مسلم مخالف بل کے مظاہرین پر بھارتی پولیس کا انسانیت سوز تشدد ہلاکتیں 25 ہوگئیں

سیکڑوں افراد کی گرفتاری، انٹرنیٹ معطلی، تعلیمی اداروں کی بندش اور دفعہ 144 کے باوجود مظاہرے جاری ہیں


December 22, 2019
بھارتی پولیس کے لاٹھی چارج اور فائرنگ سے مظاہرین کی ہلاکت پر احتجاج پُرتشدد ہوگیا، فوٹو : ٹویٹر

بھارت میں مسلم مخالف متنازع 'شہریت ترمیمی بل' پر مودی سرکار کیخلاف شہر شہر اور گاؤں گاؤں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، عوامی دباؤ کے باعث جھنجھلاہٹ کی شکار مودی سرکار نے مظاہرین پر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی ریاستوں اترپردیش، آسام، کرناٹک، کیرالہ اور دارالحکومت نئی دہلی سمیت کئی علاقوں میں شدید عوامی احتجاج جاری ہے، عوامی دباؤ پر جھنجھلاہٹ کے شکار مودی سرکار نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ پولیس کے لاٹھی چارج، ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس شیلنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔

India Protest On CAA 1

زیادہ تر ہلاکتیں ریاست اترپردیش میں ہوئیں جہاں میرٹھ میں 3، بجنور میں 2 جب کہ وارانسی، فیروز آباد، سمبھال اور کان پور میں ایک ایک ہلاکتیں ہوئیں۔ لاٹھی چارج کے دوران ہلاک ہونے والوں میں 8 سالہ بچہ بھی شامل ہے جب کہ آسام میں فوج طلب کرنا پڑگئی ہے، لکھنؤ سمیت کئی بڑے شہروں میں انٹرنیٹ معطل ہے اور حساس مقامات پر دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔ مظاہروں میں طلبا کی بڑی تعداد شرکت کے باعث حکومت نے تعلیمی اداروں کو بند کردیا ہے۔

India Protest On CAA 3

کئی مقامات پر مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں، جس میں 50 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے جب کہ پولیس کے طاقت کے استعمال پر مشتعل مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور کئی گاڑیوں کو نذرآتش کردیا گیا۔ ادھر پولیس نے اقلیتوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن اور بھیم آرمی کے چیف چندرا شیکھر آزاد کو حراست میں لے لیا ہے، آزاد نے مظاہروں کے درمیان گرفتاری سے بچنے کیلیے پولیس کو کئی بار چکمہ دیا تھا۔

India Protest On CAA 4

واضح رہے کہ مودی سرکار نے ایک نیا بل منظور کیا ہے جس کے تحت بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی 6 مذہبی اکائیوں ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ سے تعلق رکھنے والے افراد کو شہریت دینے کی تجویز رکھی گئی ہے اور مسلمانوں کو محروم رکھا گیا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں