کراچی میں 10سال بعد ٹیسٹ میچ کا انعقاد
انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر میں ایک اور سنگ میل
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں 10سال بعد ٹیسٹ میچ کا انعقاد خوش آئند ہے، پاکستان اور سری لنکا کے مابین میچ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
کراچی ٹیسٹ کے کامیاب انعقاد سے پاکستان کے حوالے سے ایک مثبت پیغام دنیا کو جائے گا، دیگر ممالک کی ٹیموں کی پاکستان میں آمد کی راہیں کھل جائیں گی،سکیورٹی خدشات کے باعث سری لنکا کرکٹ بورڈ کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، تاہم کلیئرنس کے بعد سری لنکا کے کھلاڑیوں نے بھی پاکستان آنے پر اپنی رضامندی ظاہر کی اور اور مہمان ٹیم دو میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان آئی۔
بدقسمتی سے راولپنڈی میں کھیلا جانے والا پہلا ٹیسٹ بارش کی مداخلت کے سبب نتیجہ خیز نہیں ہوسکا، تاہم کراچی ٹیسٹ میں بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل کھیل نے ملک بھر میں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا،کراچی میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں سکیورٹی کے سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئے۔
دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں اور آفیشلز کو سخت ترین حفاظتی حصار میں ہوٹل سے اسٹیڈیم لایا اور لے جایا جاتا رہا، خصوصی گاڑیوں کے ساتھ بکتر بند گاڑیاں بھی موجود رہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پولیس اور رینجرز کے نوجوانوں اور افسران نے بہترین خدمات انجام دے کر قومی فریضہ اسلوبی کے ساتھ ادا کیا،لاہور سے خصوصی طور پر آنے والے پی سی بی کے 35 سیکورٹی اہلکاروں نے بھی ذمہ داری ادا کی،اسٹیڈیم میں اسپیشل کمانڈوز کو خصوصی طور پر تعینات کیا گیا۔
تماشائیوں نے ابتدا میں کم توجہ دی لیکن میچ میں بدلتی صورتحال کے پیش نظر تماشائیوں کی دلچسپی مسلسل بڑھتی چلی گئی اور انہوں نے جوق در جوق اسٹیڈیم کا رخ کیا، تاہم اسٹیڈیم میں پہنچنے والے تماشائیوں کی تعداد کو تسلی بخش نہیں کہا جاسکتا، 32 ہزار سے زائد نشستوں والے اسٹیڈیم میں 3ہزار تماشائیوں کا نہ پہنچنا ایک لمحہ فکریہ ہے، اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور وہ وجوہات تلاش کرنا ہوںگی کہ جن کی وجہ سے تماشائی اسٹیڈیم کا رخ کرنے سے گریزاں رہے۔
آئندہ مستقبل میں تماشائیوں کو اسٹیڈیم لانے کے لیے مزیدبہتر اقدامات کرنا ہوں گے جس کے لیے سب سے زیادہ اہم تماشائیوں میں دلچسپی کا عنصر پیدا کرنا ہے، مختلف قسم کی ترغیبات تماشائیوں کو گراؤنڈ میں آنے پر مجبور کریں گی اور ان کی دلچسپی بھی بڑھے گی،پی سی بی کی جانب سے شہریوں اور تعلیمی اداروں کے بچوں کے لیے مفت داخلے کی سہولت فراہم کرنے سے بہت مثبت تاثر گیا لیکن سیکورٹی کے نام پر تماشائیوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے کاوشیں کرنا ہوگی۔
توقعات کے برخلاف اسٹیڈیم میں چند ہی خواتین میچ دیکھنے آئیں،ورنہ ایک زمانہ تھا کہ کالجز اور یونیورسٹی کی طالبات کی بڑی تعداد ٹیسٹ میچ کے موقع پر اسٹیڈیم کا رخ کیا کرتی تھی اور اپنے پرجوش نعروں سے پورے اسٹیڈیم کو سر پر اٹھا لیا کرتی تھیں،مگر وہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے،اسٹیڈیم پر پولیس اور رینجرز کی خواتین اہلکار بھی تعینات تھیں،کھانے کے اسٹالز پر قدرے رش دیکھنے میں آیا، تاہم اشیا خورد ونوش کے زیادہ دام وصول کرنے پر تماشائی نالاں نظر آئے،گوکہ اہلیان شہر کے لیے کرکٹ سے لطف اندوز ہونے کا یہ ایک بہترین موقع تھا۔
