کے ایم سی ڈی ایم سیز یونین کونسلوں میں مالی بحران شدید ہوگیا
بلدیاتی نظام درہم برہم, ایندھن کی کمی اورگاڑیوں کی مرمت نہ ہونے کے باعث لینڈفل سائیڈوں تک کچرا پھینکنے کا کام متاثر.
سندھ اسمبلی کے سامنے کیبل بچھانے کے لیے کھدائی کرکے کام ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے،جس سے راہگیروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس
سندھ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور عدم دلچسپی کے باعث بلدیہ عظمیٰ کراچی، پانچوں ضلعی میونسپل کارپوریشنز اور یونین کونسلوں کو شدید مالی بحران درپیش ہے جس سے پورا بلدیاتی نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔
تعمیراتی کام مکمل طور پر ٹھپ پڑے ہیں ، ایندھن کی کمی اور کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کی مرمت نہ ہونے کے باعث شہر سے لینڈفل سائیڈوں تک کچرا پھینکنے کا کام شدید متاثر ہے اور علاقے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں جبکہ پیر سے روزانہ کی صفائی ستھرائی کا نظام بھی مفلوج ہونے کا خطرہ ہے، دو ماہ گزرجانے کے باوجود کراچی سمیت سندھ کی بیشتر ضلعی کارپوریشنز اور یونین کونسلوں کے مالی بجٹ منظور نہیں کیے گئے ہیں جبکہ صوبائی محکمہ لوکل گورنمنٹ نے ہدایت کی ہے کہ تمام ضلعی اداروں کا کوئی بل آڈٹ نہ کیا جائے تاوقتیکہ ان کے بجٹ صوبائی حکومت منظور کرلے۔
باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ مالی بحران نے بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت سندھ کے تمام ضلعی اداروں کی سرگرمیوں کو مفلوج کردیا اور یہ سندھ کی بلدیاتی تاریخ کا سیاہ ترین دورکہلایا جارہا ہے، بلدیاتی ملازمین کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں اور تنخواہوں میں20 فیصد اضافہ خواب بن کررہ گیا ہے، کے ایم سی کو گذشتہ مالی سال میں جی ایس ٹی کے نفاذ کے تحت آکٹرائے ضلع ٹیکس کی مد میں7ارب روپے خسارے کا سامنا ہے جبکہ رواں سال بھی سندھ حکومت نے کے ایم سی کا داخل کردہ کلیم52فیصد کا شیئر منظور نہیں کیا ہے، اگرچہ رواں مالی سال میں ایم سی کا بجٹ29جولائی کو منظور کرلیا گیا ہے۔
تاہم مالی پیچیدگیوں کا معاملہ میٹروپولٹین کارپوریشن کو بھی درپیش ہے، کے ایم سی نے آکٹرائے ضلع ٹیکس کی مد میں سالانہ11ارب روپے کا کلیم کیا تھا تاہم حکومت سندھ نے3.92ارب روپے مختص کیے ہیں، آکٹرائے ضلع ٹیکس کی مد میں ماہانہ بنیادوں پر 32 کروڑ 26 لاکھ روپے جاری کیے جارہے تاہم گرانٹ اینڈ ایڈ کے نام سے 50کروڑ اضافی دیے جارہے ہیں جس سے ملازمین کی تنخواہیں، یوٹیلیٹی بلز اور دیگر اخراجات ادا کیے جارہے ہیں، رواں بجٹ میں صوبائی اور ڈسٹرکٹ اے ڈی پی میں بالترتیب 4.8ارب اور3ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تاہم ابھی تک ایک پیسہ جاری نہیں کیا گیاجس کے باعث تقریباً تمام ترقیاتی منصوبے ٹھپ پڑے ہیں، پانچوں ضلعی میونسپل کارپوریشنز اور یونین کونسلز بھی شدید ترین مالی بحران کا شکار ہیں، گذشتہ سال سے رواں مالی سال تک پراپرٹی ٹیکس اور آکٹرائے ضلع ٹیکس کی مد میں بالترتیب بلدیہ شرقی13کروڑ روپے اور7کروڑ، بلدیہ جنوبی26کروڑ اور 13کروڑ روپے، بلدیہ ملیر3کروڑ روپے، بلدیہ وسطی 12 کروڑ اور 28 کروڑ روپے اور بلدیہ غربی کو16-16کروڑ روپے خسارے کا سامنا ہے۔