غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں

زندگی کے معمولات جانے کیسی کیسی یادیں ماضی کے گودام میں ڈال دیتے ہیں۔

سردی، خنکی، بارش، دھند یا نیم تاریکی موسم پر ڈپریشن، اداسی، مایوسی اورکاہلی کی چادر ڈھانپ دیتی ہے۔ جب موسم ڈپریشن کا شکار ہو تو انسان بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ کئی وجوہات کی بنا پر ہم اس موسم کے آنے سے پہلے ہی اس موسم کی اذیت سے دوچار چلے آ رہے تھے، اسی لیے زندگی پر تیزی اور حرکت کے بجائے کاہلی قابض ہو گئی ہے اور اداسی ہے کہ دو چند سی ہوتی جا رہی ہے۔

عمر بڑھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان ماں کی گود اور فرشتوں یا بچوں کی سی معصومیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ زندگی کا سفر طے ہوتا ہے تو انسان کو لاکھوں نعمتیں ، سہولتیں اور آسانیاں میسر آتی ہیں لیکن ماں کی گود اور بچپن کی معصومیت کبھی بھی واپس نہیں آتی۔ گویا زندگی کا سفر بیک وقت محرومیوں اور کامیابیوں سے عبارت ہے لیکن پھر بھی قدرت کا نظام بہر طور یہی پیغام دیتا ہے کہ دنیا دارالفنا ہے، ہر شے کا مقدر جنم لینا اور ختم ہو جانا ہی ہے، اسے یوں بھی کہہ لیں کہ زندگی کا مقدر ہی موت ہے۔ نہ ماں کی گود اور بچپن کی معصومیت ہمیشہ ساتھ دیتی ہے اور نہ ہی موسموں کا عشق عمر بھر ساتھ رہتا ہے۔ ہر چیز اپنا رنگ اور جلوہ دکھا کر ایک نہ ایک دن غائب ہو جاتی ہے۔

ہماری خوش دامن بھی بالآخر ہمارے ذاتی نقصانوں میں ایک مزید نقصان کا اضافہ کر کے ہمیشہ کے لیے ہماری اور دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ لاریب ساری دنیا کی مائیں ایک سی ہوتی ہیں۔ یقینا وہ ساری دنیا کی ماؤں جیسی ہی ہوں گی لیکن وہ ہماری اہلیہ اور ہماری سب سے زیادہ پیاری دوست کی ماں تھیں، وہ بالخصوص اپنے آخر کے دو بچوں کو ایک طویل عرصے تک اس دلخراش اور ہولناک حقیقت سے چھپائے اور بچائے رکھیں کہ ''یتیمی'' ہوتی کیا ہے؟ بہرحال وہ اپنائیتوں، محبتوں اور بہت ساری توجہ کے سارے رشتے توڑ کر وہاں چلی گئیں جہاں دنیا کی ساری مائیں چلی جایا کرتی ہیں۔ موت کا دن ، اس کی وجہ ، اس کا مقام سب کا سب معین ہوتا ہے، اسے کوئی بھی کبھی بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔

موت ایک ایسا صحرا یا گزرگاہ ہے جس پر سے ہر کسی کو اپنے اپنے مقررہ وقت پر گزرنا ہے۔ موت ایک دریا ہے جسے ہر کسی نے پار کرنا ہے، موت ایک وادی ہے جس میں ہر بشر کو اترنا پڑتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قابل رشک زندگی گزارنے والے سے لے کر بدترین زندگی بسر کرنے والے کسی بھی شخص کو مرنا اچھا نہیں لگتا کم بخت زندگی میں ایسی نہ جانے کیسی کشش ہے کہ بہت بری لگ کر بھی اسے بسر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ زندگی کی سب سے بڑی اور پہلی حقیقت موت ہے، جس نے ماں کی گود دیکھی وہ قبر کی آغوش بھی جان لے گا۔ بقول احسان دانش کے :