کرکٹ سے لگاؤ رکھنے والے کراچی کے شہری زیادہ تعداد میں نہیں پہنچے لیکن سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بھی کرکٹ کے دیوانے میچ دیکھنے اسٹیڈیم آ گئے تھے،خیرپور میرس سے ایک نوجوان جزبہ خیر سگالی کے طور پر سری لنکا کا جھنڈا لے کر آیا، کراچی ٹیسٹ میں افریقی شہر موزمبیق میں مقیم کرکٹ کا شیدائی محمد آصف پنجوانی بھی لطف اندوز ہونے اسٹیڈیم پہنچا۔
نشیب و فراز سے گزرنے والا کراچی ٹیسٹ میچ بہت سے کھلاڑیوں کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرے گاجن میں مسلسل بیٹنگ میں ناکام ٹیسٹ کپتان اظہر علی کا نام سرفہرست ہے، اظہرعلی کی مسلسل ناکامی کے بعد کرکٹ کے حلقوں نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ سرفراز احمد میں آخر کیا برائی تھی کہ ان کو قیادت سے الگ کر دیا گیا۔
اگر پی سی بی حکام اظہرعلی کو وقت دینا چاہتے ہیں تو یہ اصول سرفراز احمد کے ساتھ بھی اپنایا جانا چاہیے تھا، یہی وجہ ہے کہ کراچی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں کپتان صفر کی خفت کاشکار ہوئے تو تماشائیوں نے گو اظہر گو کے نعرے لگائے، دس سال تک مسلسل جدوجہد کرنے کے بعد ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنانے والے فواد عالم کو موقع نہ دیے جانے پر ان کے مداحوں کی نعرے بازی بھی جاری رہی جبکہ سرفراز احمد کے مداح بھی سرفراز کو واپس لاؤ کے نعرے بلند کرتے نظر آئے۔
مختلف منصوبوں پر کروڑوں روپے لٹانے والے پاکستان کرکٹ بورڈ بورڈ کی جانب سے کراچی ٹیسٹ کے موقع پر سابق کرکٹر سے بے رخی قابل افسوس لگی، دس سال پہلے سری لنکا ہی کے خلاف کھیلے جانے والے آخری ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی جانب سے ریکارڈساز 313 رنز کی اننگز کھیلنے والے سابق ٹیسٹ کپتان یو نس خان کی پی سی بی سے ناراضگی سب کے سامنے ہے۔
پی سی بی یونس خان کو کراچی میچ میں بطور مہمان خصوصی بلانا چاہتا تھا لیکن بورڈ کی جانب سے اس عظیم کھلاڑی کو مدعو کرنے کا طریقہ کار مناسب نہ تھا جس کی وجہ سے یونس خان نے آنے سے معذرت کرلی،کراچی میں معروف کرکٹرز ز رہتے ہیں لیکن بورڈ کی جانب سے ان میں سے سے کسی کو بھی مدعو کرنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی،صادق محمد نالاں نظر آئے کہ انہیں 50 روپے والا ٹکٹ تما دیا گیا۔
میچ دیکھنے کے لیے چند سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے اسٹیڈیم کا رخ کیا،تاہم قیادت سے الگ کیے جانے والے سرفراز احمد اور سابق ٹیسٹ کپتان معین خان اسٹیڈیم نہیں آئے،پی سی بی کی جانب سے انتظامی بدانتظامی کوئی نیا واقعہ نہیں،نیشنل اسٹیڈیم میں ٹیسٹ میچ سے ایک دن قبل مرکزی عمارت کی لفٹ بند ہوجانے سے صحافیوں سمیت پانچ افراد 20 منٹ تک پھنسے رہے، اسٹیڈیم پر ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت والے 3سال سے زیر التوا تعمیراتی منصوبے پر باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔
کراچی میں 10 برس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی پرسندھ حکومت اورمقامی انتظامیہ بے حسی کا شکار نظر آئی، ٹیسٹ میچ کے موقع پر شہرمیں کسی بھی قسم کی تشہری مہم شروع نہیں کی گئی، قبل ازیں پی ایس ایل فور کے موقع پر شہر بھر میں بھر پور مہم چلائی گئی تھی جس میں خیر مقدمی بینز لگائے گئے تھے اور اس کے ساتھ معروف انٹر نیشنل اور پاکستانی کرکٹرز کی قد آدم تصاویر بھی آویزاں کی گئیں تھیں، تاہم کراچی ٹیسٹ کے موقع پرعوامی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے صوبائی حکومت نے بھی باوجوہ چپ سادھ لی، دوسری جانب کرکٹ کارنیوال کا اعلان کرنے والے کمشنر کراچی کی جانب سے شہر کو سجانے کے بلند بانگ دعوے بھی ہوا ہوئے،کمشنر کراچی میچ کے موقع پر اپنا مقام حاصل کرنے میں ناکام نظر آئے، انہوں نے مرکزی عمارت میں کھڑے ہوکر میڈیا بریفنگ دی جبکہ اسٹیڈیم میں کانفرنس ہال اور پریس کانفرنس روم بھی موجود ہے۔
