آئیں بیمارسماج کو مرنے دیں
حکومتیں منتخب ہونے کے بعد عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے اللے تلے لے کر بیٹھ جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اچھے اور صحت مند انسان کیسے پیدا ہونگے، یہ وہ بنیادی سوال ہے، جس سے آج ہم سب دو چار ہیں۔ اس وقت ہمارا معاشرہ بوڑھا، لاغر اور بیمار ہو چکا ہے۔ بد بو اور غلاظت کی لپیٹ میں ہے آج یہ معاشرہ رحم بھری نظرں سے ہم سب کو دیکھ رہا ہے۔
اب یہ معاشرہ صرف بیمار مریضوں کو تو پیدا کر سکتا ہے صحت مند اور اچھے انسانوں کو نہیں اور اس معاشرے نے پچھلے 73 سال میں صرف بیمار انسانوں کو ہی جنم دیا ہے، ایسے بیمار انسانوں کو جنھوں نے اپنے جراثیموں سے اردگرد کے تمام ماحول اور انسانوں کو مختلف نا ختم ہونے والی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے، ایسی ایسی بیماریاں جن کا علاج نہ صرف ڈاکٹروں بلکہ سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات کے پاس بھی نہیں ہے اور نہ ہی حکمرانوں اور ملک کے کرتا دھرتاوں کے پاس ہے کیونکہ بیماروں کا علاج صحت مند افراد کر سکتے ہیں جب کہ بیماروں کا علاج کبھی بھی بیمار نہیں کر سکتے ہیں۔
اس وقت پورا ملک سنگین بیماریوں کی لپیٹ میں ہے، پورے ملک میں بھگدڑ کی سی کیفیت ہے، بیماروں کے غول کے غول ہر جگہ ہر مقام پر دندناتے پھر رہے ہیں جو تھوڑے سے صحت مند اور اچھے انسان بچ گئے ہیں وہ ان غولوں سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ اب کوئی اس معاشرے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا تو اس سے بڑا انسانوں کا مجرم کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
ہمارے معاشرے کی مثال فرانسیسی ڈرامے ''خدا کا انتظار'' کے دوکرداروں یعنی لکی اور پوزوکی ، کی سی ہو گئی ہے جو ایک جگہ بیٹھ کر خدا کر انتظار کر رہے ہیں اور اپنے پاس سے گزرنے والے ہر شخص سے خدا کا پتہ پوچھتے ہیں جب کوئی پتہ نہیں پاتے تو باہم دست وگریبان ہو جاتے ہیں۔ اس بے مقصد مشق میں ایک حاکم بن جاتا ہے اور دوسرا محکوم ۔
حاکم نے محکوم کے گلے میں غلامی کا طوق لٹکایا ہوا ہے جسے وہ مختلف اوقات میں کھینچتا ہے محکوم جب ظلم و ستم کا نشانہ بنتا ہے تو بدگوئی اور بدکاری پر اتر آتا ہے اس دوران ان کے پائوں لہولہان ہو جاتے ہیں لیکن وہ اپنا جمود بے حسی چھوڑنے کو تیار نہیں بلکہ اسی فضول مشق میں اپنا وقت ضایع کر رہے ہیں ، اگر ہم اپنے پچھلے اکتہر سال میں اپنی اجتماعی زندگی پر نظریں دوڑائیں تو ہمیں ایک طرف ظلم و ستم کے دراز سلسلے، خرمستیاں ، لوٹ مار کے بازار ، جھوٹی انائیں، منحوس پروٹو کول ، غلیظ عیش و عشرت، نفرت آمیز جاہ و جلال ، بد بودار غرور و تکبر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف سسکیاں ، خود کشیاں، آہ و زرایاں ، بھوک اور فاقے، تکلیفیں، چیخ و پکار، ماتم نظر آتے ہیں دونوں جانب انتہا ہو چکی ہے آپ ہی بتائیں جس معاشرے میں چند ہزار لوگوں نے زندگی کی تمام خوشیوں ، حقوق ، آسائشوں، لذتوں پر جبری قبضہ کر رکھا ہو اور باقی کروڑوں لوگ سسک سسک کر دم توڑ رہے ہوں۔ جہاں انصاف ، قانون ان چند ہزاروں کی لونڈی بنا ہوا ہو جہاں حکمران عوام کے بجائے مخصوص طبقوں سے آ رہے ہیں اور حکمران بھی ایسے کہ سر پیٹنے کو دل چاہے۔
