مکافات عمل
فرعون کی فرعونیت تو اب بھی ضرب المثل بنی ہوئی ہے۔
ظالموں کا ہمیشہ برا انجام ہوا ہے۔ وہ اپنے عروج کے زمانے میں تو خوب اپنی من مانی کرتے ہیں ، کسی پر رحم نہیں کھاتے۔ کسی کی فریاد اور آہ و بکا کی بھی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ ان کا یہ رویہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہوتا ہے مگر وہ اپنے اقتدار کے نشے میں اپنی ہر برائی کو بھلائی خیال کرتے ہوئے اپنے ظلم کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں لیکن کب تک آخر ایک دن اوپر والے کی پکڑ میں آ جاتے ہیں اور پھر معافیاں بھی کام نہیں دیتی ہیں۔
فرعون کی فرعونیت تو اب بھی ضرب المثل بنی ہوئی ہے۔ اس نے حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کے ساتھ جو ظلم کیے ان کی کوئی انتہا نہیں تھی وہ صرف خدا کا منکر نہیں تھا بلکہ خود خدا بن بیٹھا تھا۔ لوگوں سے خود کو سجدے کراتا تھا۔ حضرت موسیٰؑ جب اپنی قوم کو فرعون کے ظلم و ستم سے بچانے کے لیے انھیں مصر سے فلسطین لے جا رہے تھے راستے میں دریائے نیل حائل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دریائے نیل کے پانی کو دو حصوں میں پھاڑ کر ان کے گزرنے کے لیے راستہ بنا دیا۔ وہ اپنی قوم کے ساتھ بخیریت دریا پار کر گئے۔
فرعون ان کے تعاقب میں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ دریائے نیل کے پاس پہنچا تو اس وقت بھی دریا میں راستہ بنا ہوا تھا مگر جب وہ اور اس کی فوج اس راستے سے گزرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریائے نیل کا پانی برابر ہو گیا چنانچہ فرعون اور اس کی فوج دریا کی موجوں میں پھنس گئی۔ ایسے میں جب فرعون کو اپنی موت یقینی نظر آنے لگی تو وہ گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا کہ دنیا کا اصل مالک تو تو ہی ہے مجھ سے خدا بننے کی غلطی ہو گئی، مجھے معاف کر دے ، اب میں تیرا فرمانبردار بندہ بنوں گا اور تیرے پیغمبر کے کہے کو مانوں گا مگر ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ بس اب وقت ختم ہو چکا اب میں تجھے پوری دنیا کے لیے درس عبرت بنا دوں گا۔
فرعون اپنی فوج کے ساتھ دریا میں غرق ہو گیا کچھ دیر بعد اس کی لاش پانی کے اوپر آ گئی اور اسے اس کے لوگوں نے حنوط کر کے محفوظ کر لیا اور یوں یہ لاش ظالموں اور نافرمانوں کے لیے درس عبرت بن گئی۔
افسوس کہ انسانوں نے اس سے بھی کوئی سبق نہیں لیا اور بعد میں بھی نمرود اور فرعون جیسی خصلت رکھنے والے لوگ دنیا میں آتے رہے اور آگے بھی آتے رہیں گے مگر وہ اپنے کیفر کردار کو بھی پہنچتے رہیں گے۔ پچھتر برس قبل بھی فرعون جیسی خصلت رکھنے والا ایک شخص ہٹلر خود کو دنیا کا واحد حکمران منوانے کے زعم میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنا تھا اس نے پورے جرمنی میں بے ہودگی کا ماحول پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کا قتل عام کروایا۔ آخر اس کا فخر و غرور خاک میں مل گیا وہ پوری دنیا کو تو کیا فتح کرتا خود اپنے ملک پر اتحادیوں کا قبضہ کرا بیٹھا اور پھر اسے اتحادیوں کے ہاتھوں لگنے سے بچنے کے لیے خودکشی کرنا پڑی۔
اب مودی کو ہی لے لیجیے اسے موجودہ دور کا ہٹلر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ جب گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا اس نے ہزاروں مسلمانوں کو صرف ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہلاک کروا دیا تھا۔ اب دہلی کے سنگھاسن پر بیٹھ کر پھر وہی عمل دہرا رہا ہے۔ سیکڑوں مسلمانوں کو گائے کی حفاظت کے نام پر مروا چکا ہے، ان مقتولین کے قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ملی ہے دراصل انھیں گائے کے محافظ ہونے کے ناتے کسی کو بھی قتل کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ مودی کشمیر میں اپنا مسلم کش ایجنڈا نافذ کر چکا ہے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔ پورے کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب چار ماہ ہونے کو آئے ہیں کشمیری مسلسل لاک ڈاؤن کی پوزیشن میں ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار شدگان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کشمیری جیلیں بھر چکی ہیں چنانچہ بھارت کی دور دراز جیلوں میں انھیں منتقل کرنا پڑا ہے۔ کشمیری کھانے پینے کی اشیا کے لیے ترس رہے ہیں اور مواصلاتی نظام بند کر دیا گیا ہے۔ پوری وادی میں لاکھوں فوجی پہرہ دے رہے ہیں اور مظاہرہ کرنیوالے کشمیریوں کو ہلاک کرنے میں گریز نہیں کرتے۔