قبر کے چوکٹھے خالی ہیں انھیں مت بھولو

جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے

موت بہر طور رنج ، دکھ ، غم یا افسوس کا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ یہ سب درست یہ سب بجا لیکن کڑوی سچائی یہ ہے کہ انسان کا اپنا درد ، اپنا دکھ ، اس کا ملال اپنا ہی ہوتا ہے۔ دوسروں کو اس سے کیا لینا دینا؟ وقتی تشفی، لمحاتی دلاسے اور رسمی تعزیتی جملے کے بعد متاثرین ہوتے ہیں ، ان کے غم ہوتے ہیں اور پہاڑوں جیسی بڑے احساس محرومی ، دور کے رشتے دار، دوست ، احباب ، محلے دار ایک ایک کر کے آہستہ آہستہ رخصت ہو جاتے ہیں اور بہت ہی کم وقتوں میں وہ انھیں بھول بھی جاتے ہیں، آنے والی ملاقاتوں میں ایسے لوگ مرنے والے کے لواحقین سے ٹھٹھے مذاق کرنے لگتے ہیں شاید اپنے تئیں وہ ان کا غم غلط کرتے ہوں؟ شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے عدیم ہاشمی نے کیا خوب کہا تھا کہ:


غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں

آنسو نکل پڑے ہیں خریدار کو دیکھ کر

ہماری خوش دامن اس پہلو سے بہت خوش بخت تھیں کہ ایک لہلہاتا اور آسودہ چمن چھوڑ کر گئیں۔ انھیں کوئی حسرت نہ رہی کہ ان کا اچھے سے اچھا علاج معالجہ نہ کرایا جا سکا اور کوئی ایسی آرزو نہ تھی جو ان کے ہونٹوں پر آئی ہو اور ان کی سعادت مند اولادوں نے اسے پورا نہ کیا، ان کے اہل خانہ بالعموم اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی اور ان کی بیٹی یعنی ہماری خوش دامن کی نواسی (جو ہماری بہت ہی اچھی اور فرماں بردار بہو بھی ہے) نے تو ان کی خدمت کا حق ادا کر دیا ، انھی دونوں نے ان کے بیٹوں سے کہیں زیادہ سعادتیں سمیٹیں۔ یہ تحریر کرنا ضروری ہے کہ اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ طلب ، حرص ، آرزو، خواہش اور تقاضوں کے آشوب سے پاک ہو چکی تھیں۔

ہمارا اور ان کا تعلق بھی بڑا ہی دلچسپ اور بڑی حد تک حیرت انگیز اس حوالے سے یوں رہا کہ ہم نے اپنی خوش دامن کو اپنی شادی کے 44 سالہ طویل عرصے میں کسی معاشرتی رشتے کا نام لے کر نہ پکارا اور نہ ہی مخاطب کیا مثلاً خالہ ، پھوپھو ، چچی یا اماں۔ لیکن اس حوالے سے کھری سچائی یہ ہے کہ ہم نے انھیں ماں کہا تو کبھی نہیں لیکن سمجھا ضرور۔ ان سے بعض معاملات میں اختلاف بھی بہت رہا اور ان سے اپنائیت اور ہمدردی بھی اسی قدر رہی۔ آفاقی سچائی یہی ہے کہ ساتھ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کتنا ہی مضبوط اور جذباتی کیوں نہ ہو ایک دن چھوٹ ضرور جاتا ہے۔ ان کا سایہ ہم سب پر اتنے ہی عرصے تک کا تھا سو تمام ہوا۔

سرسوں اور ہلدی کی طرح زرد چہرے کو سفید کفن میں جب مٹی سے بنے وجود کو مٹی کے حوالے کیا جا رہا تھا تو یکایکی قبرستان میں ہماری سوچ میں وہ شام اتر آئی جب ہمارے نبی کریمؐ اندوہ کی تصویر بنے کھڑے تھے اور ابوا کی وادی میں بی بی آمنہ کی میت قبر میں اتاری جا رہی تھی اور آپ حضور اکرمؐ کے لبوں پر ایک معصوم سا سوال تھرکنے لگا تھا ''اماں! آپ بولتی کیوں نہیں؟''

لیکن یہ ہم تھے۔ ہم کون اور ہماری اوقات کیا؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ زندگی کے معمولات جانے کیسی کیسی یادیں ماضی کے گودام میں ڈال دیتے ہیں۔ بچھڑ جانے یا ہمیشہ کے لیے جدا ہو جانے والے دور دراز کی بستیوں میں جا بستے ہیں لیکن وہ کبھی بھولتے نہیں۔ بھول بھی جائیں تو کسی نہ کسی موسم کی کوئی نہ کوئی کروٹ ان کی یاد کو یوں تازہ کر دیتی ہے جیسے پتھر کی سل سے کوئی کونپل پھوٹ نکلتی ہے۔ ہماری خوش دامن کے گھر کے منظر اب معمول پر آ گئے ہیں اور جوں کے توں ہیں لیکن گھر کا ایک ''مخصوص حصہ'' ایسا اجاڑ ہوا کہ چہار سو خاک اڑتی ہے۔
Load Next Story