کواکبی نے ہمارے جیسے حکمرانوں کے متعلق کیا خو ب کہا ہے '' متسبد حکمرانوں کا برتائو اپنی رعایا سے بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسا دغا باز سر پرست کا ، دولت مند کا یتیموں سے ہوتا ہے چونکہ ان کے مال و متاع میں غبن و تصرف کا موقعہ اسی وقت تک ہے جب تک وہ بے سمجھ اور نابالغ ہے اس لیے اس کی مصلحت ہمیشہ یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ بالغ نہ ہونے پائیں۔ اسی طرح متسبد بھی ہمیشہ یہ ہی چاہتا ہے کہ اس کی رعایا کبھی بھی صحیح علم سے روشناس نہ ہونے پائے کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اس کا یہ علم و استبداد اسی وقت تک ہے جب تک رعایا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پڑی رہے۔
سابق بھارتی صدر عبدالکلام اپنی کتاب Ignited Minds میں لکھتے ہیں ''کہ میں عیدالاضحی پڑھنے کے بعد جب عیدگاہ سے واپس آیا تو دوستوں نے پوچھا ''کیا دعا مانگی میں نے جواب دیا کہ یا اللہ میری قوم کو یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ ادارے افراد سے بڑے ہوتے ہیں'' لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے ، اداروں کی بے حرمتی کرنے والے خود قانون کے رکھوالے ہیں۔
حکومتیں منتخب ہونے کے بعد عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے اللے تلے لے کر بیٹھ جاتی ہے اور پھر ان ہی کو حل کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کر دیتی ہیں ۔ ول ڈیورانٹ کہتا ہے کہ ''معاشرہ تخلیقات کے بجائے انسانی فطرت کے مطابق استوار ہوتا ہے اور قو میں بھی انسانی فطرت و ساخت کے مطابق ہی تشکیل پاتی ہیں۔''
ہمارے ملک کو چلانے والے 73 سال میں ایک بالکل سیدھی سادی سے بات کو کبھی سمجھ ہی نہیں پائے کہ آسانیاں اگر تقسیم نہ کی جائیں تو مشکلات جمع ہو جاتی ہیں۔ تاریخ سے بڑا کوئی اور استاد ہے ہی نہیں۔ زندگی کی ہر مشکل اور مسئلے کا حل اس میں موجود ہے۔ دنیا بھر نے اپنی مشکلات اور مسائل اور پریشانیوں کا حل اسی میں ہی سے نکالا ہے ۔ اگر ہم غور سے سنیں تو تاریخ چیخ چیخ کر ہمیں کہہ رہی ہے کہ اپنے اس بوڑھے، لاغر ، بیمار ، بد بودار اور غلیظ معاشرے کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کے بجائے اسے مرنے دو اور ایک نئے معاشرے کو جس کی بنیاد، اخلاقیات پر رکھی ہوئی ہو اور جس میں سے اچھے اور صحت مند انسانوں کا جنم ممکن ہو کو پیدا ہونے دیں۔
اسی میں سے ایسے انسان پیدا ہوں گے جو مساوات، عدل و انصاف ، عزت ، آزادی ، رواداری ، برداشت، قانون کی بالا دستی ، میرٹ ، احترام اور محبت پر ایمان رکھیں گے اور پھر ان ہی میں سے لوگ آگے بڑھ کر ملک کی حکمرانی سنبھال لیں گے اور پھر وہ لوگ تمام مشکلات ، پریشانیاں ، مصیبتیں ، آفتیں ، جن سے لوگ دو چار ہیں کا خاتمہ کر کے زندگی کی تمام خوشیوں اور لذتوں کو معاشرے کے ہر انسان میں برابر تقسیم کر دیں گے اور پھر ملک میں ہر طرف اچھے اور صحت مند انسان نظر آئیں گے۔