خوش آئند بات یہ رہی کہ سری لنکا کے کھلاڑی اور آفیشلز دورے کے موقع پر کیے جانے والے انتظامات سے بہت زیادہ مطمئن تھے، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے موقع ملتے ہی ہوٹل سے نکل کر سیر و تفریح بھی کی اور ساحلی علاقے کلفٹن کے سمندر کنارے ریسٹورنٹ میں پہنچ کر سخت سردی میں کھانے سے لطف اندوز ہوئے، سری لنکا کے کوچ کی ذمہ داری سنبھالنے والے پاکستان ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر بھی توجہ کا مرکز بنے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ میری گہری وابستگی اور والہانہ لگاؤ ہے لیکن اس وقت حریف سائیڈ سے تعلق ہے۔
مکی آرتھر کی جانب سے دی جانے والی ٹپس نے سری لنکا کے کھلاڑیوں کی بہت مدد کی، مکی آرتھر کا کہنا تھا کہ مصباح الحق سے کوئی رقابت نہیں، بطور کوچ پاکستان کرکٹ ٹیم کی بہتری کا سوچا،پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ گزارے 3 برسوں کا ہر لمحہ دل پر نقش اور یادگار ہے،پاکستان ٹیم کی میرے دل میں جگہ موجود ہے، دوبارہ پاکستان آکر اچھا لگا، میں نے کوچ کی حیثیت سے ہمیشہ ٹیم کی بہتری کے لیے سوچا۔
دوسری جانب دوہری ذمہ داریوں پر شدید تنقید کا نشانہ بننے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹرمصباح الحق نے برملا اس امر کا اظہار کیاکہ پاکستان کی بیٹنگ میں بہتری آئی تاہم بولنگ میں سخت محنت کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ بابر سے اچھی توقعات ہیں جبکہ نوجوان فاسٹ بولرز کا مستقبل روشن ہے، بولنگ میں بہتری لانا ہوگی، ہمیں نتائج کے لیے حریف ٹیم کو دو مرتبہ آؤٹ کرنے کی صلاحیت درکار ہے۔
1955 میں تعمیر کیے جانے والے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں یہ 42 واں ٹیسٹ میچ تھا،بیٹسمینوں اور اسپنرز کے لیے سازگار قرار پائے جانے والی کراچی کی نیشنل اسٹیڈیم کی وکٹ نے اس مرتبہ الگ ہی رنگ پیش کیا، پہلے ہی دن 13 وکٹیں گریں تو لوگ حیران رہ گئے،فضا میں پائی جانے والی نمی کی بدولت فاسٹ بولرز نے صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور وکٹیں حاصل کرتے رہے۔
پاکستان کی فاسٹ بولنگ کا مستقبل قرار پانے والے شاہین شاہ شاہ آفریدی نے بھی ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی مرتبہ 5 وکٹیں اپنے نام کرنے کا کارنامہ انجام دیا، دوسری اننگز میں اوپنرز عابد علی اور شان مسعود کی کارکردگی پاکستان کو میچ میں واپس لے آئی ہے، کھیل میں دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے پچ کا جاندار ہونا ضروری ہے، اس کی تیاری میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف کیوریٹر آغا اور نیشنل اسٹیڈیم کے ہیڈ کیوریٹر ریاض احمد اور ان کے عملے کی خصوصی کاوشوں کو نہ سراہا جائے تو یہ سراسر زیادتی کے مترادف ہوگا۔
سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ کے کامیاب انعقاد کے بعد بعد آئندہ مستقبل میں بھی امکان ہے کہ کراچی میں ہونے والے میچز دلچسپی کا سبب بنیں گے، کوشش یہ کی جائے کہ تماشائیوں کو میدان میں لانے کے لیے باہمی طور پر کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے ورنہ انٹرنیشنل کرکٹ تو بحال ہوجائے گی لیکن میدان تماشائیوں سے خالی نظر آئیں گے اور کھلاڑی تماشائیوں سے ملنے والی داد کو ترستے رہ جائیں گے۔
