پنجاب میں معدومی کا شکار جنگلی حیات کی افزائش میں اضافہ
پوٹھوہارکے مختلف علاقوں میں چیتے اور لنگورسے مشابہت رکھنے والے مارٹن کی موجودگی کے بھی آثار ملے ہیں
پنجاب میں پرائیویٹ سیکٹر کی معاونت سے معدومی کا شکار جنگلی حیات کی افزائش اور بحالی میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے۔
پنجاب میں پانچ سی بی اوز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 2 چکوال، 2 جہلم اورایک میانوالی میں کام کررہی ہیں۔ ان سی بی اوز کو جنگلی حیات کی افزائش کے لیے ہزاروں ایکڑ رقبہ دیا گیا ہے جب کہ جو ایریا سی بی اوز کی حدود کے باہر ہے وہ سینچریزہیں جہاں وائلڈ لائف خود کام کررہی ہے۔ ان سی بی اوز کی وجہ سے مختلف علاقوں میں پنجاب اڑیال، چکور،تیتر، جنگلی خرگوش، بٹیرے،مور، شاہین اور پینگولین عام دیکھے جاسکتے ہیں۔
رواں ماہ پنجاب وائلڈ لائف نے مختلف علاقوں میں تلور کا سروے مکمل کیا ہے۔ اس سروے کے دوران جہاں تلور کی درست تعداد کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے وہیں سروے ٹیموں میں شامل افراد نے دیگر مختلف جانوروں اور پرندوں کی بڑھتی ہوئی تعدادکا مشاہدہ کیاہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے بھی معدومی کا شکار جانوروں، پرندوں، پودوں اور دیگر حیاتیات کی معلومات جمع کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ جس میں وائلڈ لائف سائنسدان، محققین، یونیورسٹی کے طلبا وطالبات ، ڈبلیو ڈبلیو ایف، زولوجیکل سروے آف پاکستان اور وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی کے نمائندے شامل ہیں۔
وائلڈ لائف ذرائع کے مطابق حالیہ سروے میں پوٹھوہارکے مختلف علاقوں میں چیتے اور لنگورسے مشابہت رکھنے والے مارٹن کی موجودگی کے بھی آثار ملے ہیں تاہم ان کی کوئی ویڈیو اور تصاویر سامنے نہیں آسکی ہیں۔ خطہ پوٹھوہار میں سیہہ، سور اور گیدڑ بھی عام ہیں اوران کے شکار پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔ وائلڈ لائف حکام سمجھتے ہیں کہ یہ جانور چونکہ بکثرت ہیں اور جنگلی حیات کی دوسری نسلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اس لئے ان کا شکار کرنے والوں کو آزادی دی گئی ہے۔
بدر منیر نے بتایا کہ اس خطے میں جنگلی حیات کی بڑھتی ہوئی افزائش اور تعداد کی بڑی وجہ یہاں کام کرنیوالی سی بی اوزہیں، سی بی اوزکو جب حکومت کوئی مخصوص علاقے الاٹ کرتی ہے تو پھر یہاں جنگلی حیات کی افزائش ،بقا اورافزائش کی اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے، سی بی اوز پہلاکام یہ کرتی ہیں کہ اپنے ایریامیں غیرقانونی شکارکوروکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ انہوں ابتک 100 سے زیادہ غیرقانونی شکاریوں کے خلاف چلان کئے ہیں جن کو بھاری جرمانے اورسزائیں سنائی گئی ہیں۔
پنجاب میں پانچ سی بی اوز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 2 چکوال، 2 جہلم اورایک میانوالی میں کام کررہی ہیں۔ ان سی بی اوز کو جنگلی حیات کی افزائش کے لیے ہزاروں ایکڑ رقبہ دیا گیا ہے جب کہ جو ایریا سی بی اوز کی حدود کے باہر ہے وہ سینچریزہیں جہاں وائلڈ لائف خود کام کررہی ہے۔ ان سی بی اوز کی وجہ سے مختلف علاقوں میں پنجاب اڑیال، چکور،تیتر، جنگلی خرگوش، بٹیرے،مور، شاہین اور پینگولین عام دیکھے جاسکتے ہیں۔
رواں ماہ پنجاب وائلڈ لائف نے مختلف علاقوں میں تلور کا سروے مکمل کیا ہے۔ اس سروے کے دوران جہاں تلور کی درست تعداد کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے وہیں سروے ٹیموں میں شامل افراد نے دیگر مختلف جانوروں اور پرندوں کی بڑھتی ہوئی تعدادکا مشاہدہ کیاہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے بھی معدومی کا شکار جانوروں، پرندوں، پودوں اور دیگر حیاتیات کی معلومات جمع کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ جس میں وائلڈ لائف سائنسدان، محققین، یونیورسٹی کے طلبا وطالبات ، ڈبلیو ڈبلیو ایف، زولوجیکل سروے آف پاکستان اور وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی کے نمائندے شامل ہیں۔
وائلڈ لائف ذرائع کے مطابق حالیہ سروے میں پوٹھوہارکے مختلف علاقوں میں چیتے اور لنگورسے مشابہت رکھنے والے مارٹن کی موجودگی کے بھی آثار ملے ہیں تاہم ان کی کوئی ویڈیو اور تصاویر سامنے نہیں آسکی ہیں۔ خطہ پوٹھوہار میں سیہہ، سور اور گیدڑ بھی عام ہیں اوران کے شکار پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔ وائلڈ لائف حکام سمجھتے ہیں کہ یہ جانور چونکہ بکثرت ہیں اور جنگلی حیات کی دوسری نسلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اس لئے ان کا شکار کرنے والوں کو آزادی دی گئی ہے۔
بدر منیر نے بتایا کہ اس خطے میں جنگلی حیات کی بڑھتی ہوئی افزائش اور تعداد کی بڑی وجہ یہاں کام کرنیوالی سی بی اوزہیں، سی بی اوزکو جب حکومت کوئی مخصوص علاقے الاٹ کرتی ہے تو پھر یہاں جنگلی حیات کی افزائش ،بقا اورافزائش کی اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے، سی بی اوز پہلاکام یہ کرتی ہیں کہ اپنے ایریامیں غیرقانونی شکارکوروکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ انہوں ابتک 100 سے زیادہ غیرقانونی شکاریوں کے خلاف چلان کئے ہیں جن کو بھاری جرمانے اورسزائیں سنائی گئی ہیں۔