اب یہ معاشرہ صرف بیمار مریضوں کو تو پیدا کر سکتا ہے صحت مند اور اچھے انسانوں کو نہیں اور اس معاشرے نے پچھلے 73 سال میں صرف بیمار انسانوں کو ہی جنم دیا ہے، ایسے بیمار انسانوں کو جنھوں نے اپنے جراثیموں سے اردگرد کے تمام ماحول اور انسانوں کو مختلف نا ختم ہونے والی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے، ایسی ایسی بیماریاں جن کا علاج نہ صرف ڈاکٹروں بلکہ سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات کے پاس بھی نہیں ہے اور نہ ہی حکمرانوں اور ملک کے کرتا دھرتاوں کے پاس ہے کیونکہ بیماروں کا علاج صحت مند افراد کر سکتے ہیں جب کہ بیماروں کا علاج کبھی بھی بیمار نہیں کر سکتے ہیں۔
اس وقت پورا ملک سنگین بیماریوں کی لپیٹ میں ہے، پورے ملک میں بھگدڑ کی سی کیفیت ہے، بیماروں کے غول کے غول ہر جگہ ہر مقام پر دندناتے پھر رہے ہیں جو تھوڑے سے صحت مند اور اچھے انسان بچ گئے ہیں وہ ان غولوں سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ اب کوئی اس معاشرے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا تو اس سے بڑا انسانوں کا مجرم کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
ہمارے معاشرے کی مثال فرانسیسی ڈرامے ''خدا کا انتظار'' کے دوکرداروں یعنی لکی اور پوزوکی ، کی سی ہو گئی ہے جو ایک جگہ بیٹھ کر خدا کر انتظار کر رہے ہیں اور اپنے پاس سے گزرنے والے ہر شخص سے خدا کا پتہ پوچھتے ہیں جب کوئی پتہ نہیں پاتے تو باہم دست وگریبان ہو جاتے ہیں۔ اس بے مقصد مشق میں ایک حاکم بن جاتا ہے اور دوسرا محکوم ۔
حاکم نے محکوم کے گلے میں غلامی کا طوق لٹکایا ہوا ہے جسے وہ مختلف اوقات میں کھینچتا ہے محکوم جب ظلم و ستم کا نشانہ بنتا ہے تو بدگوئی اور بدکاری پر اتر آتا ہے اس دوران ان کے پائوں لہولہان ہو جاتے ہیں لیکن وہ اپنا جمود بے حسی چھوڑنے کو تیار نہیں بلکہ اسی فضول مشق میں اپنا وقت ضایع کر رہے ہیں ، اگر ہم اپنے پچھلے اکتہر سال میں اپنی اجتماعی زندگی پر نظریں دوڑائیں تو ہمیں ایک طرف ظلم و ستم کے دراز سلسلے، خرمستیاں ، لوٹ مار کے بازار ، جھوٹی انائیں، منحوس پروٹو کول ، غلیظ عیش و عشرت، نفرت آمیز جاہ و جلال ، بد بودار غرور و تکبر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف سسکیاں ، خود کشیاں، آہ و زرایاں ، بھوک اور فاقے، تکلیفیں، چیخ و پکار، ماتم نظر آتے ہیں دونوں جانب انتہا ہو چکی ہے آپ ہی بتائیں جس معاشرے میں چند ہزار لوگوں نے زندگی کی تمام خوشیوں ، حقوق ، آسائشوں، لذتوں پر جبری قبضہ کر رکھا ہو اور باقی کروڑوں لوگ سسک سسک کر دم توڑ رہے ہوں۔ جہاں انصاف ، قانون ان چند ہزاروں کی لونڈی بنا ہوا ہو جہاں حکمران عوام کے بجائے مخصوص طبقوں سے آ رہے ہیں اور حکمران بھی ایسے کہ سر پیٹنے کو دل چاہے۔
