دسمبر کے صدمے اور سانحے
کئی حاسدین نے ناک منہ چڑھایا مگرمیں دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ اگراس کیلیے کوئی ٹیسٹ بھی ہوتاتو بھی وہ سب کوپچھاڑدیتے۔
نہ جانے سارے صدمے اور حادثے دسمبر کے لیے ہی کیوں لکھ دیے گئے ہیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کو جان سے عزیز ہمارا پیارا اسامہ (سابق ڈپٹی کمشنر چترال)تین سال پہلے سات دسمبر کو ہم سے جدا ہوا۔کہنے کو تین سال ہو چکے مگر ایک دن کے لیے بھی اسامہ ہمارے دلوں سے محو نہیں ہوا۔
اُس روز ہم سب اسامہ کے والدین کے پاس جمع ہوتے ہیں،خدائے بزرگ و برتر سے اس کے درجات کی بلندی کی دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے دوست اور کولیگ بھی آتے ہیں جو اس کی باتیں اور اس کے حیران کُن قصے سناتے ہیں کہ کس طرح اُسے خلقِ خدا کی بہتری کا جنون تھا اور وہ جہاں تعینات رہا وہاں کے عوام کسطرح اُس سے آج بھی بے پناہ محبّت کرتے ہیں۔
سات دسمبر کی رات میں اور بھائی ڈاکٹر نثار احمد صاحب باجی کے گھر ایف ٹین سے نکلے تو پروگرام کے مطابق سیدھے ایئرفورس کے نئے تعمیر شدہ اسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں پہنچے جہاں ہمارے دیرینہ دوست اور سنیئر صحافی (ایکسپریس اور دنیا کے سابق ایڈیٹر اور اے پی پی کے سابق ڈائریکٹر جنرل)مسعود ملک صاحب زیرِ علاج تھے، وہ کینسر جیسے موذی مرض سے پنجہ آزمائی کر تے کرتے بے حال ہو کر یہاں آ پہنچے تھے۔ اُس روز ان کی آواز بہتر محسوس ہوئی تو قدرے اطمینان ہوا،ہم بھابی( مسعود ملک)کی اہلیہ کو تسّلی دے کر باہر نکلے تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر سے دریافت کیا جس نے بڑی مایوس کن صورت ِحال بتائی۔ہم دونوں کو معالج کی رائے پسند نہ آئی اور ہم نے اسے غیر پیشہ ورانہ رائے سے تعبیرکیا۔ مگردودن بعد ملک صاحب کے نمبر سے کال آئی تو اُن کے بیٹے نے اطلاع دی کہ ابو ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
آج سے تیس سال پہلے میں اے ایس پی سے پرموٹ ہوکر ایس پی بنا تو پہلی تعیناتی راولپنڈی میں ہوئی۔اس سے پہلے تحصیلوں میں میرا واسطہ جس قسم کے کرائم رپورٹروںسے پڑتا رہا تھا، اُن میں بہت سے مشکوک کردار کے لوگ تھے لہٰذا میرا ان کے بارے میںتاثر بڑا منفی تھا مگر مسعود ملک نے صحافیوں کے بارے میں میرا تاّثر بدل کر رکھ دیا۔ ذہین، خوش گفتار، حاضرجواب، شستگی اور مزاح سے بھرپور گفتگوکرنے والا، حالات وواقعات کا انتہائی دلنشین انداز میں تجزیہ کرنے کی قدرت رکھنے والا اور سب سے بڑھ کر باضمیر اور باکردار۔ مسعود ملک سے بہت جلد ہماری دوستی ہوگئی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار پولیس نے راولپنڈی میں منشیات کے خاتمے کے لیے ساری رات آپریشن کیا،کچھ علاقوں کو منشیات کا گڑھ ہو نے کی وجہ سے سہراب گوٹھ کہاجاتا تھا، کئی علاقوں میں مزاحمت بھی ہوئی مگر پولیس نے مزاحمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، بڑی مقدارمیں منشیات برآمد کیںاور کئی بڑے منشیات فروش گرفتارکیے۔مسعود ملک کے ہاتھ میں مجھے کوئی کاغذ یا قلم نظر نہ آیا،وہ رات گئے تک آپریشن میں مبصّر کی حیثیّت سے ہمارے ساتھ رہے مگر دوسرے روز انھوںنے اپنے اخبار نوائے وقت میں آپریشن کی اتنی تفصیلی رپورٹ لکھی کہ ہم ان کی ذہانت اور حافظے پر حیران رہ گئے۔ مسعود ملک کی یہ خوبی تھی کہ وہ دیانتدار اور باکردار افسروں کی قدر کرتے اور بد دیانت افسروں سے دور رہتے تھے۔