کراچی ٹیسٹ کے کامیاب انعقاد سے پاکستان کے حوالے سے ایک مثبت پیغام دنیا کو جائے گا، دیگر ممالک کی ٹیموں کی پاکستان میں آمد کی راہیں کھل جائیں گی،سکیورٹی خدشات کے باعث سری لنکا کرکٹ بورڈ کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، تاہم کلیئرنس کے بعد سری لنکا کے کھلاڑیوں نے بھی پاکستان آنے پر اپنی رضامندی ظاہر کی اور اور مہمان ٹیم دو میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان آئی۔
بدقسمتی سے راولپنڈی میں کھیلا جانے والا پہلا ٹیسٹ بارش کی مداخلت کے سبب نتیجہ خیز نہیں ہوسکا، تاہم کراچی ٹیسٹ میں بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل کھیل نے ملک بھر میں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا،کراچی میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں سکیورٹی کے سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئے۔
دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں اور آفیشلز کو سخت ترین حفاظتی حصار میں ہوٹل سے اسٹیڈیم لایا اور لے جایا جاتا رہا، خصوصی گاڑیوں کے ساتھ بکتر بند گاڑیاں بھی موجود رہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پولیس اور رینجرز کے نوجوانوں اور افسران نے بہترین خدمات انجام دے کر قومی فریضہ اسلوبی کے ساتھ ادا کیا،لاہور سے خصوصی طور پر آنے والے پی سی بی کے 35 سیکورٹی اہلکاروں نے بھی ذمہ داری ادا کی،اسٹیڈیم میں اسپیشل کمانڈوز کو خصوصی طور پر تعینات کیا گیا۔
تماشائیوں نے ابتدا میں کم توجہ دی لیکن میچ میں بدلتی صورتحال کے پیش نظر تماشائیوں کی دلچسپی مسلسل بڑھتی چلی گئی اور انہوں نے جوق در جوق اسٹیڈیم کا رخ کیا، تاہم اسٹیڈیم میں پہنچنے والے تماشائیوں کی تعداد کو تسلی بخش نہیں کہا جاسکتا، 32 ہزار سے زائد نشستوں والے اسٹیڈیم میں 3ہزار تماشائیوں کا نہ پہنچنا ایک لمحہ فکریہ ہے، اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور وہ وجوہات تلاش کرنا ہوںگی کہ جن کی وجہ سے تماشائی اسٹیڈیم کا رخ کرنے سے گریزاں رہے۔
آئندہ مستقبل میں تماشائیوں کو اسٹیڈیم لانے کے لیے مزیدبہتر اقدامات کرنا ہوں گے جس کے لیے سب سے زیادہ اہم تماشائیوں میں دلچسپی کا عنصر پیدا کرنا ہے، مختلف قسم کی ترغیبات تماشائیوں کو گراؤنڈ میں آنے پر مجبور کریں گی اور ان کی دلچسپی بھی بڑھے گی،پی سی بی کی جانب سے شہریوں اور تعلیمی اداروں کے بچوں کے لیے مفت داخلے کی سہولت فراہم کرنے سے بہت مثبت تاثر گیا لیکن سیکورٹی کے نام پر تماشائیوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے کاوشیں کرنا ہوگی۔
توقعات کے برخلاف اسٹیڈیم میں چند ہی خواتین میچ دیکھنے آئیں،ورنہ ایک زمانہ تھا کہ کالجز اور یونیورسٹی کی طالبات کی بڑی تعداد ٹیسٹ میچ کے موقع پر اسٹیڈیم کا رخ کیا کرتی تھی اور اپنے پرجوش نعروں سے پورے اسٹیڈیم کو سر پر اٹھا لیا کرتی تھیں،مگر وہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے،اسٹیڈیم پر پولیس اور رینجرز کی خواتین اہلکار بھی تعینات تھیں،کھانے کے اسٹالز پر قدرے رش دیکھنے میں آیا، تاہم اشیا خورد ونوش کے زیادہ دام وصول کرنے پر تماشائی نالاں نظر آئے،گوکہ اہلیان شہر کے لیے کرکٹ سے لطف اندوز ہونے کا یہ ایک بہترین موقع تھا۔