کواکبی نے ہمارے جیسے حکمرانوں کے متعلق کیا خو ب کہا ہے '' متسبد حکمرانوں کا برتائو اپنی رعایا سے بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسا دغا باز سر پرست کا ، دولت مند کا یتیموں سے ہوتا ہے چونکہ ان کے مال و متاع میں غبن و تصرف کا موقعہ اسی وقت تک ہے جب تک وہ بے سمجھ اور نابالغ ہے اس لیے اس کی مصلحت ہمیشہ یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ بالغ نہ ہونے پائیں۔ اسی طرح متسبد بھی ہمیشہ یہ ہی چاہتا ہے کہ اس کی رعایا کبھی بھی صحیح علم سے روشناس نہ ہونے پائے کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اس کا یہ علم و استبداد اسی وقت تک ہے جب تک رعایا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پڑی رہے۔
سابق بھارتی صدر عبدالکلام اپنی کتاب Ignited Minds میں لکھتے ہیں ''کہ میں عیدالاضحی پڑھنے کے بعد جب عیدگاہ سے واپس آیا تو دوستوں نے پوچھا ''کیا دعا مانگی میں نے جواب دیا کہ یا اللہ میری قوم کو یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ ادارے افراد سے بڑے ہوتے ہیں'' لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے ، اداروں کی بے حرمتی کرنے والے خود قانون کے رکھوالے ہیں۔
حکومتیں منتخب ہونے کے بعد عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے اللے تلے لے کر بیٹھ جاتی ہے اور پھر ان ہی کو حل کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کر دیتی ہیں ۔ ول ڈیورانٹ کہتا ہے کہ ''معاشرہ تخلیقات کے بجائے انسانی فطرت کے مطابق استوار ہوتا ہے اور قو میں بھی انسانی فطرت و ساخت کے مطابق ہی تشکیل پاتی ہیں۔''
ہمارے ملک کو چلانے والے 73 سال میں ایک بالکل سیدھی سادی سے بات کو کبھی سمجھ ہی نہیں پائے کہ آسانیاں اگر تقسیم نہ کی جائیں تو مشکلات جمع ہو جاتی ہیں۔ تاریخ سے بڑا کوئی اور استاد ہے ہی نہیں۔ زندگی کی ہر مشکل اور مسئلے کا حل اس میں موجود ہے۔ دنیا بھر نے اپنی مشکلات اور مسائل اور پریشانیوں کا حل اسی میں ہی سے نکالا ہے ۔ اگر ہم غور سے سنیں تو تاریخ چیخ چیخ کر ہمیں کہہ رہی ہے کہ اپنے اس بوڑھے، لاغر ، بیمار ، بد بودار اور غلیظ معاشرے کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کے بجائے اسے مرنے دو اور ایک نئے معاشرے کو جس کی بنیاد، اخلاقیات پر رکھی ہوئی ہو اور جس میں سے اچھے اور صحت مند انسانوں کا جنم ممکن ہو کو پیدا ہونے دیں۔
اسی میں سے ایسے انسان پیدا ہوں گے جو مساوات، عدل و انصاف ، عزت ، آزادی ، رواداری ، برداشت، قانون کی بالا دستی ، میرٹ ، احترام اور محبت پر ایمان رکھیں گے اور پھر ان ہی میں سے لوگ آگے بڑھ کر ملک کی حکمرانی سنبھال لیں گے اور پھر وہ لوگ تمام مشکلات ، پریشانیاں ، مصیبتیں ، آفتیں ، جن سے لوگ دو چار ہیں کا خاتمہ کر کے زندگی کی تمام خوشیوں اور لذتوں کو معاشرے کے ہر انسان میں برابر تقسیم کر دیں گے اور پھر ملک میں ہر طرف اچھے اور صحت مند انسان نظر آئیں گے۔