انسان کتنا نادان ہے جو رب کے اس عطا کردہ جسم کے اندر موجود مدافعتی نظام کو خود برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ میری رائے میں بہترین صحت بخش غذا کا حصول ، ورزش، آرام ، ذہنی اور دماغی سکون، بر وقت علاج معالجہ ہماری زندگی کو پر سکون اور صحت مند بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
Load Next Story