ان کے ساتھی اور عام شہری بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ُانھوں نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی آمریّت میں پوری جرأت کے ساتھ حق اور سچ کا علم بلند رکھا، یہ تو ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ اُسوقت جب جنرل مشرف کا اقتدار نصف النہا ر پر تھا اور اس کے جاہ و جلال سے بڑے بڑے قلمکار سہم گئے تھے اُسوقت ایک پریس کانفرنس میں جب مختلف اداروں کے صحافی اس سے بڑے نرم ، مثبت اور دوستانہ سوالات کررہے تھے تو مسعود ملک نے انتہائی جرا تمندانہ سوال کر کے ڈکٹیٹر کو ہلا کر رکھ دیا اور اُس کو پریس کانفرنس ختم کرنا پڑی ۔ اپنی جراتمندی اور باضمیری کے باعث ملک صاحب کو کئی بار قربانی بھی دینا پڑی ۔ جنرل مشرف سے پوچھے گئے سوال پر ملک صاحب کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔اس دوران مسعود ملک پر بڑے مشکل حالات بھی آئے مگر انھوںنے بڑی ہمّت اور اِستقامت سے ان کا مقابلہ کیا ، اور ضمیر کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا۔
ان کی ذہانت اور صاف ستھرے کردار کے باعث سابق وزیراعظم نواز شریف انھیں بڑی عزت دیتے تھے اور ان کی صائب رائے کو بڑی اہمیّت دیتے تھے ۔ ان دنوں راقم پرائم منسٹر کا اسٹاف افسر تھا اور سنگین جرائم کے سلسلے میں پرائم منسٹر کو بریف کیا کرتا تھا ،کئی بار ہوائی سفر میں کچھ دوسرے صحافیوں کے علاوہ مسعود ملک صاحب بھی ہمراہ ہوتے تھے مگر میں نے ہمیشہ دیکھا کہ ملک صاحب کا انداز خوشامدانہ نہیں دوستانہ اور مدبّرانہ ہوتاتھا اور وہ پرائم منسٹر کو ہمیشہ درست مشورے دیتے تھے۔
یہ ضروری نہیں کہ ان کے مشورے مان بھی لیے جاتے کیونکہ تمام حکمرانوں کو وہ مشورے زیادہ اچھے لگتے ہیں جنمیں تنقیدنہ ہو بلکہ صرف خوشامد ہو۔ ملک صاحب نے حکمرانوں کے ساتھ اپنے قرب کا کبھی ناجائز فائدہ نہ اٹھایا۔ بلکہ مسلم لیگی لیڈرشپ کے ساتھ تعلّق کاانھیں نقصان زیادہ اٹھانا پڑا۔برسوں کی نوکری سے محرومی کے بعد انھوں نے اسلام آباد ٹائمز کے نام سے اپنا اخبار نکالا۔پھر'' اوصاف'' کے ایڈیٹر رہے، روزنامہ'' ایکسپریس'' ، اسلام آباد سے جاری ہوا تو ملک صاحب اس کے ایڈیٹر بنے ، پھر وہ روزنامہ'' دنیا'' کے بھی ایڈیٹر رہے، 2014 میں انھیں اے پی پی کا ڈائریکٹرجنرل بنایا گیا ۔
کئی حاسدین نے ناک منہ چڑھایا مگر میں دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ اگر اس کے لیے کوئی ٹیسٹ بھی ہوتا تو بھی وہ سب کو پچھاڑ دیتے۔ بلاشبہ اِسوقت ان کے پائے کا کوئی اور صحافی نہیں تھا، جو صحافت کے رموز بھی جانتا ہو،کئی اخباروں کا مدیر بھی رہ چکا ہواور اچھا منتظم بھی ہو۔ اے پی پی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے انھوں نے اس ادارے کی ترقّی اور بہتری کے لیے کئی منصوبے بنائے، ان میں سے کئی پایہء تکمیل تک پہنچ گئے اور کئی ادھورے ہی رہ گئے۔سناہے پرائیویٹ چینلوں کے اینکر بہت موٹی تنخواہیں لیتے ہیں مگر قلم کے مزدور بمشکل سفید پوشی برقرار رکھ سکتے ہیں، یہی حال مسعود ملک صاحب کا تھا، وہ چالیس سالہ صحافتی کیریئر کے بعد بھی کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور ان کے تینوں بیٹوں میں سے کوئی بھی باروزگار نہیں ہے۔
