عابد علی کی ٹیم میں ’’دروازہ توڑ‘‘ انٹری

کچھ کھلاڑی قومی ٹیم کے دروازے پر دستک دے دے کر تھک جاتے ہیں تو پھر ’’دروازہ توڑ‘‘ انٹری ہوتی ہے۔


Saleem Khaliq December 22, 2019
کچھ کھلاڑی قومی ٹیم کے دروازے پر دستک دے دے کر تھک جاتے ہیں تو پھر ’’دروازہ توڑ‘‘ انٹری ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں ایک ٹرینڈ سا ہے کہ نوجوانوں کو موقع دو، اگر آپ کی عمر30 سال سے زائد ہو گئی تو سمجھیں اب کھیلنا دشوار ہے۔

یہ ہمارے سسٹم کی ناکامی ہے کہ بھانجوں، بھتیجوں کو تو فوراً انٹرنیشنل کیپ مل جاتی لیکن حقدار کرکٹرز کے بالوں میں انتظار کرتے کرتے سفیدی آ جاتی ہے،البتہ کچھ کھلاڑی ایسے ہوتے ہیں جنھیں آپ جتنا نظرانداز کریں وہ مایوس ہوئے بغیر صرف اپنی کارکردگی پر ہی توجہ رکھتے ہیں، عابد علی اس کی روشن مثال ہیں، سابق چیف سلیکٹر ''انزی دی لیجنڈ'' سوری انضمام الحق نے اپنے بھتیجے امام الحق کو ٹیم میں سیٹ کرانے کیلیے ہر ممکن کوشش کر دی۔

آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ عابد نے اے ٹیم کی جانب سے سنچریاں بنائیں تو اس ڈر سے انھیں واپس بلا لیا کہ وہ بہت نمایاں ہو رہا ہے، بہانہ کئی دن بعد شیڈول ڈومیسٹک میچ کو بنایاگیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ عابد نے اس میچ میں بھی سنچری بنا دی، آج کل میڈیا اور سوشل میڈیا میں کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔

کچھ کھلاڑی قومی ٹیم کے دروازے پر دستک دے دے کر تھک جاتے ہیں تو پھر ''دروازہ توڑ'' انٹری ہوتی ہے، عابد نے بھی سلیکٹرز کو مجبور کر دیا کہ وہ انھیں اسکواڈ میں شامل کریں، اس کے بعد امام الحق انجرڈ ہوئے تو مجبوراً کھلانا پڑا جس کے بعد ون ڈے ڈیبیو پر سنچری داغ دی،آپ اندازہ لگائیں کہ ورلڈکپ اسکواڈ میں انھیں شامل نہیں کیا گیا، پھر ٹیسٹ ٹیم میں آئے تو موقع کا انتظار کرتے رہے، ہمیں مصباح الحق کو کریڈٹ دینا ہوگا جنھوں نے عابد کو ڈیبیو کا موقع دیا اور انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

پاکستانی اوپنرز عموماً پچ پر کچھوئے کی چال اپنا لیتے تھے، اب عابد نے آ کر یہ انداز تبدیل کیا، ان کے پاس اسٹروکس کا خزانہ موجود اور بیٹنگ دیکھ کر بہت لطف آتا ہے، ڈیبیو پر سنچری کے بعد وہ دوسرے ٹیسٹ میں ہی ڈبل سنچری کا اعزاز پانے سے محروم رہ گئے، لیکن یہ کارکردگی انھیں نظرانداز کرنے والوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے، نجانے کتنے اور عابد علی اسی ذاتی پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھ چکے۔

ہم اپنے ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز کوموقع دیں گے تو ایسے ہی نئے اسٹارز مل سکتے ہیں،کراچی ٹیسٹ کے ابتدائی دونوں دن کراؤڈ نہیں آیا، پھر عابد کی عمدہ بیٹنگ دیکھ کر تیسرے دن کافی لوگ آئے، اگر آپ پرفارم کرتے رہیں گے تب ہی شائقین کو اسٹیڈیم آنے پر راغب کیا جا سکتا ہے، عابد نے آغاز تو اچھا کیا اب امید ہے کہ اپنی اس کارکردگی کا سلسلہ برقرار رکھیں گے، انہی کی طرح ایک اور باصلاحیت کرکٹر فواد عالم بھی ناانصافیوں کا شکار ہیں، انھیں بھی جب کبھی موقع ملا وہ ٹیم میں جگہ پکی کر لیں گے۔