پوری دنیا کی حقوق انسانی کی تنظیمیں مودی کو کشمیریوں پر ظلم کرنے سے باز رہنے اور انھیں حق خود اختیاریت دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں مگر مودی بدستور کشمیریوں پر ظلم ڈھانے میں مصروف ہے اور وہ اس بات پر فخر کر رہا ہے کہ اس نے بھارتی آئین کی شک 370 کو ختم کر کے کشمیریوں کو بھارت کا غلام بنا لیا ہے اور یہ اس کا وہ کارنامہ ہے جو اس سے پہلے کوئی بھارتی حکومت انجام نہیں دے سکی تھی۔ مودی نے اس کے بعد بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے اپنے ایجنڈے کو اپنی سپریم کورٹ کے ذریعے پورا کر لیا ہے۔
افسوس کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی مسلم دشمن ایجنڈے پر کاربند ہے وہ انصاف کرنے کے بجائے نا انصافی کو پروان چڑھا رہا ہے جس پر پوری دنیا اس کی مذمت کر رہی ہے۔ اب مودی نے مسلمانوں کے خلاف اپنے ظلم کو اور آگے بڑھاتے ہوئے مسلمانوں کی شہریت سے متعلق ایک متنازعہ بل پاس کرا لیا ہے۔ اس بل کو بھارت میں صدیوں سے آباد مسلمانوں کے خلاف استعمال کر کے انھیں بھارت سے بے دخل کرنے کا پروگرام ہے۔
شاید مودی مسلم دشمنی پر مبنی اپنی مہم میں کامیاب نہ ہو پاتا اگر بعض بھارتی دوغلی سیاسی پارٹیاں اس کا ساتھ نہ دیتیں۔ وہ بظاہر خود کو سیکولر کہتی ہیں مگر اندر سے مسلم دشمن رجحان رکھتی ہیں چنانچہ کانگریس سے مسلمانوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ گزشتہ سنیچر کو کانپور میں وہ گنگا گھاٹ کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا منہ کے بل گرا جس سے یقینا اس کے چہرے پر چوٹیں آئی ہوں گی۔ کاش کہ وہ اسے قدرت کی ایک وارننگ کے طور پر لے تو یہ اس کے مفاد میں ہی ہو گا۔
لندن میں بھی ایک شخص عبرت کا نشان بن چکا ہے۔ وہ کبھی لاکھوں لوگوں کا قائد تھا اور راجہ اندر کی طرح زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس کے ایک اشارے پر پورا کراچی بند ہو جاتا تھا۔ بڑے بڑے لیڈر اس کی رہائش گاہ عزیز آباد کے چکر لگایا کرتے تھے کہ کاش ان کی پارٹی کو اس کی حمایت حاصل ہو جائے اس لیے کہ وہ کسی حکومت کو گرا بھی سکتا تھا اور بنا بھی سکتا تھا۔
اس کی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ اس کی تقریر سننے کے لیے پورا شہر امڈ آتا تھا۔ پھر ٹی وی پر اس کے خطاب سنے جانے لگے۔ وہ کئی کئی گھنٹے تقریر کرتا اور ٹی وی چینلز اپنے خاص پروگرام بھی چھوڑ کر اس کی تقریر دکھاتے رہتے اس لیے کہ نہ دکھانے پر انھیں اس کے کارکنوں سے نقصان کا احتمال رہتا۔ پھر اس نے حکومت سے ٹکرانے کی پالیسی اختیار کر لی۔
کراچی میں آئے دن ہڑتالیں کرانا معمول بنا لیا۔ ہر روز شہر میں کئی کئی لوگ قتل کر دیے جاتے نہ ان کے مارے جانے کی وجہ کا پتہ چلتا اور نہ قاتل کا سراغ ملتا۔ کراچی میں تسلسل سے ہونے والی اس قتل و غارت گری کے بارے میں یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں اچھی طرح بٹھا دی گئی تھی کہ یہ سب کچھ ایجنسیاں کرا رہی ہیں جب کہ ایجنسیوں کا کام قتل و غارت گری کو روکنا ہوتا ہے۔
اب وہ شخص خود فخریہ اعتراف کر رہا ہے کہ وہ تمام کچھ ''را'' کی خوشنودی کے لیے کرایا کرتا تھا۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک پاکستان کے بجائے بھارت سارے جہاں سے اچھا ملک ہے اس نے اپنے اس مشن میں مہاجر نوجوانوں کو استعمال کر کے انھیں تباہ کر دیا۔ آخر ظلم کے مقدر میں انجام لکھا گیا ہے اور اب وہ شخص مکافات عمل سے گزر رہا ہے۔ وہ ایسی کسمپرسی کی حالت میں لندن میں رہ رہا ہے کہ درس عبرت بنا ہوا ہے۔
تمام اس کے ساتھی اسے چھوڑ کر چلے گئے ہیں اب جو دو تین باقی ہیں وہ تنخواہ دار ہیں۔ وہ اس وقت ضمانت پر ہے اور جون کے مہینے میں اس پر مقدمہ شروع ہونے والا ہے۔ وہ اپنے کیے جرائم کے ثبوتوں کے عدالت میں پیش ہونے سے خوفزدہ ہے چنانچہ جان بچانے کے لیے اب کسی طرح لندن چھوڑنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
اب اس کا واحد سہارا مودی ہے وہ اس سے گڑگڑا کر بنتی کر رہا ہے کہ اسے بھارتی شہریت دے دی جائے مگر اس کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے حالانکہ اسے ضرور وہاں کی شہریت ملنی چاہیے اس لیے کہ وہ بھارت کے مفاد میں پاکستان کو اجاڑنے کی بھرپور کوشش کرتا رہا ہے مگر شاید مودی اسے اس لیے اپنے ہاں بلانے سے پس و پیش کر رہا ہے کہ جو اپنے ملک اور اپنے لوگوں کا نہ ہو سکا وہ بھلا کسی اور کا کیا ہو گا؟ پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا بھی مکافات عمل کا ہی نتیجہ ہے کیا آئین پاکستان کو توڑنے کی سزا جو آئین میں درج ہے اس سے انحراف کیا جا سکتا ہے؟