کرکٹ سے لگاؤ رکھنے والے کراچی کے شہری زیادہ تعداد میں نہیں پہنچے لیکن سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بھی کرکٹ کے دیوانے میچ دیکھنے اسٹیڈیم آ گئے تھے،خیرپور میرس سے ایک نوجوان جزبہ خیر سگالی کے طور پر سری لنکا کا جھنڈا لے کر آیا، کراچی ٹیسٹ میں افریقی شہر موزمبیق میں مقیم کرکٹ کا شیدائی محمد آصف پنجوانی بھی لطف اندوز ہونے اسٹیڈیم پہنچا۔
نشیب و فراز سے گزرنے والا کراچی ٹیسٹ میچ بہت سے کھلاڑیوں کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرے گاجن میں مسلسل بیٹنگ میں ناکام ٹیسٹ کپتان اظہر علی کا نام سرفہرست ہے، اظہرعلی کی مسلسل ناکامی کے بعد کرکٹ کے حلقوں نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ سرفراز احمد میں آخر کیا برائی تھی کہ ان کو قیادت سے الگ کر دیا گیا۔
اگر پی سی بی حکام اظہرعلی کو وقت دینا چاہتے ہیں تو یہ اصول سرفراز احمد کے ساتھ بھی اپنایا جانا چاہیے تھا، یہی وجہ ہے کہ کراچی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں کپتان صفر کی خفت کاشکار ہوئے تو تماشائیوں نے گو اظہر گو کے نعرے لگائے، دس سال تک مسلسل جدوجہد کرنے کے بعد ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنانے والے فواد عالم کو موقع نہ دیے جانے پر ان کے مداحوں کی نعرے بازی بھی جاری رہی جبکہ سرفراز احمد کے مداح بھی سرفراز کو واپس لاؤ کے نعرے بلند کرتے نظر آئے۔
مختلف منصوبوں پر کروڑوں روپے لٹانے والے پاکستان کرکٹ بورڈ بورڈ کی جانب سے کراچی ٹیسٹ کے موقع پر سابق کرکٹر سے بے رخی قابل افسوس لگی، دس سال پہلے سری لنکا ہی کے خلاف کھیلے جانے والے آخری ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی جانب سے ریکارڈساز 313 رنز کی اننگز کھیلنے والے سابق ٹیسٹ کپتان یو نس خان کی پی سی بی سے ناراضگی سب کے سامنے ہے۔
پی سی بی یونس خان کو کراچی میچ میں بطور مہمان خصوصی بلانا چاہتا تھا لیکن بورڈ کی جانب سے اس عظیم کھلاڑی کو مدعو کرنے کا طریقہ کار مناسب نہ تھا جس کی وجہ سے یونس خان نے آنے سے معذرت کرلی،کراچی میں معروف کرکٹرز ز رہتے ہیں لیکن بورڈ کی جانب سے ان میں سے سے کسی کو بھی مدعو کرنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی،صادق محمد نالاں نظر آئے کہ انہیں 50 روپے والا ٹکٹ تما دیا گیا۔
میچ دیکھنے کے لیے چند سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے اسٹیڈیم کا رخ کیا،تاہم قیادت سے الگ کیے جانے والے سرفراز احمد اور سابق ٹیسٹ کپتان معین خان اسٹیڈیم نہیں آئے،پی سی بی کی جانب سے انتظامی بدانتظامی کوئی نیا واقعہ نہیں،نیشنل اسٹیڈیم میں ٹیسٹ میچ سے ایک دن قبل مرکزی عمارت کی لفٹ بند ہوجانے سے صحافیوں سمیت پانچ افراد 20 منٹ تک پھنسے رہے، اسٹیڈیم پر ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت والے 3سال سے زیر التوا تعمیراتی منصوبے پر باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔
کراچی میں 10 برس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی پرسندھ حکومت اورمقامی انتظامیہ بے حسی کا شکار نظر آئی، ٹیسٹ میچ کے موقع پر شہرمیں کسی بھی قسم کی تشہری مہم شروع نہیں کی گئی، قبل ازیں پی ایس ایل فور کے موقع پر شہر بھر میں بھر پور مہم چلائی گئی تھی جس میں خیر مقدمی بینز لگائے گئے تھے اور اس کے ساتھ معروف انٹر نیشنل اور پاکستانی کرکٹرز کی قد آدم تصاویر بھی آویزاں کی گئیں تھیں، تاہم کراچی ٹیسٹ کے موقع پرعوامی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے صوبائی حکومت نے بھی باوجوہ چپ سادھ لی، دوسری جانب کرکٹ کارنیوال کا اعلان کرنے والے کمشنر کراچی کی جانب سے شہر کو سجانے کے بلند بانگ دعوے بھی ہوا ہوئے،کمشنر کراچی میچ کے موقع پر اپنا مقام حاصل کرنے میں ناکام نظر آئے، انہوں نے مرکزی عمارت میں کھڑے ہوکر میڈیا بریفنگ دی جبکہ اسٹیڈیم میں کانفرنس ہال اور پریس کانفرنس روم بھی موجود ہے۔