مسعود ملک انتہائی مخلص اور شریف النّفس انسان تھے، ان کا میاں نوازشریف سے بڑا قریبی تعلّق رہا مگر مسلم لیگی قیادت نے پچھلے کئی سالوںسے نہ ملک صاحب سے رابطہ کیا اور نہ ہی مشکل حالات میں ان کا ساتھ دیا۔سنا ہے کہ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی اور ق لیگ کی قیادت کا طرزِ عمل بہتر ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کا خیال رکھتے ہیں اور مشکل وقت میں ان سے منہ نہیں موڑلیتے ۔مسعود ملک کی وفات ان کی فیملی ہی نہیں پورے شعبہء صحافت کا بہت بڑا نقصان ہے ۔وہ زندگی گزارنے کے لیے رب کائنات کے احکامات اور آقائے دوجہاںﷺ کی تعلیمات سے راہنمائی لیتے تھے اس لیے ان کے گھر میں اسلامی ماحول تھا اسی ماحول میں ان کے بچوں نے تربیّت حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے درجات بلند فرمادیں اور ہماری بھابھی اور بچّوں پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائیں اور ان کے لیے زندگی کا سفر آسان بنادیں۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکیلوں کا حملہ بھی ایک قومی حادثہ ہے، اس سانحے پر معروف گلوکار جواد احمد کا ٹویٹ ملاخطہ کریں
''ینگ ڈاکٹر بمقابلہ ینگ وکلاء''
یہ عمران خان کا پاکستان ہے جنھوں نے نوجوانوں کو گالی اور زہریلی گفتگو سکھائی وہ خود تو ایک 300کنال کے گھر میں عیش کی زندگی گذار رہے ہیں لیکن انھوں نے اپنی جھوٹ ، دھرنے اور نفرت کی سیاست سے کروڑوں لوگوں کی نہ صرف زندگیاں برباد کی ہیں بلکہ ان کی اخلاقیات بھی تباہ کردی ہیں''۔
اور 16دسمبر کو لگنے والا سقوطِ مشرقی پاکستان کا زخم کبھی مندمل ہوہی نہیں سکتا۔ پہلے اس روز میڈیا پر بحث مباحثہ ہوتا تھا، کچھ introspection ہوتی تھی ، اس شرمناک شکست اور ہزیمت کی وجوہات تلاش کی جاتی تھیں، سبق سیکھنے کی باتیں بھی ہوتی تھیں مگر اب تو بات بھی نہیں ہوتی ہے اور یہی نشانیاں ہیں، ایک بے حِس قوم کی!!
16دسمبر کو پشاور میںمعصوم فرشتے دہشتگردی کا نشانہ بنے ، اللہ تعالیٰ ان کے والدین کو صبر اور سکون عطا فرمائیں۔ اور اب اِسی دسمبر میں ایک اور سانحہ ہوا، وزیراعظم عمران خان صاحب کے مشورے سے ان کے استاد اور گائیڈ ڈاکٹر مہاتیر اور ترکی کے جراتمند راہنماطیبّ اردوان نے کوالا لمپور کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا، وزیراعظم صاحب اسمیں شرکت کے لیے بڑے پر جوش تھے مگرکسی کی ایک کا ل پر ہی ڈھیر ہوگئے اور یوٹرن لے لیا۔
کشمیر کے معاملے میں ایک بڑی مارکیٹ سے محرومی کا نقصان اٹھا کر بھی ترکی اور ملائیشیا ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے جب کہ عرب ممالک قاتل مودی کو ایوارڈ دیتے رہے۔ پاکستان سے محبّت کرنے والے ترک ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے کہ یہ ایٹمی ملک ڈالروں کے لیے اپنے مخلص دوستوں کے ساتھ بے وفائی کے لیے تیّا ر ہو جاتا ہے!! یہ کسی بڑے سانحے سے کم نہیں ہے!کئی راتوں سے سو نہیں سکا۔ موجودہ حکومت کے لگائے گئے زخموں سے پہلے ہی یہ قوم کراہ رہی تھی، کیا اب ہمارا وزیراعظم وطنِ عزیر کو ترک بھائیوں کی محبّت سے بھی محروم کر دیگا!
یہ درست ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف آئین شکنی کا جرم ثابت ہو اہے، غداری کا نہیں۔ غداری کا لفظ استعمال نہیں ہونا چاہیے، اُس فیصلے کے خلاف اپیل ہو سکتی ہے ، مگر عدلیہ یا ججوں کے بارے میںہرزہ سرائی نہیں ہونی چاہیے، اس سے انارکی پھیلے گی ! ملک کے لیے ذوالفقار علی بھٹواور نوازشریف کی خدمات مشرف سے کہیں زیادہ ہیں مگر ایک کو پھانسی دے دی گئی، کیاقوم میں بددلی نہیںپھیلی تھی؟دوسرے کو پہلے جلاوطن اورپھر نااہل کراکے سزادلادی گئی کیا اس کے کروڑوں چاہنے والوں میں بددلی نہ پھیلی ؟مگر ہر وزیراعظم نے فیصلے کے آگے سر جھکادیا۔فیصلے کا پیرا66(جو ایک جج صاحب کی رائے ہے فیصلہ نہیں)نامناسب ہے مگر ججوں کو intimidateکرنا سانحے سے کم نہیں ۔ پوری قوم کو ایک خاندان سمجھنا چاہیے اورفوری طور پرسیاسی،عدالتی اور عسکری قیادت کے درمیان ڈائیلاگ شروع ہونا چاہیے۔