فواد کو ناپسند کرنے والے لوگوں کو شاید اسی بات کا خدشہ ہے اس لیے مجبوراً اسکواڈ میں تو لے لیا مگر کھلا نہیں رہے۔ کراچی ٹیسٹ میں ہمیں شان مسعود کی اننگز کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، یہ درست ہے کہ اعداد وشمار ان کی صلاحیت کا درست اظہار نہیں کرتے لیکن وہ بہت محنتی کھلاڑی ہیں، انھوں نے یہ چیز یونس خان سے سیکھی، آسٹریلیا میں اچھے آغاز کو شان بڑی اننگز میں تبدیل نہیں کر پا رہے تھے لیکن کراچی میں انھوں نے یہ بیریئر توڑ کر سنچری بنا دی۔

امید ہے کہ 278 رنز کی ریکارڈ ساز شراکت بنانے والا یہ اوپننگ پیئر طویل عرصے پاکستان ٹیم کے کام آئے گا، افتتاحی بیٹسمینوں کی عمدہ کارکردگی سے کپتان اظہرعلی کا بھی حوصلہ بڑھا اور وہ ففٹی بنانے میں کامیاب رہے، ان کا فارم میں آنا گرین کیپس کیلیے بیحد اہم ہے کیونکہ جلدی جلدی کپتان کی تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کراچی ٹیسٹ میں محمد عباس بھی سابقہ فارم میں دکھائی دیے اور انھوں نے چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا،البتہ ان کی کم رفتار مینجمنٹ کیلیے پریشانی کا باعث ہے۔

یقیناً وقار یونس اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے، ٹیم کیلیے ایک اچھی بات شاہین شاہ آفریدی کی عمدہ کارکردگی ہے، وہ تیزی سے اپنی صلاحیتیں نکھار رہے ہیں، البتہ انھیں اپنے رویے پر کام کرنا ہوگا، اگر آپ کو عظیم کھلاڑی بننا ہے توقدم زمین پر رکھنے چاہئیں، شاہین پہلے لاہور میں ایک صحافی سے الجھے جس کا کہنا ہے کہ اسے مبینہ طور پر دھمکی بھی دی، پھر راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کو اس کے رنگ کا طعنہ دے دیا۔

اب کراچی میں ان کی کسی سے تلخ کلامی ہو گئی، وہ تو اب ماضی جیسا دور نہیں اور صحافیوں میں یکجہتی نہیں رہی ورنہ اسی نیشنل اسٹیڈیم میں انگریزی اخبار سے وابستہ ایک صحافی کو 2008میں جب پولیس آفیسر نے زدوکوب کیا تو پورا میڈیا سینٹر خالی ہو گیا اور اسٹیڈیم کے گیٹ پر احتجاج کیا تھا،اب آپ صحافیوں کو کچھ بھی کہہ لیں کوئی کچھ نہیں کرے گا،کارکردگی دکھانا اچھی بات لیکن ''میں تم میڈیا والوں کو کچھ نہیں سمجھتا'' جیسی متکبرانہ باتیں مستقبل میں پریشان کریں گی۔

پی سی بی کا میڈیا ڈپارٹمنٹ بھی نجانے کیا کر رہا ہے جو ایسی چیزوں کو روک نہیں پاتا،شاید کچھ لوگوں کو میری یہ باتیں پسند نہ آئیں کہ ٹیم اتنا اچھا کھیل رہی ہے اور یہ کیا کہہ رہا ہے،مگر اچھے وقت میں ایسے مسائل حل کر لیں گے تو برا دور نہیں آئے گا۔ بطور کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق پلیئرز کی کارکردگی کے سبب دباؤ کا شکار تھے مگر کراچی میں اب ممکنہ فتح نظر آنے لگی ہے، اگر ایسا ہو گیا تو ان کو اطمینان کا سانس لینے کا موقع ملے گا، ساری بات نیت کی ہے۔

اگر آپ کی نیت اچھی ہو تو مثبت نتائج بھی سامنے آتے ہیں، اس بار فواد عالم کو ڈراپ کرنے کے سوا دیگر فیصلے ٹھیک رہے تو اس کا پھل بھی ملنے والا ہے، آئندہ بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، ڈومیسٹک کرکٹ میں جو پلیئرز اچھا کھیل پیش کر رہے ہیں انھیں عزت دیں، اگر کوئی 2019کا ٹاپ اسکورر یا زیادہ وکٹیں لینے والا کھلاڑی ہے تو اسے ابھی آزمائیں، کل کس نے دیکھا ہے، کیا پتا فارم برقرار رہے یا نہیں، ہر کوئی عابد علی تو نہیں ہوتا،مصباح کو اب بھرپور پاور مل چکی امید ہے وہ اس کا مثبت استعمال کرتے ہوئے حقداروں کو حق دلائیں گے۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں