کوالا لمپور سمٹ وزیراعظم آفس سے دفتر خارجہ کی سفارشات نظرانداز
حکومت کو بتادیا گیا تھا کہ پہلے کانفرنس کے مقاصد کا جائزہ لیا جائے، شرکت پر سعودیہ سے ردعمل آئیگا، حکام دفتر خارجہ
کوالالمپور سربراہ کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے وزیراعظم آفس نے دفتر خارجہ کی سفارشات کو نظرانداز کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو سفارتی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ''ایکسپریس ٹریبیون'' کو بتایا کہ کوالالمپور سمٹ کے حوالے سے ناخوشگوار صورتحال کا ذمے دار دفتر خارجہ کو ٹھہرانا غلط ہے۔ پاکستان کو جب اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی تو دفتر خارجہ نے حکومت کو احتیاط سے قدم اٹھانے کا مشورہ دیا تھا، چونکہ سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادی کانفرنس کو شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے اس لئے حکومت کو یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ اس حوالے سے کھلے عام کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کیا جائے تاہم وزیراعظم آفس نے دفتر خارجہ کی ایڈوائس کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی کوالالمپور سمٹ میں شرکت کی یقین دہانی کرا دی۔ اگر حکومت ان سفارشات پر توجہ دیتی تو پاکستان کو اس خجالت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
دفتر خارجہ کے حکام نے بتایا کہ حکومت کو واضح الفاظ میں بتا دیا گیا تھا کہ اس کانفرنس میں شرکت کے نتیجے میں سعودی عرب سے ردعمل آئے گا۔ ہم نے تجویز کیا تھا کہ پہلے کوالالمپور سمٹ کے مقاصد اور اہداف کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا کوئی ہوم ورک ہونے سے پہلے ہی وزیراعظم نے ملائشیا کو کانفرنس میں شرکت کیلئے اپنی رضامندی دیدی۔
اس سوال پر کہ کیا وزیراعظم مسلم دنیا کی سیاسی حرکیات سے باخبر نہیں تھے دفتر خارجہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ اس حکومت میں دفتر خارجہ کا پالیسی سازی میں کردار بہت کم ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے زیادہ تر فیصلے حقیقت میں دفتر خارجہ سے مشاورت کے بغیر کئے جا رہے ہیں۔
حکام نے ایک اور مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اکتوبر میں ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں افغان طالبان کے وفد کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر بھی دفتر خارجہ کی تجویز کو نظر انداز کیا گیا۔ دفتر خارجہ کے سینئر حکام اس دورے کو لو پروفائل اور میڈیا کی تشہیر سے دور رکھنا چاہتے تھے تاہم اس کے برعکس وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے معمول سے ہٹ کر وفد کے استقبال کے لئے دفتر خارجہ پہنچ گئے۔
دفتر خارجہ کی طرف سے جاری تصاویر میں شاہ محمود اور اعلیٰ سکیورٹی حکام کو طالبان رہنماؤں سے بغلگیر ہوتے دکھایا گیا جو کہ کوتاہ اندیشانہ فیصلہ تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ طالبان ہماری جیب میں ہیں۔ دفتر خارجہ کبھی اس طرح کا تاثر دینا نہیں چاہتا تھا۔
دفتر خارجہ کے اندرونی ذرائع کے مطابق دفتر خارجہ کو نظرانداز کئے جانے کی ایک وجہ موجودہ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود ہیںجو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں شاید ہی اپنی اتھارٹی منواتے ہیں۔
دفتر خارجہ کے بہت سے سینئر افسران اس حوالے سے پریشان ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی حماقتوں کی وجہ سے دفتر خارجہ کا تاثر مجروح ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا جب آپ کے وزیراعظم دفتر خارجہ کی مشاورت کے بغیر خارجہ پالیسی کے حوالے سے عجلت میں فیصلے کرینگے تو اس سے خجالت آمیر صورتحال سے بچنا خاصا مشکل ہوگا۔
سابق سفیر عبدالباسط نے بھی کوالالمپور سمٹ کے معاملے کو ہینڈل کرنے کے حوالے سے حکومت کے انداز پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت نے اس کانفرنس میں شرکت کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لئے بغیر دعوت قبول کر لی۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے دفتر خارجہ کو بنیادی کام اور روایتی اور غیرروایتی چینل سے سعودی عرب سے مشاورت کرنی چاہئے تھی۔
دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ''ایکسپریس ٹریبیون'' کو بتایا کہ کوالالمپور سمٹ کے حوالے سے ناخوشگوار صورتحال کا ذمے دار دفتر خارجہ کو ٹھہرانا غلط ہے۔ پاکستان کو جب اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی تو دفتر خارجہ نے حکومت کو احتیاط سے قدم اٹھانے کا مشورہ دیا تھا، چونکہ سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادی کانفرنس کو شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے اس لئے حکومت کو یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ اس حوالے سے کھلے عام کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کیا جائے تاہم وزیراعظم آفس نے دفتر خارجہ کی ایڈوائس کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی کوالالمپور سمٹ میں شرکت کی یقین دہانی کرا دی۔ اگر حکومت ان سفارشات پر توجہ دیتی تو پاکستان کو اس خجالت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
دفتر خارجہ کے حکام نے بتایا کہ حکومت کو واضح الفاظ میں بتا دیا گیا تھا کہ اس کانفرنس میں شرکت کے نتیجے میں سعودی عرب سے ردعمل آئے گا۔ ہم نے تجویز کیا تھا کہ پہلے کوالالمپور سمٹ کے مقاصد اور اہداف کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا کوئی ہوم ورک ہونے سے پہلے ہی وزیراعظم نے ملائشیا کو کانفرنس میں شرکت کیلئے اپنی رضامندی دیدی۔
اس سوال پر کہ کیا وزیراعظم مسلم دنیا کی سیاسی حرکیات سے باخبر نہیں تھے دفتر خارجہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ اس حکومت میں دفتر خارجہ کا پالیسی سازی میں کردار بہت کم ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے زیادہ تر فیصلے حقیقت میں دفتر خارجہ سے مشاورت کے بغیر کئے جا رہے ہیں۔
حکام نے ایک اور مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اکتوبر میں ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں افغان طالبان کے وفد کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر بھی دفتر خارجہ کی تجویز کو نظر انداز کیا گیا۔ دفتر خارجہ کے سینئر حکام اس دورے کو لو پروفائل اور میڈیا کی تشہیر سے دور رکھنا چاہتے تھے تاہم اس کے برعکس وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے معمول سے ہٹ کر وفد کے استقبال کے لئے دفتر خارجہ پہنچ گئے۔
دفتر خارجہ کی طرف سے جاری تصاویر میں شاہ محمود اور اعلیٰ سکیورٹی حکام کو طالبان رہنماؤں سے بغلگیر ہوتے دکھایا گیا جو کہ کوتاہ اندیشانہ فیصلہ تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ طالبان ہماری جیب میں ہیں۔ دفتر خارجہ کبھی اس طرح کا تاثر دینا نہیں چاہتا تھا۔
دفتر خارجہ کے اندرونی ذرائع کے مطابق دفتر خارجہ کو نظرانداز کئے جانے کی ایک وجہ موجودہ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود ہیںجو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں شاید ہی اپنی اتھارٹی منواتے ہیں۔
دفتر خارجہ کے بہت سے سینئر افسران اس حوالے سے پریشان ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی حماقتوں کی وجہ سے دفتر خارجہ کا تاثر مجروح ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا جب آپ کے وزیراعظم دفتر خارجہ کی مشاورت کے بغیر خارجہ پالیسی کے حوالے سے عجلت میں فیصلے کرینگے تو اس سے خجالت آمیر صورتحال سے بچنا خاصا مشکل ہوگا۔
سابق سفیر عبدالباسط نے بھی کوالالمپور سمٹ کے معاملے کو ہینڈل کرنے کے حوالے سے حکومت کے انداز پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت نے اس کانفرنس میں شرکت کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لئے بغیر دعوت قبول کر لی۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے دفتر خارجہ کو بنیادی کام اور روایتی اور غیرروایتی چینل سے سعودی عرب سے مشاورت کرنی چاہئے تھی۔