خوش آئند بات یہ رہی کہ سری لنکا کے کھلاڑی اور آفیشلز دورے کے موقع پر کیے جانے والے انتظامات سے بہت زیادہ مطمئن تھے، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے موقع ملتے ہی ہوٹل سے نکل کر سیر و تفریح بھی کی اور ساحلی علاقے کلفٹن کے سمندر کنارے ریسٹورنٹ میں پہنچ کر سخت سردی میں کھانے سے لطف اندوز ہوئے، سری لنکا کے کوچ کی ذمہ داری سنبھالنے والے پاکستان ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر بھی توجہ کا مرکز بنے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ میری گہری وابستگی اور والہانہ لگاؤ ہے لیکن اس وقت حریف سائیڈ سے تعلق ہے۔
مکی آرتھر کی جانب سے دی جانے والی ٹپس نے سری لنکا کے کھلاڑیوں کی بہت مدد کی، مکی آرتھر کا کہنا تھا کہ مصباح الحق سے کوئی رقابت نہیں، بطور کوچ پاکستان کرکٹ ٹیم کی بہتری کا سوچا،پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ گزارے 3 برسوں کا ہر لمحہ دل پر نقش اور یادگار ہے،پاکستان ٹیم کی میرے دل میں جگہ موجود ہے، دوبارہ پاکستان آکر اچھا لگا، میں نے کوچ کی حیثیت سے ہمیشہ ٹیم کی بہتری کے لیے سوچا۔
دوسری جانب دوہری ذمہ داریوں پر شدید تنقید کا نشانہ بننے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹرمصباح الحق نے برملا اس امر کا اظہار کیاکہ پاکستان کی بیٹنگ میں بہتری آئی تاہم بولنگ میں سخت محنت کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ بابر سے اچھی توقعات ہیں جبکہ نوجوان فاسٹ بولرز کا مستقبل روشن ہے، بولنگ میں بہتری لانا ہوگی، ہمیں نتائج کے لیے حریف ٹیم کو دو مرتبہ آؤٹ کرنے کی صلاحیت درکار ہے۔
1955 میں تعمیر کیے جانے والے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں یہ 42 واں ٹیسٹ میچ تھا،بیٹسمینوں اور اسپنرز کے لیے سازگار قرار پائے جانے والی کراچی کی نیشنل اسٹیڈیم کی وکٹ نے اس مرتبہ الگ ہی رنگ پیش کیا، پہلے ہی دن 13 وکٹیں گریں تو لوگ حیران رہ گئے،فضا میں پائی جانے والی نمی کی بدولت فاسٹ بولرز نے صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور وکٹیں حاصل کرتے رہے۔
پاکستان کی فاسٹ بولنگ کا مستقبل قرار پانے والے شاہین شاہ شاہ آفریدی نے بھی ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی مرتبہ 5 وکٹیں اپنے نام کرنے کا کارنامہ انجام دیا، دوسری اننگز میں اوپنرز عابد علی اور شان مسعود کی کارکردگی پاکستان کو میچ میں واپس لے آئی ہے، کھیل میں دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے پچ کا جاندار ہونا ضروری ہے، اس کی تیاری میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف کیوریٹر آغا اور نیشنل اسٹیڈیم کے ہیڈ کیوریٹر ریاض احمد اور ان کے عملے کی خصوصی کاوشوں کو نہ سراہا جائے تو یہ سراسر زیادتی کے مترادف ہوگا۔
سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ کے کامیاب انعقاد کے بعد بعد آئندہ مستقبل میں بھی امکان ہے کہ کراچی میں ہونے والے میچز دلچسپی کا سبب بنیں گے، کوشش یہ کی جائے کہ تماشائیوں کو میدان میں لانے کے لیے باہمی طور پر کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے ورنہ انٹرنیشنل کرکٹ تو بحال ہوجائے گی لیکن میدان تماشائیوں سے خالی نظر آئیں گے اور کھلاڑی تماشائیوں سے ملنے والی داد کو ترستے رہ جائیں گے۔